جنگ کے دوران ہنرمند مجاھد کی داستان

یادوں بھری رات کا ۳۱۲ واں پروگرام (پہلا حصہ)

مریم اسدی جعفری

مترجم: محسن ناصری

2020-10-28


دفاع مقدس کے واقعات پر مبنی پروگرام، یادوں بھری رات کی ۳۱۲ ویں نشست کا اہتمام کیا گیا جس کے پہلے حصے میں ایک ہنرمند مجاھد کی داستان کو بیان کیا گیا اور اس داستان پر مبنی کتاب سے متعلق گفتگو بھی کی گئی۔ اس پروگرام کو ایران کی تاریخ کی بیان گر ویب سایٹ کی جانب سے ۴ اپریل ۲۰۲۰ء کو آپارات ویب سائٹ پر نشر کیا کیا گیا۔ پروگرام میں "عبدالرضا طرازی اور ڈاکٹر سعید مرزبان راد" نے بعنوان مہمان شرکت کی۔

اس پروگرام میں مہدی صالِحی میزبانی نے فرایض انجام دے رہے تھے اور مستقل مہمانوں سے سوالات کررہے تھے۔ اس پروگرام کے پہلے مہمان جناب عبدالرضا طرازی تھے جو " آواز ھای یک تردست" کے مصنف اور دفاع مقدس کے زمانے کے مجاھد بھی ہیں۔

میزبان؛ " میرے لیے بھی دلچسپ بات تھی کہ دفاع مقدس کے مجاھد کو ایک ھنرمند اور فنکار کی صورت میں دیکھوں"۔ کیا ممکن ہے ہمارے لیے واضح کریں"۔

طرازی؛ دفاع مقدس کے زمانے میں ہمارا کام آرٹ اور فن سے تعلق نہیں رکھتا تھا لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد میں نے فن سے متعلق مختلف شعبوں میں اپنے شوق کو بڑھایا اور اتفاقی طور پر شعبدہ بازی کے شعبے سے منسلک ہوگیا اور ماہرانہ سطح پر کام سیکھا۔ یعنی میرا کام شعبدہ بازی ہے۔

میزبان: بس دفاع مقدس کے زمانے میں آپ شعبدہ بازی نہیں جانتے تھے جبکہ آپ کی کتاب کا عنوان" آوزھای یک تردست" ہے۔ اس عنوان سے ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا وجہ ہے آپ نے اس کتاب کا نام کچھ اس طرح سے رکھا؟

اس کتاب کے نام کے برعکس، اس کتاب کا موضوع شعبدہ بازی نہیں ہے بلکہ کتاب کا کچھ حصہ اس سے متعلق ہے۔ جو کہ کردستان اور ملک کے جنوبی و مغربی علاقوں میں واقع جنگ کے واقعات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب فن اور ہنر کے ادارے کی جانب سے ۶ مہینے کی مدت میں وجود میں لائی گئی۔ اس کتاب کے نام کی وجہ یہ ہے کہ دفاع مقدس کے زمانے میں ادارے کی غلطی سے ایک جوان جس کا قانونی سن و سال جنگ کے لیے مناسب نہیں تھا اسے جنگ پر بھیج دیا تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ۱۴ سال تھی اور اس موقع پر میں نے ایک بڑی جنگ فتح المبین کا مشاہدہ کیا۔ ایک ایسا جوان جس نے ٹریننگ بھی نہیں لی تھی نہ ہی اسلحے کو کبھی دیکھا اور ہاتھ میں بھی نہیں لیا تھا وہ جنگ کے میدان میں موجود تھا۔ اس جوان کا بے تجربہ ہونا اس کے لیے بہت سے خطروں کا باعث تھا اس جنگ میں اس جوان کو مشکل ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس جوان کا اس مشکل اور بڑی جنگ میں کسی بھی قسم کے خطرے سے محفوظ رہنا کسی آرٹسٹ کی ماہرانہ پرفارمنس سے مشابہت رکھتا ہے۔

میزبان؛ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے نوجوانی اور جنگ کے زمانے کے واقعات میں سے کوئی خوبصورت اور دلکش واقعہ سنائیں جس سے ہم سب محظوظ ہوسکیں۔

ہر مجاہد کی طرح  جنگ میں گزرنے والا میرا تمام وقت خوبصورت واقعات پر مبنی ہے جن میں سے کچھ کو میں نے اس کتاب میں بیان کیا ہے جوکہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔ ہم نے ۸ سالہ جنگ میں بہت سی فتوحات اور کامیابیاں حاصل کی۔ لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ ہم کو اس جنگ میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ہم نے بھی بہت ساری ناکامیوں کا سامنا کیا۔ کردستان ، مغربی اور جنوبی علاقوں میں پیش آنے والی جنگوں میں خوف نے اس جوان کے وجود کو اپنے حصار میں لیا لیکن اس جوان نے کبھی اس خوف کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا اور وہ خوف کو اپنے وجود سے دور رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیاب رہا۔ یہاں تک کہ مصنف بعض اوقات جب جنگ شدید ہوجاتی تو خود کو سرزنش کرتا کہ کیوں جنگ پر آگئے یا اتنی مرتبہ جنگ میں شرکت کرلی تو واپس کیوں نہیں چلے گئے اب پھنس گئے نا مشکل میں۔۔؟ یہاں تک کہ بعض اوقات کچھ لوگ مجھے اس کم سنی میں میدان جنگ میں دیکھ کر رشک کیا کرتے تھے کیا کہ کس کم عمری میں محاذ پر آیا ہوا ہوں۔ لیکن کسی کو میرے اندر کی کیفیت کا کیا معلوم تھا، اگر کمانڈر جنگ میں موجود ہے تو مجھے بھی جنگ میں موجود رہنا تھا۔ میں آپ کے سامنے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ جنگ کے دنوں میں ایک مرتبہ میں ٹرین میں سفر کرہا تھا، درحقیقت میں میری طبیعت شوخ اور پُر مزاح ہے جبکہ میں سفر کے دوران کوشش کرتا رہا کہ مسافروں پر ایسا ظاہر کروں کہ میں ایک سنجیدہ طبیعت کا انسان ہوں اور ان کے سامنے سنجیدہ انسان کی اداکاری کررتا رہا۔ میں ان لوگوں پر ظاہر کررہا تھا کہ میں پہلے بھی جنگ پر آچکا ہوں۔ ان میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا "جناب  ہمارے لیے کوئی واقعہ بیان کریں"۔ میں نے کہا " ہم اس سے قبل دوپہاڑی گئے تھے"۔ اس جوان نے کہا " دو پہاڑی تو عقبہ میں ہے تو جنگ سے متعلق ہمیں کچھ بتاو"۔ میں نے ان کو باتوں میں الجھانا چاہا اور کہا کہ "میں اپنے کیبن سے ہوکر آتا ہوں"۔ کیوں کہ میں خود بھی پہلی مرتبہ ٹرین میں بیٹھا تھا ان لوگوں کا کیبن بھول گیا اور مجھے واپس آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کرکہا " تمہاری غیبت طولانی ہوگئی تھی۔۔ کہاں  تھے؟ ہم آپس میں کہہ رہے تھے کہ تم شاید ٹرین کے ریسٹورانٹ میں کھانا کھانے چلے گئے ہو"۔ اس وقت مجھے پتہ لگا کہ ٹرین میں ریسٹورانٹ بھی ہوتا ہے۔ میں نے جواب دیا " نہیں ایک پرانا دوست مل گیا تھا، اس سے باتیں کچھ لمبی ہوگئی"۔ ان طریقوں سے خود کو محفوظ رکھا اور ان لوگوں کا اسلحہ لے کر جنگ کرنے کے واقعات سناتا رہا۔

آپ غلطی سے ۱۴ سال کی عمر میں جنگ پر بھیج دیئے گئے اور ایک دفعہ واپس آنے کے بعد آپ نے دوبارہ میدان جنگ کا رُخ کیا ۔ کیا درست ہے؟

جی ہاں؛ میں نے ایک مرتبہ پھر جنگ پر جانے کے لیے بیس سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ مجھے ایک مرتبہ ٹریننگ پر بھیج دیں۔ لیکن ایک مرتبہ پھر وہی غلطی دہرائی گئی اور مجھے جنگ پر بھیج دیا گیا۔ جب میں کمرے سے باہر آیا تو ایک دوسرے شخص سے سوال کیا " بھائی آپ کے ہاتھ میں جو کاغذ ہے کیا میں اس کو دیکھ سکتا ہوں۔۔؟" اس کاغذ کو دیکھا تو وہی تاریخ وہی متن سب کچھ ایک جیسا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا" بھائی کیا آپ بھی ٹریننگ پر جارہے ہیں؟"  اس نے جواب دیا "نہیں بھائی ہم ایک مرتبہ پھر جنگ پر جانے کے لیے منتخب ہوگئے ہیں"۔ ایک دوسرے شخص کو بھی دیکھا تو اس کے ہاتھ میں بھی یہی کاغذ تھا اور وہ بھی جنگ پر ہی جارہا تھا۔ ایک جانب تو خوش تھا کہ ٹریننگ کے سخت مرحلے کو گزارنا نہیں پڑے گا اور دوسری جانب دل اس بات سے دھل رہا تھا کہ ٹریننگ لیے بغیر ہی جنگ پر جارہا ہوں میری ایک عجیب و غریب حالت تھی۔ جس دن جنگ پر پہنچے اسی دن ہمیں اسلحہ تھما دیا گیا۔ دوسرے جوان صندوقوں سے اسلحہ نکال کر ان کی گریس صاف کرکے آمادہ کرتے تھے اور ہوا میں ایک فائر بھی کرتے تھے۔ ابھی میں اپنی کلاشنکوف کے پرزوں کو لگانے میں مصروف تھا لیکن تمام کوششوں کے بعد بھی کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ وہاں موجود ایک جوان نے کہا " کیا ہوا کیوں اس کے ساتھ کشتی لڑرہے ہو۔۔؟" میں نے کہا کچھ نہیں فٹ نہیں ہورہی"۔ اس نے کہا مجھے دو اور میں بہانہ کرکے کچھ دور چلا گیا اور دور سے اس کو دیکھنے لگا جیسے ہی بندوق درست ہوگئی واپس آگیا۔ میں نے سوال کیا اس کو کیا ہوا تھا۔ اس جوان نے جواب دیا کچھ نہیں تھا۔ میں نے کہا " میں ایسے ہی اپنا کام چھوڑ کر آگیا؟"۔ یہ وہ تمام اداکاری تھی جس کے سبب میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں نے ٹریننگ نہیں لی ہے۔ ابھی محاذ پر پہنچے ہی تھے کہ جنگ شروع ہوگئی اور میں زخمی ہوگیا۔ مجھے ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ تمام راستے یہی سوچتا رہا کہ میں اگر تہران واپس چلا گیا تو محلے کے دوست کہیں گے " دیکھا بغیر ٹریننگ کے جنگ پر جاؤ گے تو یہی ہوگا"۔ بہرحال زخم زیادہ عمیق نہیں تھا اور کچھ مرہم پٹی کے بعد میں دوبارہ محاذ پر پہنچ گیا۔

محاذ پر جب نماز کا وقت ہوتا تو جوان لاؤڈ اسپیکر کو عراقی فوجیوں کی جانب کرکے اذان دیتے تھے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں اذان دوں گا۔ میں یہ کہہ کر ٹیلے پر چڑھ گیا اور اذان دینا شروع کی اور بہت ہی غرور سے واپس آیا۔ تو میرے ساتھی کہنے لگے تم نے ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگے تم اذان میں " حی علی الصلواۃ" بھول گئے تھے۔ اب اگر تم آگے گئے اور دشمن نے تم کو گرفتار کر بھی لیا تو چھوڑ دیں گے اور "کہیں گے یہ وہی جوان ہے جس نے اپنی اذان سے ہمیں لطف اندوز کیا تھا"۔

جناب طرازی، آپ شہید دستوارہ کی بریگیڈ میں وائرلیس آپریٹر تھے، اگر کوئی واقعہ ہے تو ہم سننا چاہیں گے۔

شہید دستوارہ بہت اچھے اور نیک انسان تھے میں  طویل عرصے تک ان کے ساتھ رہا۔ ایک دفعہ مجھے کچھ کام پیش آگیا اور مجھے اروند جانا پڑا۔ جب میں وہاں پہنچا تو مواصلاتی ٹیم کے جوان کسی پیغام کو ڈی کوڈ کرنے میں مشغول تھے لیکن سمجھ نہیں پارہے تھے۔ جیسے ہی مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ آگیا اس سے پوچھ لو۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے۔۔ ؟۔ کہنے لگے "حاج رضا نے پیغام بھیجا ہے اور پورا پیغام سمجھ آگیا ہے لیکن اس میں ایک لفظ ہے " تک تک" ہے وہ سمجھ نہیں آرہا اور حاج رضا نے اس لفظ پر بہت زیادہ تاکید کی ہے"۔ میں نے کہا " تک تک کوئی کوڈ نہیں ہے بلکہ یہ ایک چاکلیٹ کا نام ہے اور رضا کو چاکلیٹ بہت پسند ہے اسی لیے دستور دیا ہے کہ تک تک چاکلیٹ ضرور لے آو"۔

میزبان ؛جناب طرازی آپ کا بہت بہت شکریہ اگر کوئی پیغام ہے تو ضرور دیں۔

جناب صالِحی ( میزبان) یہ واقعات نہیں ہے بلکہ درد دل ہے۔ بعض اوقات اکثر جنگ کی داستانوں میں سننے کو ملتا ہے کہ جب دشمن ہم سے نزدیک ہوتا تھا تو جوان "اللہ اکبر" کی صدا بلند کیا کرتے تھے اور دشمن بھاگ جایا کرتا تھا۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم دشمن کے سامنے ہوں اور دشمن ہماری اللہ اکبر کی صدا سے اسلحہ چھوڑ کر فرار ہوجائے۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ بلکہ  اس کے برعکس وہ اکیلے بھی ہمارے سامنے ڈٹ جاتے تھے۔ کیا وجہ تھی عراقی فوجی ہمارے فوجی دستے کے مقابلے میں استقامت کرتا تھا۔ کیوں کہ وہ زندہ رہنا چاہتا تھا اور اس کے لیے وہ ہمارے مقابلے میں ڈٹا رہتا۔ آپ سوال کریں گے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو فرار کیوں نہیں کرتا تھا۔۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراقی فوج نے اپنے کیمپ میں پھانسی گھاٹ بنائے ہوئے تھے اور جب کوئی فوجی میدان جنگ سے پیچھے ہٹتا تھا تو اس کو پھانسی پر چڑھا دیا کرتے تھے۔ اگر ہمارے مقابلے میں استقامت دیکھاتا تو امکان تھا کہ زندہ رہ جائے لیکن میدان سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں اس کو ہرحال میں موت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اگر ایسا ہوتا کہ ہمارے اللہ اکبر کے نعرے لگانے سے دشمن بھاگ جائے تو ہمیں ۸ سال جنگ لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے اتنے شہید کیوں دیئے۔۔؟ اس قسم کے واقعات جوانوں کی قربانیاں کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے اس ملک کا ایک ایک چپہ دشمن کے چنگل سے آزاد کروایا ہے اور جب دشمن ملک سے ناکام ہوکر نکلا تو یہ سرزمین خاک و خون سے آلودہ تھی۔ اس زمین کی آزادی کے لیے پاک و پاکیزہ جوانوں کا خون بہا ہے۔ عراق کی بعثی فوج خطے کی طاقتور ترین فوج تھی اور اس کو اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ اگر ہم اس سرکش اور طاقتور فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے جوانوں اور شہیدوں کی فداکاری ہے۔

اس پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالرضا طرازی نے اپنی کتاب پر دستخط کرکے ہمارے کتاب خانے کو ھدیہ کی۔



 
صارفین کی تعداد: 2259


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔