کتاب ’’سربازی برای ہمیشہ‘‘ سے اقتباس

بدر آپریشن کی روداد

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: صائب جعفری

2023-11-18


پے در پے چھوٹے چھوٹے آپریشنز کے  بعد آپریشن بدر [1]کا آغاز ہوا۔ یہ آپریشن بہت ہی مخفی تھا۔ ہم نے بعد میں بسیجیوں اور فوجیوں سے سنا کہ  اس آپریشن میں  مخلص سپاہیوں اور بسیجیوں کی ایک تعداد نے شرکت کی، مگر وہ کبھی لوٹ کر واپس نہ آسکے۔

اس آپریشن کو اس کے اجراء تک بہت ہی خفیہ رکھا گیا تھا۔   اس آپریشن کا پہلا فیز (مرحلہ) یعنی دشمن کو  حیرت میں ڈالنے کا مرحلہ با آسانی سر ہوگیا مگر ۱۴ ، ۱۵ کلو میٹرتک دلدل، جنگل اور سرکنڈے تھے جس کی وجہ سے دوسرے اور تیسرےدن دشمن ہماری فوجوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گیا۔

القرنہ  یعنی شط الفرات ہمارے آپریشنز کا میدان تھا۔ سپاہیوں کو بمشکل تمام یہ استہ کشتی میں طے  کرنا تھا۔  یہی دلدل اور سرکنڈے اس کا سبب تھے کہ آپریشن مکمل طور پر کامیاب نہ ہو۔

بدر آپریشن ہور العظیم میں جو شمالی اور جنوبی جزیرہ مجنون کی حد فاصل ہے   اس کے نزدیک ایک علاقہ تبور میں کیا گیا۔ ہم بھی شہید ہمت روڈ پر  پڑاؤ ڈال بیٹھے اور اپنا کام شروع کر دیا۔ اس آپریشن کو تیار کرنے میں بو شہر کے جوانوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ آپریشن شروع ہونے سے ایک ماہ پہلے ہی ہور کے علاقہ میں جاکر مختلف مقامات پر پھیل گئے تھے۔

ان میں سے کچھ ولیعصر کے ساتویں لشکر اور کچھ ثار اللہ کے لشکر سے ملحق ہو گئے تھے۔ یہ مخلص مجاہد ان نا مساعد حالات میں دن رات کام کر رہے تھے۔

بدر آپریشن کا سارا علاقہ سرکنڈوں، دلدل اور پانی سے بھرا ہوا تھا  اور مجاہدین کو ہر صورت میں اس مشکل گذر علاقہ کو پار کرنا تھا۔ سرکنڈوں کی وجہ سے کشتی کا گذرنا بھی بہت مشکل کام تھا۔ اس علاقہ کو عبور کرنے بعد کی بڑی مشکل عراقیوں  کی جانب سے کھڑی  گی رکاوٹیں تھیں کہیں خاردار تار بچھے ہوئے تھے  کہ اگر کشتی وہاں سے گذرے تو اس میں سوراخ ہوجائے  اس سے کچھ آگے بارودی سرنگوں کا سلسلہ تھا۔

بہر حال ان سب مصیبتوں اور مشکلات کے  باوجود بھی ہمارے جوان اس آپریشن کے لئے تیار ہوگئے۔ سب سے پہلا کام جو ہم نے کیا وہ یہ تھا کہ  سرکنڈوں  کے درمیان ہم نے اپنے لئے مورچہ تلاش کئے۔  ہم نے وہاں پانی پر تیرنے والا ایک عارضی پل تعمیر کرلیا اور اس پر اپنے لئے پناہ گاہ بنا لی۔  اس مورچہ کے  قریب کوئی ایسی جگہ نہ تھی کہ وہاں سے ہم بوریوں میں مٹی  بھر سکتے اس لئے ہم مجبور تھے کہ ایران کے بارڈر سے مٹی بھر کر وہاں تک اپنے ساتھ لے جائیں۔

عراق اور ہمارے درمیان  یہ دلدلی فاصلہ اٹھارہ سے بیش کلو  میٹر کا تھا۔ جزیرہ مجنون کے شمال اور جنوب میں موجود جوانوں کے لئے ہویزہ جانے کے  لئے ہور سے گذرنا ضروری تھا۔

رات میں ہم ان تیرتے ہوئے پلوں کو چھپا دیا کرتے تھے تاکہ دشمن  کے جہاز اور ہیلی کاپٹر ان کو نہ دیکھ سکیں۔ ایک اور مہم ذمہ داری وہ امیر المومنین بریگیڈ کی تھی جس میں زیادہ تعداد بو شہریوں کی تھی۔ ذمہ داری یہ  تھی کہ جوانوں کو  اس پار سے اس پار اتارنا ہوتا تھا۔ یہ اسقدر مشکل کام تھا کہ اس کے لئے ایمان اور قوی جذبہ ایثار  کی ضرورت تھی۔ بوشہر کے جوانوں نے اس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھایا۔

آخر کار رات کے وقت بدر آپریشن  کا آغاز ہوا ۔ میں نجف کی چھاؤنی میں تھا وہاں پر کمانڈرز میں سے وحیدی برادران ، مرتضیٰ قربانی اور بھائی غلام پور موجود تھے۔ یہ لوگ وائرلیس کے ذریعہ اپنے تحت فرمان ٹولیوں سے مسلسل رابطہ میں تھے۔

آپریشن کی دائیں جانب لشکر امام حسین کے پاس تھی اس کے بعد  نصر کا پانچواں لشکر، ولیعصر کا ساتواں لشکر  وغیرہ بالترتیب آپریشن کے میدان میں پھیلے ہوئے تھے۔ جنوبی ترین نقطہ پر ثار اللہ  کا ۴۱واں لشکر تعینات تھا۔

آپریشن شروع ہوچکا تھا مگر کچھ  ٹولیاں ہور سے گذرنے میں مشکلات کا شکار تھیں۔ اس رات بہت سے افراد ہور میں گم ہوگئے اور موقع پر دشمن کے مقابلہ پر نہ پہنچ سکے۔

لشکر امام حسینؑ بھی شدید مشکلات کا شکار ہوا کیونکہ لشکر نصر کی امدادی ٹولی لشکر امام حسینؑ سےملحق نہ ہوسکی۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ پہلی ہی رات دشمن کے محاصرہ کو توڑ کر دشمن کے  علاقوں  میں پیشقدمی کی جائے گی اور اگلے دن تمام مجاہدین خود کو دجلہ کے ساحل تک پہنچا دیں گے۔

اس راستہ   میں ایک پیڈ تھا جس پر عراقیوں کا قبضہ تھا اس پیڈ کا سرا ہمارے ہاتھ نہ آسکا مگر اس کے در میانی حصہ پر ہمارے جوان قابض تھے۔ سرے پر موجود عراقی سخت مزاحمت کر رہے تھے۔  وائرلیس پر ملنےوالی اطلاعات کے مطابق ہماری بعض ٹولیاں رات میں ہی دجلہ کے کنارے جا پہنچی تھیں مگر بعض ٹولیاں ابھی تک ابتدائی علاقہ میں ہی عراقیوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں۔

صبح کا اجالہ پھیل رہا تھا عراقی اب تک ڈٹے ہوئے تھے اور ہمارا وہاں سے گذرنا مشکل کر رہے تھے امیرالمومنین بریگیڈ نے اس رات ایثار کے بڑے ثبوت دئیے۔ دشمن کی برستی گولیوں میں بھی جوانوں اور زخمیوں کی جا بجائی   کا کام انجام دیا۔

آپریشن شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی دشمن نے کیمیکل   بموں سے حملہ شروع کر دیا تھا۔ ہمارے جوان چونکہ  پیڈ پر تھے اور ان کے لئے سارے علاقہ کو دیکھنا آسان تھا اسی لئے عراقیوں نے کیمیل بموں کا سہارا لیا۔  کچھ بارودی بمب بھی استعمال کئے جس کے ذریعہ انہوں نے سرکنڈوں میں آگ لگائی۔ اس پر مستزاد عراقی ہیلی کاپٹرز کی گولیاں تھیں جو ہمارے کام کو مشکل تر  بنا رہی تھیں۔

کیمیکل حملہ کے اثر کو کم کرنے کے لئے ہم نے ماسک پہن رکھے تھے اور اپنے رومال گیلے کرکے چہرے پر لپیٹ لئے تھے مگر پھر بھی اس حملہ میں ہماری آنکھیں جل رہی تھیں جس کی وجہ ہم نے اپنی آنکھوں میں مخصوص دوا کے قطرے ڈالے۔

دشمن کے گولہ بارود کے مسلسل برسنے کی وجہ سے ہماری رفت آمد مسلسل شہادتوں پر مشتمل تھی۔ اس عالم میں امیرالمومنین بریگیڈ مسلسل جوانوں کی منتقلی کا کام انجام دے رہی تھی۔

اس آپریشن کے دوران ہماری  کئی ایک کشتیاں دشمن کی آگ میں جھلس گئیں اور اس میں سوار لوگ شہید ہوگئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہماری کشتی پر  بمباری ہوئی  تو  اس کے باوجود کہ دشمن کے ہیلی کاپٹر ہم پر بم برسا رہے تھے کشتی رانوں نے  کشتی کے اندر جا کر زخمیوں سے کشتی کو خالی کرتے اور جوانوں کو پیچھے لے آتے۔ 

دشمن کی جانب سے شدید مزاحمت اور کیمیکل اسلحہ کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے دو تین کی جھڑپ کے بعد ہی  عقب نشینی  کا  حکم آگیا اور جوان ہور کے علاقہ سے آپریشن کی ابتداء کے مقام پر آگئے۔

اس آپریشن کا ماحصل  ’’ہور‘‘ کا وہ چار پانچ کلو میٹر کا علاقہ تھا جو لشکر نصر نے قبضہ لیا تھا۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ بدر آپریشن صرف دشمن کی قوت کو کچھ کمزور کرکے ختم ہوگیا۔[2]

 

 

 

 

 

 


[1]  بدر آپریشن ۱۹۸۵ میں ایران عراق جنگ کے دوران ہوا اس کی کل مدت دس روز تھی۔

 

[2] سربازی برای ہمیشہ، سردار حیسن کارگر بسیجی کی روایت، مدنی پور، محمد، سید قاسم، چاول، ص ۱۴۶ تا ۱۵۲۔ ناشر دریا نور، ادارہ کل حفظ و نشر ارزش ہائی دفاع مقدس، بوشہر۔ ۲۰۱۱



 
صارفین کی تعداد: 704


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔