مسلم آزاد جماعت کی تشکیل کے اسباب


2021-3-1


مسلم آزاد جماعت کی تشکیل کا ماجرا اسوقت شروع ہوا جب میں ۱۹۵۱ میں عراق واپس لوٹا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت کی ایرانی حکومت مجھے، میرے والد اور میرے ماموں اور میرے دادا کو ہماری سیاسی جدوجہد کی وجہ سے پرمٹ نہیں دیتی تھی اور ہم ایلام اور مہران سے ہمیشہ چھپ چھپا کر آتے جاتے تھے۔ لیکن جب میں عراق واپس آگیا تو ایرانی اہلکاروں نے میری گرفتاری کی کوششیں شروع کردیں۔ لیکن عراقی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ کیونکہ میں عراقی سرزمین میں داخل ہوچکا ہوں اس لئے پہلے مجھے عدالت لے کر جائیں گے پھر کچھ فیصلہ ہوگا۔

بہرحال مجھے بصرہ لے گئے اور وہان مجھ پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں ایک سید نے میری ضمانت لی اور اپنے گھر لے گئے۔ انکے کتابخانے میں میں نے مصر سے شائع ہونے والا ایک میگزین دیکھا۔ اس میگزین میں میں نے دنیا پر مسلط دو بڑی مشرقی اور مغربی طاقتوں کے بارے میں پڑھا جو دنیا کے دو اصلی قطب تھے تب مجھے پتہ چلا کہ یہ دو طاقتیں دنیا پر مسلط ہیں۔ میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ میں نے سوچا تو پھر ہم مسلمانوں کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ اسی جذبے نے مجھے "مسلم آزاد جماعت" کی تشکیل کے لئے حوصلہ دلایا۔ میرا ہدف یہ تھا کہ اس جماعت کی تشکیل کے ذریعے اسلامی ممالک میں ایک ایسی تحریک چلائی جائے جس کی بدولت شیعہ اور اہل سنت متحد ہوجائیں۔

اس جماعت کی تشکیل کے فورا بعد ہی سے بعض اسلامی ممالک میں رونما ہونے والے واقعات پر میں نے بیانیہ جاری کرنا شروع کیا  جن میں سے ایک ملک الجزائر تھا جہاں انقلابیوں نے سات سالہ جدوجہد کے دوران ڈیڑھ میلین شہید دیئے تھے۔ اسی مسئلے پر بعد میں ایک کتاب بھی چھاپی تھی جس کا نام الجزائر تھا۔ جس پر الجزائر کے عراق میں سفیر، ایران میں الجزائر کے سفیر حتی اس ملک کے عارضی وزیراعظم نے خطوط لکھ کر میرا شکریہ ادا کیا تھا، جس پر ساواک نے شدید ردعمل دکھایا تھا۔ بعض میگزین جو ساواک کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا کرتے تھے ان میں سے طلوع میگزین تھا جس کے مالک محمد علی صدرائی اشکوری نے مجھ پر کڑی تنقید کی۔

جب میں سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوگیا اور میرے غیر ملکی سفر شروع ہوگئے تو ساواک کو کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا اور مجھے پیشکش کی کہ میں اپانا کام جاری رکھوں لیکن ساواک کو اپنے کاموں کی رپورٹ دیتا رہوں ۔ انہوں نے اس پیشکش کو قبول کرنے کے لئے مجھے تین دن کی مہلت دی لیکن میں کوٹ پینٹ پہن کر ایران سے دوبارہ عراق فرار کرگیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 2177


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔