آبادن کے عرب زبان طالبعلم کی فیضیہ پر ساواک کے حملے کی روایت


2021-3-1


حضرت امام موسی بن جعفر کی شہادت کی مناسبت تھی اور مدرسہ میں مجلس عزا برپا تھی۔ بے تحاشہ رش تھا اور تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ ایک عالم دین مجلس پڑھ رہے تھے۔ اچانک شور و غل کی آوازیں سنائی دینے لگیں، جتنے بھی طلبہ صحن میں موجود تھے جمع ہوگئے۔ ساواک کے اہلکاروں نے سادہ لباس میں مجلس پر حملہ کردیا تھا اور طالبعلموں کو زد وکوب کررہے تھے۔ جو بھاگ سکتا تھا بھاگ رہا تھا۔ میں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو شیخ عبدالکریم کو آبادنی لہجے میں مخاطب کیا

ولک خیلی نشرد
بھئی بہت زیادہ شر برپا نہ ہو

ہم بھاگ کر اپنے حجرے میں پہنچے۔ صحن کو ساواک کے کارندوں کے گھیر رکھا تھا اور بہت بری طرح طالبعلموں کو ذد و کوب کررہے تھے۔ حتی بعض طالبعلموں کو دوسری منزل سے اس صحن میں پھینک رہے تھے جس کے بیچوں بیچ ایک حوض بنا ہوا ہے۔ انکے سروں سے عمامے اتار کر انکے کپڑے پھاڑ رہے تھے اور انہیں بری طرح مار پیٹ رہے تھے۔

میں اور عبدالکریم ایک حجرے میں داخل ہوئے اور اپنا عمامہ اور عبا قبا اتار کر دشداشہ پہن کر نکلنے ہی والے تھے کہ حجرے کا دروازہ کسی نے لات مار کر کھول دیا ۔ ساواکی مجھے کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔ میں نے عربی بولنا شروع کردی جس کی وجہ سے ساواکی سمجھے شاید میں مہمان ہوں اور کل صبح مجھے واپس جانا ہے۔

مجھے چھوڑ دیا گیا اور واپس چلے گئے۔ ہم بھی صحن کے رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گلی کی جانب بھاگ نکلے۔ ایک گلی سے دوسری گلی ہوتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ایک گھنٹے بعد ٹرین میں سوار ہوکر تہران کی جانب نکل چکے تھے۔ لیکن کئی گھنٹوں تک ہم پر اضطراب اور پریشانی کی کیفیت طاری رہی۔ قم کا اسٹیشن چھوٹتے ہی ہماری جان میں جان آئی تھی۔

منبع: غبیشی، رضیه، ملاصالح: روایت زندگی مجاهد مبارز، ملاصالح قاری، تهران، نشر شهید کاظمی، 1395، ص 41 و 42.



 
صارفین کی تعداد: 2811


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔