ایک لفط نہیں بولوں گا چاہے مجھ پر بے انتہا تشدد کیا جائے


2021-3-1


ہمارے گھر میں سڑکوں پر لڑائی کا مکمل سامان مثلا دھماکہ خیز مواد، آپریشن کے تمام تر امکانات، فرسٹ ایڈ میڈیسن وغیرہ موجود تھا اور اگر کوئی شخص زخمی ہوجاتا تو ہمارے گھر میں ہی اس کا علاج معالجہ کیا جاتا تھا اور حتی المقدور اس کی چھوٹی موٹی سرجری بھی کردی جاتی تھی۔ ایک مرسڈیز بنز بھی موجود تھی جو شناسائی، تحقیق اور صورتحال کا جائزہ لینے، یا پھر ساواک کے اچانک ہونے والے حملوں سے بچنے کے لئے گھر کے سمانے ہی کھڑی ہوئی تھی اور ہمیشہ تیار رہتی تھی۔ حتی اس کی چابیاں بھی اسکے مڈگارڈ کے اندر ہی چھپا رکھی تھی۔ بعض افراد جن میں محمد رضائی بھی شامل ہیں انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ گاڑی بھی میری ہی ہے یا انہیں میرے بارے میں علم نہی نہیں تھا کہ میں کون ہوں۔ لیکن انہیں اتنا ضرور معلوم تھا کہ یہ گاڑی انہی کاموں کے لئے ہے۔ البتہ چونکہ ہمیشہ اس بات کا ڈر رہتا تھا کہ اس گاڑی کے سوار کہیں ساواک کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ہم نے پہلے ہی سے اس گاڑی کی چوری کی رپورٹ بنا کر رکھی ہوئی تھی تاکہ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو فورا یہ رپورٹ پیش کردی جائے اور اپنی جان چھڑائی جاسکے۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک سرگرم ساتھی مہدی غیوران تھے جن کی گرفتاری کا ہمیشہ خدشہ رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہم سے کہتے کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو آپ لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں ایک لفط نہیں بولوں گا چاہے مجھ پر مرنے کی حد تک تشدد کیا جائے۔ ہم نے طے کررکھا تھا کہ اگر غیوران کو میرے روبرو کھڑے ہونے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ میری شناسائی کرے یا باہمی تعلقات کا اعتراف کرے تو وہ کہیں گے کہ چہ پور صاحب میں نے آپ کے ساتھ کام کرنے کا اعتراف کرلیا ہے اور اور ان کو سب کچھ بتا دیا ہے لیکن میں اس کا انکار کروں گا۔ مہدی غیوران کو ۱۹۷۵ میں گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن اس مرد مجاہد، مومن اور غیرت مند شخص نے ساواک کے تشدد کے باوجود کسی بھی چیز کا اعتراف نہیں کیا حتی کسی ایک شخص کے بارے میں بھی نہیں بتایا، اس زمانے میں عملیات کے لئے تمام تر وسائل کو آمادہ کرنا اور مجاہدین کے حولاے کرنا حتی زخمیوں کے علاج معالجے کا سارا نظام میں چلا رہا تھا اور اگر میں پکرا جاتا تو یہ پورا سسٹم مشکل میں پڑجاتا اور مجھے بھی بہت سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ انکی قدر وقیمت ہماری نگاہوں میں بہت زیادہ بڑھ گئی۔ غیوران صاحب اس زمانے میں رفاہ اسکول کی ہیئت امنا کے رکن تھے اور اس اسکول کی تڑانسپورٹ کی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی۔ انکے بعد یہ ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی گئی۔

 

 

منبع تصویر:باشگاه خبرنگاران جوان

منبع: چه‌پور، ولی، همراه پیر پاک (خاطرات ولی‌الله چه‌پور)، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1390، ص 33 - 35.



 
صارفین کی تعداد: 2109


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔