کبری احمدی کے زمانہ جنگ کے واقعات

زمانہ جنگ میں بسیجی خواتین کے واقعات

انٹرویو و ترتیب: فائزہ ساسانی خواہ

مترجم: مبارک حسنین زیدی

2021-1-16


کبری احمدی جو کئی سالوں سے ثقافتی اور اجتماعی کاموں میں مصروف ہیں، اُن کی جوانی کی شروعات انقلاب اسلامی کی کامیابی اور صدامی افواج  کی ایران پر مسلط کردہ جنگ سے  ہوئی تھی۔

جنگ کے نقارہ کی آواز نے اس جوان بسیجی خاتون کو اُن دنوں میں جب دشمن نے ان کی سرزمین پر حملہ کیا، جنگ کو سپورٹ کرنے والے اسٹاف کی طرف مائل کر دیا۔ ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی خبر نگار نے اُن سے گفتگو کے لئے وقت لیا تاکہ وہ محاذ کے پشت پردہ خواتین کے کردار کے بارے میں بات کریں۔ محترمہ احمدی نے مہربانی اور دل لگی سے اپنے واقعات سناتے ہوئے ہمیں اس سرزمین  کے بیشتر لوگوں سے آگاہ کیا۔

 

آپ نے محاذ کی سپورٹ اور لاجسٹک سرگرمیوں کو کس زمانے سے شروع کیا؟

میری سرگرمیوں کی ابتداء جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔ جب انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا اس وقت میں  ۱۴ سال کی تھی اور میں اپنے شوہر کے ساتھ انقلاب کے لئے ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد میں بسیج  کی ممبر بن گئی اور وہاں پر کام کرنا شروع کردیا۔ ہم اُس زمانے میں کونسل ۱۶ اور تہران کی  ابوذر چھاؤنی میں کام کرتے تھے۔ کونسل ۱۶ میں جوادیہ،  نازی آباد، یاغچی آباد، ہزار دستگاہ، چہار صد دستگاہ اور اُن کے اطراف کے علاقے شامل تھے۔

جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے اپنے  گھروں سے فوجی بھائیوں کے لئے اوڑھنے والی چادریں اور  کپڑے سی کر کام کا آغاز کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے  سن ۱۹۸۰ء کے اکتوبر یا نومبر کا مہینہ تھا ہمیں ابوذر چھاؤنی کے ذریعے پتہ چلا  کہ پہلے مرحلے کے لئے کافی مقدار میں اوڑھنے والی چادروں کی ضرورت ہے  اور ہمارے پاس ان کو سینے کا سامان ہی نہیں تھا۔ میں اپنے محلہ اور گلی میں جن افراد کو جانتی  تھی، میں نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی سلائی مشینیں ہمارے گھر لے آئیں تاکہ ہم ایک جگہ رہ کر کام کرسکیں۔ دو لوگ کٹنگ کریں اور بقیہ افراد سلائی کریں۔

ہمیں دو دن کے اندر ہزار چادروں کو تیار کرنا تھا۔ احباب پانچ سلائی مشینیں لے آئے لیکن ہمارے پاس کٹنگ کے لئے نہ میز تھی اور نہ ہی کوئی مناسب قینچی۔ ہم نے یہ سوچا نہیں تھا کہ ہم چند افراد کے ساتھ دو دن میں چادروں کو سی لیں گے۔

آپ کا یہ کہنا کہ ہم سلائی مشینوں سے سیتے تھے تو ہماری نسل اور جدید نسل  کے ذہن میں موٹر والی سلائی مشین آتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں زیادہ تر ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشینیں تھیں۔ ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشین سے کیسے ممکن تھا کہ چادریں دو دن کی مدت میں تیار ہوجائیں؟

بہت مشکل تھا۔ اتفاق سے تین ہاتھ والی سلائی مشینیں اور دو موٹر والی سلائی مشینیں تھیں۔ اُس زمانے میں لائٹ بہت جاتی تھی، جب لائٹ نہیں ہوتی تھی وہ لوگ جو ہاتھ والی سلائی مشین  سے سیتے تھے وہ اپنا کام جاری رکھتے تھے  لیکن وہ افراد جن کے پاس موٹر والی سلائی مشین تھی وہ  اس کے پہیے کو ہاتھ سے گھوماتے تھے جبکہ اس کا دستہ بھی نہیں ہوتا تھا تاکہ وہ سلائی کا کام جاری رکھ سکیں۔

 

آپ لوگ چادریں سینے کے علاوہ  اور کون سے کام کرتی تھیں؟

جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے سب سے پہلے جس کام کا آغاز کیا وہ بسیج اور سپاہ کے ساتھ تعاون کرنا تھا۔ کچھ عرصے کیلئے سپاہیوں کے گھر بھی چکر لگاتے تھے، بعد میں یہ کام ہم نے دوسرے افراد کے سپرد کردیا۔ محاذ تک عوامی امداد پہنچانے کا کام مساجد اور امام بارگاہوں سے اُسی طرح جاری تھا اور ہمیں وہاں پتہ چلا کہ کن چیزوں کی کمی ہے۔ البتہ وہ ادارے جو سپاہ سے رابطے میں تھے وہ زیادہ اس معاملہ کو کنٹرول کر رہے تھے، دوسری طرف سے ان امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ بعض چیزوں کی محاذ پر ضرورت نہیں تھی اور انہیں الگ کرنا چاہیے تھا یا ہم دوائیوں کی ایکسپائری ڈیٹ کو چیک کرتے تھے۔

آہستہ آہستہ ہم اس بات  کی طرف متوجہ ہوئے  کہ لوگوں کی امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کے لئے ایک الگ مرکز کی ضرورت ہے، اس کام کو گھر سے انجام دینا ممکن نہیں، ہم نے جنوب تہران میں سپورٹنگ اسٹاف تشکیل دیا۔  میرے خیال سے جنگ کو تقریباً تین چار مہینے گزرے ہوں گے کہ  کیمپ مکمل طورپر تشکیل پا گیا۔

 

آپ کی ذمہ داری کیا تھی؟

میں سن ۱۹۸۰ء میں  کونسل ۱۶ میں کام کرتی تھی اور سن ۱۹۸۰ء سے کونسل ۱۹ میں نئے خانی آباد کے کیمپ کی مسئولیت مجھ پر تھی۔ اُس زمانے میں آج کی طرح سوشل نیٹ ورک موجود نہیں تھا ، حتی کہ بہت سے افراد کے گھروں میں ٹیلی فون تک نہیں تھا لیکن مسجد اور بسیج کے کیمپوں میں رفت و آمد تھی۔ وہاں کے لوگوں کے درمیان اچھا رابطہ قائم تھا اور سب کو پتہ چل جاتا تھا کہ کیا خبر ہے اور کون سا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ خبریں ایک دوسرے کے ذریعہ پھیل جاتیں۔ ہم کام کرنے والے افراد کی تلاش میں نہیں جاتے تھے، وہ لوگ خود رضاکارانہ طور پر آجاتے۔ حالات بھی خاص قسم کے حالات تھے۔ دیکھیں اس وقت بھی ملک میں کرونا کی وجہ سے  خاص حالات ہیں، جبکہ اُس وقت جنگ تھی۔ آپ ان جدوجہد کرنے والی ٹیموں کو دیکھیں کہ کس طرح کام کررہی ہیں، اُس زمانے میں بھی کسی اور طریقہ سے تھا۔ البتہ اس طرح نہ سمجھا جائے کہ تمام لوگ جنگ میں درگیر تھے، نہیں ایسا نہیں تھا، لوگوں میں سے وہ افراد واقعاً جنگ میں درگیر تھے جو پشت پردہ محاذ کو کنٹرول کر رہے تھے اور اُن کے شوہر اور بیٹے محاذ پر  موجود تھے۔ یہ خواتین ایک دوسرے سے مذہبی محافل، مساجد اور دوسرے کیمپوں میں ملتی تھیں اور بہت سرگرم تھیں۔ میرے شوہرفوجی تھے اور محاذ پر تھے اور میرا ایک فرزند تھا۔

 

جنگ سپورٹنگ اسٹاف میں آپ کی سرگرمی کس نوعیت کی تھی؟

پہلے چادریں سی کر اور بعد میں سپاہیوں کے لئے لباس  سی کر شروع ہوئی لیکن بعد میں موسم کے اعتبار سے ہماری سرگرمیاں تبدیل ہوتی رہیں۔ ہم اچار، مربہ اور شربت بناتے تھے اور سپاہیوں کو حوصلہ دلانے اور اُن کے جوش و جذبات میں اضافہ کرنے کیلئے پرچم اور سر پر باندھنے والی پٹیاں سیتے اور لوگوں کی طرف سے لکھے گئے خطوط اُن تک پہنچانے کا کام انجام دیتے تھے۔ سردیوں میں سپاہیوں کے محاذ پر جانے کے وقت، ہم اُن کے لئے سوپ بناتے جنہیں بسوں میں بیٹھے سپاہیوں میں تقسیم کیا جاتا۔ پھر سپاہ پاسداران کی طرف سے کپڑوں کے تھان آنے لگے اور ہم اُس سے سپاہیوں کے فارم  سیتے تھے۔ کچھ خواتین اپنے گھر سے کپڑے سی کر لاتی تھیں۔ جن خواتین کو جنگی علاقوں میں جانے کا مسئلہ نہیں تھا جیسے اُن کا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوتا تو اُن لوگوں کو اہواز یا دو کوھہ بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا  اور وہ وہاں لانڈری میں مدد کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ سپورٹنگ اسٹاف کا کام بہت زیادہ وسیع ہوگیا، یعنی فوجی سامان کے علاوہ محاذ کے تمام لوازمات  سپورٹنگ اسٹاف کی طرف سے مہیا ہوتے۔ اُس زمانے میں آج کل کی طرح نہیں تھا کہ ہر چیز وافر مقدار میں ہو – حتی مہنگائی کے باوجود –  اُس وقت  چیزیں  کوٹہ سسٹم اور ٹوکن کی صورت میں تھیں۔ اُس زمانے کا ایک واقعہ  ایسا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں میں اُسے نہیں بھولوں گی، یعنی میں نے اُس وقت یوسف کی خریداری کے معنی کو حقیقت میں درک کیا اور اب بھی جب مجھے یاد آتا ہے تو میں خود کوکنٹرول نہیں کرپاتی۔ شاید آپ کیلئے اتنا حساس نہ ہو، لیکن اُس زمانے میں لوگوں کو  شکر اتنی آسانی سے نہیں ملتی تھی۔ ہر فرد کو ہر مہینہ ۴۰۰ گرام شکر کا ٹوکن دیا جاتا تھا اور ہم اس ۴۰۰ گرام کو جس طرح بھی ہوتا تھا پورے مہینے تک چلاتے تھے۔ یہ مقدار اتنی تھی جو اندازاً روزانہ استعمال ہوتی تھی نہ یہ کہ ہم اس سے شربت یا مربہ بنا سکیں۔ سن ۱۹۸۲ء میں ہونے والے رمضان آپریشن کے بعد گرمیوں میں جب بہت شدید گرمی پڑتی تھی  ہم نے اعلان کیا کہ ہم محاذ کے لئے لیموں کا شربت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم سو گرام، سو گرام شکر جمع کرتے تاکہ مثال کے طور پر شربت کے دس بڑے پتیلے تیار کرلیں۔ ایک دن ہم ایک امام بارگاہ میں کام کر رہے تھے اور لوگ سامان لیکر  آ رہے تھے۔ ایک بہت ہی ضعیف خاتون جنہوں نے اپنی چادر کو سمیٹا ہوا تھا اور اپنا ہاتھ کمر پر رکھ کر مشکل سے ہمارے پاس پہنچیں۔ اُن کے ہاتھ میں لیموں کے رس کی ایک بوتل تھی کہ شاید اُس کے اندر ایک کپ کے انداز کے مطابق لیموں کا رس تھا۔ انھوں نے سانس پھولی حالت میں کہا: "میرے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ میں صرف یہ لائی ہوں تاکہ خدا سے کہوں خدایا میں بھی یوسف کی خریدار ہوں۔" اس چیز نے تمام خواتین  پر اثر کیا۔

اُس دن بس میں یہی سوچ رہ تھی کہ اس ضعیف خاتون کے ایک کپ لیموں کے رس کی برکت سے ہم نے بہت زیادہ امداد جمع کی اور دس پتیلوں میں لیمو ں کا گاڑھا شربت بنا کر محاذ پر بھیج دیا۔

 

وہ خواتین جو کیمپ میں آپ کے ساتھ کام کرتی تھی اُن کی تعداد کتنی تھی؟

اگر ہم حساب لگائیں تو ۲۵  خواتین۔  چونکہ بعض اوقات چکر لگانے والی خواتین بھی آتی تھیں اور کیمپ غالباً بند نہیں ہوتا تھا۔

 

وہ خواتین جو آپ کے ساتھ کام کرتی تھیں وہ کتنے سن و سال کی تھیں؟

میرے خیال سے ہمارے ساتھ ۵ سالہ بچی سے لیکر ۷۰ سال کی ضعیف خاتون تھیں۔

 

آپ ہفتہ میں جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف میں کتنی دفعہ جاتی تھیں؟

ہم روزانہ سپورٹنگ اسٹاف جایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم کسی خاص دن وہاں جائیں۔ کسی وقت ہم خود سپورٹنگ اسٹاف میں ہوتے اور بعض اوقات کچھ معاملات کو نمٹانے کے لئے ابوذر کیمپ جانا پڑتا تھا یا اُس اسٹور میں جاتے تھے جو شاہراہ تختی کے شروع میں تھا۔ کیمپوں اور محلوں سے لوگوں کی جو امداد اکٹھی ہوتی تھی انہیں اُس اسٹور میں منتقل کیا جاتا  اور پھروہاں مرد حضرات اُس  کو الگ کرتے، منظم کرتے اور محاذ کی طرف بھیج دیتے۔

 

اسٹاف میں آپ کا کام کس وقت شروع اور کس  وقت ختم ہوتا تھا؟

کام پر منحصر ہوتا تھا۔ آپریشن کے زمانے میں ہم دن و رات کام کرتے تھے، اس کے علاوہ روزانہ بارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔

 

اتنی مدت میں کام کرنے سے آپ کے شوہر کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا؟

میرے شوہر زیادہ تر محاذ پر ہوتے تھے اور انہیں میرے کام کرنےسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

 

اُس زمانے میں منافقین شہروں میں بہت سرگرم تھے، آپ کا اُن سے کبھی سامنا نہیں ہوا؟

کیوں نہیں، ہمیں بہت دھمکیاں ملتی تھیں۔ البتہ یہ بات سن ۱۹۷۹ء کی ہے۔ منافقین نے سن ۱۹۷۹ء میں کونسل ۱۶ میں   کسی شخص کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اُس زمین کے مالک کا اُن پر زور نہیں چلتا تھا بلکہ وہ اُن سے ڈرتا تھا۔ ایک دن جمعہ کو ہم کچھ بسیجی افواج کے ساتھ کہ جن کی عمریں کم تھیں اُس عمارت میں داخل ہوئے  اور اُس جگہ کو اُن کے قبضہ سے آزاد کرالیا۔

جب ہم نے اُس جگہ کو آزاد کرالیا تو زمین کے مالک نے اپنی رضایت سے وہ جگہ ہمارے اختیار میں دیدی۔  ہم اُن منافقین کے ساتھ ایک محلہ میں رہتے تھے اور ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم سے راضی نہیں تھے لیکن اس ماجرا کے بعد اُن کی  ہم سے دشمنی آشکارہوگئی اور وہ ہمیشہ سے کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ ہماری ٹیم کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ اس معاملے میں ہمارے ایک یا دو لوگ شہید ہوئے۔ ہمارا گھر گلی کے نکڑ پر تھا اور وہ مسلسل کاغذ پر دھمکیاں لکھتے اور اُسے پتھر پر لپیٹ کر گھر کے اندر پھینک دیا کرتے تھے۔ گھر کے بالائی حصے میں لگا شیشہ مسلسل پھینکے جانے والے پتھروں کی وجہ سے چٹک گیا تھا۔ اسی وجہ سے میں اپنے بچوں کو تنہا گھر سے باہر بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔ میں ہمیشہ اُنہیں ساتھ لیکر آتی جاتی تھی اور ہمیشہ وضو کی حالت میں باہر جاتی تھی  اور ہر لمحہ شہادت  کی منتظر رہتی تھی۔

اُن میں سے کسی ایک کے گھر میں، جہاں کی سپاہ نے تلاشی لی تھی۔ وہاں میری اور میرے ساتھ کام کرنے والی کچھ خواتین کی تصویریں ملیں اور ہمارا نام اُس لسٹ میں تھا جن خواتین کو انھوں نے قتل کرنا تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اُن کا نقشہ کیا تھا لیکن میرے خیال سے خواتین کو قتل  کرنا اب اُن کے منصوبہ  میں نہیں تھا چونکہ اُس کے بعد کسی کو نہیں مارا گیا۔ شاید اس معاملہ میں خواتین کو نہیں لانا چاہتے تھے کہ لوگوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچے  لیکن اُن کی دھمکیاں اور اذیتیں اُسی طرح جاری و ساری تھیں۔

 

آپ اجتماعی کاموں کو انجام دینے کیلئے اپنی ذاتی زندگی کو کیسے مرتب کرتی تھیں ؟

میں بہت کم آرام کرتی تھی۔ میں اپنے لئے بہت کم وقت رکھتی تھی۔ آج کل بھی میرا یہی معمول ہے اور اب تو میری عادت بن گئی ہے۔ اگر میں چوبیس گھنٹوں میں سے دو گھنٹے تک اچھی طرح سوجاؤں تو میرے لئے کافی ہوتا ہے اور  مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔  اس وقت بھی میرے پاس بہت سے سوشل کام ہیں لیکن یہ چیز اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ میرے گھر کے کاموں میں خلل ایجاد کرے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد میں ثقافتی شعبہ میں چلی گئی اور میں آٹھ سال تک شہید محلاتی ٹاؤن میں خواتین کے امور  سے متعلق دفتر میں سپاہ کے نمائندے کی حیثیت سے رہی اور وہاں پر جوانوں اور نوجوانوں کے لئے ثقافتی کام انجام دیئے، ہم تفریحی، زیارتی اور ورزشی پکنک اورراہیان نور کے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ میں چار سال تک بسیج تربیت کرنے والے ادارے اور دو  سال تک بسیج کے ثقافتی امور میں رہی اور اس وقت چودہ سال سے  قدر علوی خیریہ میں مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر ہوں  اور خواتین کی سربراہی میں رہنے والوں گھروں کی مدد کرتی ہوں۔ یہ تمام کام منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔ میرے لئے  اصل چیز میرا گھر اور گھرانہ ہے۔ اگر میں اپنی بہوؤں،بیٹوں، پوتے، پوتیوں میں ہم آہنگی  اور ہم دلی ایجاد نہ کرسکوں اور گھر میں خوشی اور نشاط برقرار نہ رکھ سکوں اور دوسرے لوگوں کے گھروں میں پھل دار درخت کی آرزو رکھوں تو میرے اجتماعی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہذا اُس زمانے میں بھی اگر ہمیں گھر سے باہر  بہت سے کام ہوتے تو ایسا نہیں تھا کہ ہم نے گھر کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا، گھر اور گھر والوں کا اپنا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ میرا پہلا بیٹا اُسی سن ۱۹۷۸ء میں پیدا ہوگیا تھا اور جنگ کے اختتام تک میرے تین بچے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا میں بچوں کو اپنے ساتھ اسٹاف لے جاتی تھی، دوسرے لوگ بھی یہی کام کرتے تھے۔ بچوں کو انجام دیئے جانے والے کام کی تعداد شماری میں مزہ آتا تھا۔ مجھے اسٹاف کے علاوہ کچھ اورجگہوں پر بھی جانا ہوتا تھا۔ میری ایک سہیلی تھیں جن کا نام محترمہ رضوان مُزدارانی تھا کہ ہم نے ہم آہنگی کی ہوئی تھی۔ ایک دن میں بچوں کو سنبھالتی اور وہ کیمپ یا دوسری جگہوں پر جاتی اور ایک دن وہ بچوں کا خیال رکھتیں اور میں جاتی۔ ہمارے شوہر حضرات زیادہ تر اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے تھے۔

 

آپ جنگ کی مدت میں جنگی علاقوں میں نہیں گئیں؟

میں نے خود بہت سی خواتین کو بھیجا لیکن میں خود جنگی علاقوں میں نہیں گئی۔ میرا بچہ چھوٹا تھا، میرے شوہر محاذ پر تھے اور بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی جس کی وجہ سے محاذ پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سن  ۱۹۸۵ء یا ۱۹۸۶ ء  میں طے پایا کہ میرے شوہر  کو ایک سال کی ڈیوٹی پر کردستان بھیجا جائے۔ میں نے مضبوط ارادہ کرلیا اور اُن سے کہا : "میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔" وہ راضی نہیں ہو رہے تھے اور مسلسل کہہ  رہے تھے: "کردستان کے حالات اہواز سے بہت مختلف ہیں۔" اہواز میں بہرحال صرف بمباری کا مسئلہ تھا۔ لیکن کردستان میں معاملہ فرق کرتا تھا ہم دشمن کے درمیان تھے اور ہمیں دشمن کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ دشمن کوملہ اور ڈیموکریٹ وغیرہ کے عنوان سے ملک کے مختلف مقامات سے وہاں موجود تھا ۔ وہاں پر بہت سے مسائل تھے جن کی وجہ سے دشمن کی شناخت بہت  مشکل تھی۔ جنگی محاذ پر دشمن آپ کے روبرو ہوتا ہے لیکن کردستان میں ایسا نہیں تھا۔ سامنے والا دن میں آپ سے سلام علیک کرتا ہے اور رات میں  جو اُس کے دل میں آتا ہے وہ آپ کے ساتھ کرتا ہے۔  اسی وجہ سے میرے شوہر کسی صورت بھی راضی نہیں ہو رہے تھے کہ میں اُن کے ساتھ چلوں۔ خلاصہ یہ کہ میں نے بہت منّت مانی دعا کی اور آخر میں اُن سے کہا: "یا ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے یا آپ بھی نہیں جائیں گے۔" بہرحال وہ راضی ہوگئے اور ہم ارومیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

شاید آپ کہیں مغربی آذر بائیجان کا کردستان سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن کرد نشین علاقے جو مہاباد، دیواندرہ اور اُس کے مضافات میں تھے ، سے نزدیک تھے۔ جس موقع پر ہم ارومیہ گئے وہ مجھے یاد نہیں ارومیہ کی چھاؤنی ابھی تک کومولوں کے اختیار میں تھی یا آزاد ہوچکی تھی۔ بہرحال شہر ارومیہ ابھی تک کچھ معاملات کی وجہ سے محفوظ نہیں تھا اور لوگوں کے ساتھ وہاں مختلف مسائل پیش آتے تھے۔

 

آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ جانے پر کیوں اصرار کیا؟

مجھے پتہ تھا وہاں ہماری موجودگی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سے شوہر کا نہ ہونا میرے لئے باعث پریشانی تھا۔ ہم کہ جنہیں تہران میں بھی  خطرے تھا، پس میرے لئے خطرے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

 

آپ ارومیہ میں کیا کرتی تھیں؟

جیسا کہ میں ابوذر چھاؤنی میں کام کرتی تھی وہیں سے مجھے ارومیہ میں اُسی مرکز کے لئے کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ وہاں پر  ہمیں تاکید کی گئی کہ ہم ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے گھروں میں نہ رہیں تاکہ ہمیں کوئی پہچان نہ سکے۔ لہذا ہم نے شہر کے اندر ایک گھر کرایہ پر لیا۔ جب میں کچھ خریدنے کے لئے دوکان جاتی تھی  تو میں وہاں کی زبان  کے بہت سے کلمات سے نا آشنا تھی اس وجہ سے اُنہیں پتہ تھا کہ ہم تہران سے آئے ہیں اور اجنبی ہیں۔ سب سوچتے تھے کہ ہمارا کام اس طرح کا ہے جس کی وجہ سے ہم وہاں منتقل ہوگئے ہیں چونکہ وہاں سب ترکی بولنے والے تھے وہاں پر کوئی نیا آتا تو اُنہیں بہت جلدی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ علاقائی باشندہ نہیں ہے۔

 

حاجی صاحب نے پڑوسیوں کو اپنے پیشے کے بارے میں بتایا تھا؟

آپ یقین کریں مجھے نہیں معلوم۔

 

آپ وہاں کیا کرتی تھیں۔

میں وہاں پر تہران کی طرح کام نہیں کرتی تھی۔ جہاں میرے شوہر کی ڈیوٹی لگتی تھی میں بھی اُن کےساتھ چلی جاتی  او ر  واپس آجاتی۔ جہاں پر مسائل کو حل کرنے کیلئے خواتین کی ضرورت ہوتی تھی تو مجھے فون کرتے تھے اور میں وہاں جایا کرتی تھی۔ مثلاً کومولوں کی کچھ جوان لڑکیاں تھیں جو خاکی یونیفارم پہنتی تھیں اور اُن کو گرفتار کرنے کے لئے خواتین فورس کی ضرورت ہوتی تھی۔ خطرات کے پیش نظر سپاہ کے افراد اس بات  کی طرف مائل نہیں تھے کہ  اس کام کے لئے تہران سے فورس بلائی جائے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا اور اگر کسی سے کام لینا چاہتے بھی تھے تو ایسے افراد کا انتخاب کرتے تھے جن کی عمر پچاس سے سال سے زیادہ ہو؛ عام طور سے جوانوں کا انتخاب نہیں کرتے تھے۔

 

آپ کو وہاں کا کوئی واقعہ یاد ہے؟

میں وہاں کا کوئی واقعہ نہ سناؤں تو بہتر ہے۔ دیکھیں میں ہمیشہ کہتی ہوں  ہماری تاریخ کے مظلوم ترین شہداء کردستان کے شہداء ہیں جو اُس زمانے میں شہید ہوئے۔ اس وجہ سے کہ سنی شیعہ اور اُن کے درمیان اتحاد کی بحث اور بہت سے دوسرے مسائل  تھے۔ کچھ کردی چاہتے تھے کردستان کو ملک سے الگ کرلیں اور وہاں پر ایک خودمختار حکومت بنائیں۔ وہاں پر افراد مظلومانہ  ترین صورت میں شہید ہوئے  اور ہم کبھی بھی یہ نہیں بتا سکے کہ وہ شہداء کیسے شہید ہوئے۔ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں گولی سے ماریں، اُنہیں قیدی بنالیں۔ اُن کے پیروں کو تاروں سے باندھ دیتے یا اُن کے جسم پر گرم گرم استری لگا دیتے یا اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے۔ ایسا کام کرتے تھے کہ اُن کی جان آہستہ آہستہ نکلے۔ اُن کے بارے میں بات نہ کریں تو بہتر ہے۔

 

آپ ارومیہ میں کب تک موجود رہیں؟

میں چھ سات مہینہ وہاں رہی پھر وہاں پر کچھ مسائل کھڑے ہوگئے اور میں تہران واپس آگئی۔ ہمارے پاس ایک پیکان کار تھی جس میں بیٹھ کر ہم ڈیوٹی پر جاتے تھے۔ اس گاڑی میں بہت سی ٹیکنیکل خرابیاں تھیں، اگر آج مجھ سے کہا جائے آپ اس طرح کی گاڑی پر یہاں سے شہر ری  میں حضرت عبد العظیم حسنی کے حرم تک جاکر واپس آئیں، میں کہوں گی یہ گاڑی محفوظ نہیں ہے۔ اس کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب بند ہوجاتی ہے تو پھر اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ یعنی ہم اگر پٹرول پمپ بھی جاتے تھے تو اُس کو بند نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو دوبارہ اسٹارٹ نہ ہو۔ آپ سوچیں ہائی وے پر گاڑی بار بار بند ہوجائے اور میں سخت سردی اور برفباری میں  ایک طویل مسافت تک  اُسے دھکا لگاؤں۔ کبھی کبھار میں پھسل جاتی اور دھکا نہیں دے پاتی۔ ایک دن جمعہ کو ہم ارومیہ سے صبح ۸ بجے کسی کام کے سلسلے میں مہاباد کے لئے روانہ ہوئے۔ اُس وقت میرے دو فرزند تھے  جو ہمارے ساتھ تھے۔ وہاں پر کوئی آپریشن ہونا تھا جسے شہر مہا باد کی آزادی پہ ختم ہونا تھا اور ہم وہاں پر اُس ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے۔ میرے شوہر نے فوجی لباس نہیں پہنا ہوا تھا لیکن امریکی اوورکوٹ پہنا ہوا تھا اور اُن کے داڑھی والے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ انقلابی ہیں اور میں نے مقنعہ اور چادر پہنی ہوئی تھی۔

شہر مہا باد  کے ٹول پلازہ کے پاس گاڑی بند ہوگئی۔ اسٹارٹ کرنے اور دھکا لگانے میں جتنا بھی زور لگا سکتے تھے لگا لیا، گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی۔  سب سمجھ گئے کہ ہم اجنبی اور مسافر ہیں اور ہر کوئی اپنی بات کر رہا تھا۔ ایک جوان مرد نے ہم سے کہا: "مجھے ایک مکینک کی دوکان کا پتہ ہے گاڑی کو وہاں تک دھکا دیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔" گاڑی کو ایک بہت بڑے گیراج میں لے گئے۔ میرے شوہر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رہے اور نیچے نہیں اُترے۔ گاڑی گیراج کے اندر آنے کے بعد اُس آدمی نے گیراج کا شٹر نیچے گرادیا اور شٹر کو تالا لگا دیا! ایسا لگا جیسے اُس نے میرے دل کا شٹر بند کردیا ہو! میرے ذہن میں ہزار باتیں آئیں کہ کیا ہوا ہے کہ اس مرد نے شٹر کو نیچے کرکے اُسے تالا لگا دیا ہے؟ کیا ہمارا راز فاش ہوگیا ہے؟ خدایا یہاں پر کیا ہونے والا ہے؟! مہاباد میں ہمیں نہیں پتہ چلتا تھا کہ کون فوجی ہے اور کون عام شہری ہے۔ اس بات کی تشخیص دینا کہ کون سپاہی ہے اور کون کومولہ ہے بہت مشکل تھا۔ ہر کسی نے گولیوں والی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اور پورا شہر جنگی حالت میں تھا۔ وہ مرد گیراج کے پیچھے گیا اور وہاں سے اوزار لاکر میرے شوہر سے کہا: "اسٹارٹ کرو، ایسا کرو، ویسا کرو۔" میں مسلسل یہ سوچ رہی تھی کہ یہ دیگر ساتھیوں کے آنے تک ہمیں چکر دے رہا ہے ۔  شاید سوچ رہا ہے یہ اکیلا ہم دو کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

بچے پچھلی سیٹ پر سورہے تھے۔ میرے اور شوہر کے درمیان بھی سکوت طاری تھا۔ اپنی زندگی کے تمام لحظات میں سے ا گر میں خوف کی تعریف کرنا چاہوں  تو میں اُسی وقت کو بیان کرسکوں گی۔ میں اتنا ڈری ہوئی تھی کہ  میری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ کوئی بھی واقعہ پیش آئے  تو میرا ردّ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ میں نے سوچا کہ اگر اس وقت میرے بچوں اور میرے شوہر کے سر کو میرے سامنے کاٹ دیں تو مجھے کیسے  ردّ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ اگر میرے شوہر کے سامنے میرے ساتھ زیادتی کریں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں دل ہی دل میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو پکار رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ میں کیا کروں اور کس طرح اس مسئلہ کو نمٹاؤں؟ اس وجہ سے میرا پورا وجود خوفزدہ تھا۔ دیکھیں خدا جانتا ہے مجھے مرنے کا خوف نہیں تھا، صرف میری حیثیت کا مسئلہ تھا اور اس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔ آہستہ آہستہ میرے پیر کے ناخنوں نے لرزنا شروع کیا، پھر یہ لرزنا میرے گھٹنوں تک پہنچا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تاکہ میرے شوہر کو میرے لرزنے کا پتہ نہ چلے لیکن آہستہ آہستہ یہ لرزہ میرے دانتوں تک پہنچ گیا اور میرے دانت آپس میں ٹکرانے لگے۔ میرے شوہر نے مجھ سے ایک جملہ کہا: "سردی لگ رہی ہے؟" میں نے اس وجہ سے کہ کہیں اُن کو پتہ نہ چل جائے میں ڈری ہوئی ہوں کہا: "ہاں!" حالانکہ مجھے سردی نہیں لگ رہی تھی۔ میرے شوہر نے اپنا اوورکوٹ اُتار کر میرے شانوں پر ڈال دیا۔ وہ لحظات میرے لئے  ایک عمر طولانی کی طرح تھے۔ مجھے نہیں پتہ گاڑی صحیح ہونے میں کتنا وقت لگا، میرے شوہر نے اسٹارٹ دبایا اور گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ اُس کے بعد اُس مرد نے شٹر کو اوپر اٹھایا اور کہا: "معاف کیجئے گا جیسا کہ روز جمعہ ہے اور ظہر کا وقت نزدیک  ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مشتری میرے پاس آئے اس لئے میں نے گیراج بند کردیا تھا۔ آئیں میرے ساتھ دوپہر کے کھانے پر چلیں۔"

اس تجربہ کے بعد جو میرے لئے بہت ہی تلخ اور سخت تھا میں راضی ہوگئی کہ میرے شوہر وہیں رہیں اور میں واپس آجاؤں۔

 

جب آپ دوبارہ تہران آگئیں آپ نے جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھا؟

میں آٹھ سالہ دفاع مقدس کے آخر تک وہاں پر کام کرتی رہی لیکن ہمارے کام کی نوعیت بدلتی رہتی۔ میرے خیال سے جب عراق کی نے پہلی مرتبہ کیمیائی بمباری کی کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد  کی تعداد بہت زیادہ تھی۔  میں نے ابتدائی طبی امداد اور فوجی ٹریننگ کورس کیا ہوا تھا، میں مدد کرنے کے لئے وہاں گئی۔ کیمیائی زخمیوں کے حالات واقعاً دردناک تھے۔ اُن کے جسم بڑے بڑے تولیوں میں لپٹے ہوئے تھے اُن میں سے کچھ کیمیائی زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ بمب پھٹنے کی آواز سے ذہنی توازن میں خلل کی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تھے اور اُنہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت تھی۔ ہمیں ایک ایسی مشکل کا سامنا تھا جس کی ہمیں شناخت ہی نہیں تھی۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ ان گیسز نے لوگوں کو کس مصیبت میں گرفتار کردیا ہے۔  ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم انجام دیتے تھے۔ اس طرح نہیں تھا کہ صرف زخموں کی مرہم پٹی کرتے یا انجکشن لگاتے، اگر ضرورت ہوتی تو زخموں کی صفائی بھی کرتے یا اوزاروں کو اینٹی سپٹک کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کیمیائی بمباری کی تھی، ہمارے پاس بہت سے وسائل نہیں تھے۔

اُس وقت میں اپنے تیسرے فرزند سے حاملہ تھی لیکن مجھے پتہ نہیں تھا اور میں وہاں کام کر رہی تھی۔ میری حالت بہت خراب ہوجاتی لیکن میں سوچتی  کہ وہاں کے حالات کی وجہ سے میری ایسی حالت ہوجاتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم جب میں آپ سے باتیں کر رہی ہوں تو آپ میری آواز میں خش خش  کو سن رہے ہیں یا نہیں؟ میرے  پھیپھڑے اُس وقت سے خراب ہیں۔ ذرا سی سردی لگ جائے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مجھے معمولی حالت میں واپس آنے کے لئے بہت علاج معالجہ کروانا پڑتا ہے ۔

 

کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد کی دیکھ بھال میں کتنا عرصہ لگا؟

میں تین مہینے تک وہاں رہی تھی۔

 

اس مدت میں بچے کس کے پاس تھے؟

وہی باری باری بچوں کی دیکھ بھال والا مسئلہ جو میں نے پہلے بیان کیاکہ میں نے اپنی دوست محترمہ رضوان مُزدارانی سے طے کیا ہوا تھا۔ جنگ کے آخری سالوں میں میرے تین بیٹے تھے اور اُن کے بھی تین بیٹے۔  ہم ان آٹھ سالوں میں ایک ساتھ کام بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے کے دوست بھی تھے۔

 

ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ایران کی اورل ہسٹری سائٹ کو دیا۔



 
صارفین کی تعداد: 4119


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔