پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 35
علاقے کے علماء کے بزرگ، جناب ماموستا ملا محمد بہاء الدین کی موجودگی کی وجہ سے ہم خُرمال کے آس پاس کے طالب علم، علماء کے ساتھ ہر ہفتے خاص طور پر منگل کے دن، خُرمال جایا کرتے تھے۔ ہمارا سہ رگہ ت سے (خُرمال) جانا ایک طرح کی تفریح بھی تھا اور ہم وہاں بڑے بڑے علماء سے آشنا بھی ہوتے تھے۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 34
ان کا ماننا تھا کہ تم لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ اور تم لوگوں کی بے عزتی، میری بے عزتی ہے، اور شاگرد کی توہین، استاد کی توہین ہے اور ناقابل برداشت ہے۔ وہ اس قدر غصے میں تھے کہ انہوں نے ہماری امید کے برخلاف ایک غیر حکیمانہ مشورہ دیا اور کہا: ’’یا تم لوگ سردار حسن کی پٹائی کرو گے یا میں اس گاؤں کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔‘‘پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 33
ن تمام افراد کو گاؤں میں رات کے وقت گرفتار کرکے جلدیان گیریژن لے جایا گیا تھا اور انہیں بڑی بے رحمی سے گولی باری کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی تھی۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 32
دوبارہ عراق اور اس بار ’سہ رگہ ت‘ گاؤں
حسین بیگ صاحب قبیلے کے سردار اور جوانرود کے مشہور بیگ زادوں میں سے تھے کہ جنہوں نے ایران کے شہنشاہی(بادشاہی) نظام کی مخالفت کی وجہ سے جوانرود کو چھوڑ کر عراق ہجرت کرکے، وہاں پناہ لے لی تھیپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 31
درزیان اور در زیان!
اپنی جائے پیدائش سے چار ماہ کی دوری کے بعد میں نے اپنی والدہ کو ایک خط لکھا اور آخر میں حسب معمول دستخط کردیے: ’’ آپ کا بیٹا قادر ۔ درزیان‘‘ میری والدہ، خط کو پڑھوانے کے لیے نوریاب گاؤں کے ایک مولانا صاحب کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے خط پڑھا اور کہا: ’’دایہ سلمہ، آپ کے بیٹے کے خط میں ایک جملہ آیا ہے جو تھوڑا پریشان کن ہے۔‘‘پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 30
کانی میران
کُرد لوگ، چاہے احساسات کی وجہ سے ہی سہی، پاک دل ہوتے ہیں۔ وہ اسلام سے محبت کرتے ہیں اور دین سے عشق کی وجہ سے طالب علموں اور علماء سے بھی محبت کرتے ہیں۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 29
شیخ عثمان نقشبندی صاحب سے ملاقات
ہم نے ان سے درخواست کی کہ آپ علاقے کے کسی عالم دین کو ایک خط لکھ دیجیے کہ وہ ہمیں رہنے کے لیے کوئی حجرہ دے دیں تاکہ ہم اس سخت سردی کے موسم میں درس میں مشغول ہوجائیںپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 28
پہاڑ سے پہاڑ، گاؤں سے گاؤں
ہم بھی تھکے ماندے تھے اور برفباری سے ہمارے لباس گیلے ہوچکے تھے تو ہم اس کی مدد سے بے حد خوش ہوئے اور ہم نے اس کے پیشکش کو قبول کرلیا۔ اس ٹھنڈے اور ناقابل برداشت موسم میں وہ ہمارے لیے فرشتہ بن کر آیا تھاپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 27
ایران واپسی
عراق میں تعلیم حاصل کرنے کے تجربے نے شاید میری توقعات کو بڑھا دیا تھا۔ میں ماموستا فخری کی خدمت میں پہنچا اور میں نے انہیں اپنی پریشانی بتائی۔ انہوں نے فرمایا: ’’یہاں حمام نہیں ہے اور لوگ مجبور ہیں"۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 26
ایران سے ایک خوشخبری
میں نے عَنَب کو خوشگوار یادوں کے ساتھ خیرباد کہہ دیا اور عراق کے کردستان کے درہ شیش، تائرہ، ہاوار گاؤں سے گزرتا ہوا ایران میں داخل ہوگیا اور دریائے سیروان کے کنارے سے شیخان اور ہیروی گاؤں سے ہوتا ہوا، پل دوآب اور گنجگہ کے راستے نوریاب پہنچ گیا۔1
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
جو کام بھی ہوسکے
خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یادجیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

