جو کام بھی ہوسکے

خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد

جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔

آمل شہر کا قیام

میں نے حاجی غلام حسین منصوری کی نیسان گاڑی کو پہچان لیا۔ وہ آمل کی سپاہ کی سپلائز میں بہت تعاون کرتے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو انہیں غصہ آنے لگا؛ کیونکہ سپاہ اور بسیج والے انہیں پہچانتے تھے اور تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے خریداری کے بلز اور کاغذات کے ساتھ سپاہ کا کارڈ بھی ان کے حوالے کردیا۔ ابھی تک انہیں معلوم یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ’جنگلی‘(کمیونسٹ سربداران) ہیں۔

سردخانے میں شاہ کے ایجنٹوں کے جرم کی ویڈیو بنانا

باغ میں ایک ہولناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ قریب رات کے گیارہ بجے سے زیادہ کا وقت تھا کہ جب گارڈ نے ہمارے لیے دروازہ کھولا اور کہا جلدی سے تصویریں وغیرہ کھینچ لو اور چلے جاؤ

اسلامی حکومت کے کتابچوں کی تقسیم اور امام(خمینی رہ) کے دروس کی ریکارڈنگ

ہم نے مسجد کے ستونوں پر دو لاؤڈ اسپیکر لگادیے تھے اور اس کا مائک منبر کے سامنے رکھ دیا تھا، ہم چاہتے تھے کہ دروس نشر بھی ہوں اور ریکارڈ بھی

الذین و الذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے

اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں

نجف میں ایرانی نوجوانوں اور جوانوں کی تربیت

لیکن مجھے دوسروں کی مدد کی ضرورت تھی۔ اسی زمانے میں آیت اللہ شاہرودی نے ’نیشنل پرائمری اسکول‘ قائم کیا تھا اور ایرانی، افغانی، پاکستانی اور دوسرے فارسی زبان طالب علموں کے بچے اس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے

جزیرے کے کتے

میں اپنے خیالوں میں تھا کہ میں نے دیکھا کہ اچانک جزیرہ میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں اور اس کے بعد فوجی، جزیرے میں پھیل گئے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ سرکنڈوں کو ادھر ادھر ہٹا رہے تھے، ہر جگہ چھان رہے تھے اور ہر طرف جا رہے تھے۔

زبانی تاریخ کا مستقبل کیا ہوگا؟

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لوگوں کے تجربات کے مطالعے کا عمومی لگاو اور آج کل کے حالات سے گزشتہ واقعات کے تعلق سے آگاہی کی خواہش اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کا اہمیت حاصل کرلینا، اسی طرح سے زبانی تاریخ کی ایک تحقیقاتی ذریعے کی حیثیت سے محفوظ رکھے گا۔

شہید محمد جواد تندگویان کی اہلیہ

بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 2

’’میں محمد جواد کے اخلاق و عادات کو بخوبی جانتی تھی۔ میں بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتنی جلدی گھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یعنی جب تک سارے قیدی رہا نہیں ہوجاتے وہ بھی نہیں آئیں گے

شہید محمد جواد تندگویان کی اہلیہ

بتول برہان اشکوری کی یادیں قسط 1

محمد جواد جو ان حالات سے تھک چکے تھے، انہوں نے کسی دوسری جگہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن جن حالات میں وہ پھنسے ہوئے تھے، ان کے لیے صرف ایک ہی جگہ باقی بچی تھی اور وہ تھی انجینیئر بوشہری صاحب کے کام کی جگہ؛ شہر رشت میں ’’پارس توشیبا‘‘[1] نامی کمپنی۔
1
...
 

جو کام بھی ہوسکے

خواندگی کی تحریک کی معلمہ، زہرا میر جلیلی کی یاد
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو ہم خط لکھنے بیٹھ گئے۔ اب خواتین نے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ہر کوئی مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے دل کی باتیں لکھ رہا تھا۔ ہر پیکٹ میں ہم نے ایک خط رکھا اور اسے سی کر بند کردیا۔ پھر میں نے الرضا(ع) مسجد[1] کیمپ کے انچارج کو بتایا کہ شمس الشموس مسجد[2] بھیجے جانے لیے پیکٹس تیار ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔