ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، سترہواں حصہ

تمہارا یہ رزمیہ جوش و جذبہ۔۔۔ واقعاً خوش رہو

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2021-3-2


شاید یہ سب میرے لئے بہت سخت تھا مگر ان سختیوں کو سہنے کی وجہ اب میرے پاس تھی۔ ایک تو یہ یہاں اگر علی دیر تک کام کرتا رہتا تب میں سکون سے رہتی ، کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ وہ ہمارے پاس ہی تھا۔ دوسرے یہ کہ ہمارے علاوہ بھی کئی ایک ایرانی خاندان اطراف میں سکونت اختیار کئے ہوئے تھے اگر علی راتوں کو دیر سے گھر آتا یا بالکل ہی نہ آتا تب بھی میں آسودہ خاطر ہوتی اور اجنبیت میرے ڈر خوف کا باعث نہ بنتی اور سب اہم بات یہ تھی کرایہ نہ دینے کے سبب مالی تنگدستی کا احساس یہاں بہت کم تھا۔ اسی گھر میں ہمارے لئے یہ ممکن ہوا کہ ہم ایک عدد بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی خرید سکیں۔ اللہ بچے کتنے اشتیاق سے کودتے پھاندتے ٹی وی دیکھا کرتے تھے۔ علی کے دوستوں میں سے کوئی ہمارے گھر آیا تو ہمارا گھر دیکھ کر کہنے لگا۔

-ناقابل یقین ہے کہ اس خرابہ میں، اس بوسیدہ مکان میں اتنا سلیقہ سے سجا سنورا گھر بھی ہو سکتا ہے۔۔۔

میرے ہاتھ سرف کے پانی میں بھیگے تھے اور میں دھلے ہوئے کپڑے طشت سے اُٹھا اٹھا کر جھٹک کر ان کی سلوٹیں نکال رہی تھی پانی کے قطرے میرے چہرے پر پڑ رہے تھے جس سے اس شدید گرمی میں ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا۔ میرا روز کا دستور یہی تھا ایک تسلہ کپڑوں کا حمام میں رکھتی جو ظہر تک بھر جایا کرتا اس کے  علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ روز کپڑے دھووں اگر ایسا نہ کرتی تو بچوں کے پاس پہنے کو کپڑے نہ ہوتے۔

علی کی ایک خاتون دوست کا ہمارے گھر کافی آنا جانا تھا ایک دن الگنی پر لٹکے کپڑے دیکھ کر کہنے لگیں

-آخرش ہم تمہیں اسی قبرستان میں دفن کر دیں گے۔ بہت ہے کہ اپنا کام خود کرتی ہو۔

شاید ہماری زندگی بہت آسودہ نہیں تھی مگر ہمارے لئے یہی کافی تھا کہ کسی کی محتاجی نہیں تھی اور یہی میرے لئے جینے کا حوصلہ تھا۔ اگر کچھ وقت میسر آجاتا تو کتاب یا اخبار پڑھ لیتی، بعض اوقات خبریں دیکھ بھی لیتی تھی۔ زیادہ  تر ایران عراق جنگ کی خبریں نشر ہوتیں جن سے میرا دل پریشان ہوجاتا  اور میں ٹی وی بند کر کے علی کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتی۔

اس کے باوجود کہ میں جانتی تھی کہ یہ ہندوستانی چینلز زیادہ تر عراقی فوج کی خبریں دے رہے ہین اور یہ تصاویر اور خبریں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، رات تک ان کی فکروں میں گم رہتی اور ایرانی شہداء کے خاک و خون آلود چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھومتے رہتے۔ علی کے آتے ہی میں اس پر برس پڑتی۔

-ہم یہاں کیوں پڑے ہیں؟  وہاں ایرانی عوام اپنی جانوں پر کھیل رہے ہیں اور ہمیں کوئی صحیح خبر بھی نہیں مل رہی۔

میں اصرار کرتی تھی کہ تمہیں اس جگہ کے بجائے جنگ پر جانا چاہئے تھا۔ تمہارا دل بس اس پر مطمئن ہے کہ چند مورچوں پر ہو لئے اور بس۔ ایران کا ہر گھرانہ سوگوار ہے ہر گھر نے کوئی جانباز سپاہی یا شہید دیا ہے مگر ہم کیا؟ ہم نے دفاع کے لئے کیا کیا؟ علی ہمیشہ کہتا

-میرا مورچہ وطن سے باہر ہے میں یہاں جنگ پر ہی آیا ہوا ہوں۔ یہی میرے خدمت کرنے کی جگہ ہے مجھے اس چھاونی کی حفاظت کرنی ہے۔

میں اس کے سر پر سر رکھ کر کہتی

تمہارا یہ رزمیہ جوش و جذبہ۔۔۔ واقعاً خوش رہو۔



 
صارفین کی تعداد: 2729


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔