تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – پچیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-6-8


یونٹ کمانڈر نے مجھے ذمہ داری سونپی کہ میں ڈاکٹروں کی خندقیں بنانے کے لیے، آرٹلری بٹالین 103 سے کچھ لکڑی کے خالی صندوق لانے کے لئے "سوسنگرد" جاؤں۔ یہ ذمہ داری ملنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں 5 جنوری 1981ء  کو ہونے والی سوسنگرد کی لڑائی کے علاقے سے قریب سے واقف ہونا چاہتا تھا۔  ایک عراقی ٹرک، ایک ڈرائیور اور ایک فوجی کے ساتھ میں اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوگیا۔  ہم نے سوسنگرد شہر کے جنوب میں واقع "احمدآباد" گاؤں کی طرف سے سوسنگرد کا ریتیلا راستہ طے کیا۔ راستے میں ڈرائیور نے نویں فیلڈ ڈویژن کے بیس کے ارد گرد اور سڑک کے نزدیک کچھ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیلے ان ایرانی فوجیوں کی قبریں ہیں جو 5 جنوری کی لڑائی میں مارے گئے۔

چالیس منٹ کے بعد ہم ایرانی اور عراقی فورسز کے درمیان موٹروے والے علاقے میں موجود آرٹلری بٹالین کے اڈے پر پہنچے۔ پورا علاقہ جلے ہوئے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک بڑی تعداد میں فوجیوں کے جوتے اور کپڑے زمین پر یہاں وہاں بکھرے پڑے تھے۔ توپ خانے کے کمانڈر نے مجھے جلدی کرنے کو کہا کیونکہ اس علاقے پر گولہ باری کا خطرہ تھا۔ اسی لیے ہم جلدی سے ٹرک کو گولہ بارود کے خالی صندوقوں سے بھر کر واپسی کے لئے نکل پڑے۔ میں اس ناتمام لڑائی کے آثار دیکھ کر اندر سے بہت افسرده تھا جس کی کمانڈ دو مہینے پہلے بنی صدر کے ہاتھ میں تھی۔

بہرحال ہمارا یونٹ پناہ گاہیں بنانے کے بعد اپنی نئے اڈے پر ٹھہر گیا۔

محاذ پر سکون کے ساتھ ساتھ بے چینی چھائی ہوئی تھی۔  ہمارے اردگرد "سام" میزائلز کی تنصیب کے بعد پھر کبھی علاقے میں ایرانی طیارے نظر نہیں آئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے  کاموں میں مشغول ہوگیا۔

میڈیکل یونٹ کا کمانڈر،  کیپٹن ڈاکٹر "احسان حیدری" ایک ناکام انسان تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت شراب پینے اور جوا کھیلنے میں گزارتا تھا۔ وہ حزب بعث کی طرف کوئی خاص رغبت نہیں رکھتا تھا، اور کبھی کبھار شیعہ مذہب لوگوں سے بھی گفتگو کرتا تھا۔ "نقیب زیدان" ہمارے یونٹ کا ایک بعثی افسر تھا۔ وہ خاص ادوار سے گزرا تھا۔  وہ ایک مستقل شرابی اور ایک کمزور انسان تھا۔ اور کیپٹن "صباح المرایاتی" ڈینٹسٹ اور انٹیلی جنس اور سیاسی جواز آفیسر جو ظاہری طور پر عراقی حکومت کی طرف داری کرتا تھا، یہ تین لوگ رات کی جوئے کو محفل جمانے والے اصلی کردار تھے جس میں کچھ ڈاکٹرز اور لیفٹینٹ "علی" فارمسسٹ بھی شرکت کرتے تھے۔ کھیل عام طور پر رات دس بجے شروع ہوتا تھا اور صبح سویرے ختم ہوتا تھا۔ میں اور دوسرے کچھ ڈاکٹرز اپنی خندقوں میں مطالعے اور علمی بحثوں میں مصروف رہتے تھے۔  یونٹ کمانڈر اور اس کے دوست اصرار کرتے ہوئے ہم سے چاہتے تھے کہ ہم ان کے جوئے کے کھیل میں  شرکت کریں، لیکن ہم اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھار مجبوراً ہمیں ان کا کھیل دیکھنے کے لیے کمانڈنگ خندق جانا پڑتا تھا، لیکن ہم کھیل میں شریک ہونے سے پرہیز کرتے تھے۔ اسی چیز نے میرے لیے بہت سی پابندیاں اور مشکلات پیدا کردیں۔  مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب کیپٹن ڈاکٹر "احسان حیدری" میرے شراب پینے اور جوا کھیلنے میں شرکت سے مایوس ہو چکا تھا تو اس نے میری طرف منہ کرکے کہا: " تم کیسے آدمی ہو؟ ظاہری طور پر تم میں اور بت میں کوئی فرق نہیں، نہ جوا کھیلتے ہو نہ شراب پیتے ہو!"

ایک بار ان میں سے ایک آدمی جوئے میں اپنے سارے پیسے ہار گیا۔ وہ جانتا تھا کہ میرے پاس سو دینار ہیں۔  وہ مجھ سے قرض لینا چاہتا تھا لیکن میں تیار نہیں ہوا کہ اپنے بچے کچے پیسے اسے دے دوں۔ اسی چیز نے ان کے دلوں میں میرے لیے  کینے کو اور بڑھا دیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے کوشش کی کہ مختلف بہانوں سے اس ماحول سے دوری اختیار کروں جیسے ان متدین فوجیوں اور اعلی افسران سے گفتگو جو اپنی حالت اور جنگ جاری رہنے کا شکوہ کرتے تھے۔ ڈاکٹرز کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف میرا جھکاؤ اس بات کا باعث بنا کہ ایک طرف تو میں ان کے درمیان خاص مقبولیت حاصل کروں اور دوسری طرف اپنے لیے بعثیوں کے غصے اور ناراضگی کو ہوا دوں، اس طرح سے کہ وہ میری تمام باتوں اور حرکتوں پر نظر رکھنے لگے۔

ایک دن "صباح المرایاتی" نے مجھے طلب کیا اور چاہا کہ میں اس کے ساتھ چہل قدمی کروں۔  ہم اپنی خندق سے نکلے اور راستے بھر میں کالج کے حالات اور ہسپتال میں کام کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ ہماری گفتگو جنگ کے موضوع کی طرف چلی گئی۔ اس نے مجھ سے کہا: "تم ہمیشہ حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہو، جنگ کی مذمت کرتے رہتے ہو اور لوگوں کو جنگ سے بدگمان کرتے رہتے ہو۔"

میں نے اس سے کہا: " یہ محض ایک بہتان ہے-"

اس نے کہا: "میں حقیقت بیان کررہا ہوں۔"

میں نے کہا: "اچھا، ثبوت لاؤ!"

اس نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور کہا: "سنو!"

اس نے کچھ ایسی چیزیں پڑھیں جنہیں سن کر مجھے لگا کہ یہ انٹیلی جنس ایجنٹس کی رپورٹس ہیں۔ انھوں نے مختلف مواقع پر میری باتوں اور کاموں کو بعینہ ریکارڈ کرلیا تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: "تم نے جو دستاویزات فراہم کیے ہیں وہ صحیح ہیں، لیکن تم نے انہیں کیسے حاصل کیا؟"

اس نے ہنس کر کہا: "اپنے ایجنٹس کے ذریعے۔۔۔   ڈاکٹر! ہوشیار رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو، کیونکہ ہماری آنکھیں اور کان ہر جگہ موجود ہیں۔"

میں نے اس سے پوچھا: "آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو؟"

اس نے ہنستے ہوئے کہا: "کچھ نہیں، میں صرف تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔"

مجھے تعجب ہوا اور میں نے کہا: "کیا جاسوسی کرنے والے بھی لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں؟"

اس نے کہا: "کبھی کبھار، ہمیشہ نہیں"  اس نے مزید کہا : " میں تمہارے متعلق کوئی فیصلہ لینا نہیں چاہتا اس شرط پر کہ آج کے بعد دوبارہ ایسا نہیں کرو گے۔ "

میں نے کہا: "تم حلال زادے لگتے ہو اور لوگوں کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتے۔"

اس نے جواب میں کہا: "ڈاکٹر! میں ایران اور امام خمینی کے لئے تمہارے جیسے ہی جذبات رکھتا ہوں۔ اگرچہ میں نام سے "بعثی" ہوں لیکن اپنے جذبات اور خیالات کو چھپاتا ہوں۔ میں حکومت کے فائدے کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوں۔"

اس نے جو کچھ میرے لئے کیا میں نے اس کے لیے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس سے کہا کہ وہ  ان کاغذات کو جلا دے تاکہ انٹیلی جنس آفیسر کے ہاتھ نہ لگیں۔  اس نے اپنا نیلے رنگ کا لائٹر جیب سے نکالا اور تمام کاغذات کو جلا دیا۔  ہم کافی دیر تک چہل قدمی کرتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔  میں نے واضح الفاظ میں اس سے کہا کہ میں جنگ اور سیاست کے بارے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں نے اس سے گزارش کی کہ وہ انٹیلی جنس ایجنٹس کی نشاندہی کرے تاکہ میں ان سے دور رہوں۔  اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: " ایسا نہیں کر سکتا، میرے لئے ذمہ داری بن جائے گی۔"

میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کروں گا۔ میرے بہت زیادہ اصرار کرنے کے بعد اس نے گیارہ انٹیلی جنس ایجنٹس کے نام بتائے جن میں سرفہرست پیرا میڈیکل وارنٹ آفیسر "جاسم" کا نام تھا۔

 ہم یونٹ کیمپ واپس لوٹ آئے۔  میں نے فوراً  کچھ متدین پیرامیڈکس کی مدد سے  ان ایجنٹس کی نشاندہی کی کوشش کی۔  ان میں سے ہر ایک سے دور سے آشنائی کے بعد میں نے کوشش کی کہ اس کے بعد میں جاسوس بعثیوں کے جال میں نہ پھنسوں۔  میں ایک جیسے اور تھکا دینے والے دن گزار رہا تھا۔  نہ صرف یہ کہ خوش ہونے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس ایسے واقعات پیش آرہے تھے جو میرے لئے تکلیف دہ تھے۔ ایک دن میں نے اپنے دوست "عبد سلیمان" کی گرفتاری کے پانچ ماہ بعد اس کی پھانسی کی افسوس ناک خبر سنی۔  وہ ایک دوست تھا جس سے جنگ کے ابتدائی دنوں میں آشنائی ہوئی تھی۔ اسے ایک اسلامی تحریک میں  رکنیت کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔  یونٹ کے افراد یہ خبر سن کر بہت افسردہ ہوئے۔

ہم وقتا فوقتا مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایران میں داخلی تنازعات اور اختلافات کے پیدا ہونے، اس ملک کے خلاف معاشی محاصرے اور امریکیوں کی یرغمالی سے متعلق خبریں سنا کرتے تھے جو ہمارے لئے تکلیف دہ تھیں۔ خاص طور پر یہ چیز کے تمام واقعات کا سلسلہ عراقی حکومت کے مفاد میں ختم ہوتا تھا۔ میرے ڈاکٹر "رعد" اور ڈاکٹر "ذر" کے تعلقات اختلاف رائے  کی وجہ سے کشیدہ تھے۔  یہ دو لوگ اسلامی انقلاب اور امام خمینی کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور زیادہ تر مجھ سے اشارے کنایوں میں بات کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب بھی ریڈیو تہران پر خبریں نشر ہوتی تھیں، میں اپنی سونے والی خندق سے باہر آتا تھا۔ وہ پوچھتے تھے: " کہاں! ضرور تم ریڈیو تہران کی خبریں سننے جا رہے ہو!"

بارہا میں نے درگزر کیا اور کوشش کی کہ ان سے دور رہوں لیکن ہماری زبانی تکرار ویسے ہی چلتی رہی۔  ایک دن میں اپنی آرام والی خندق میں بیٹھا ہوا تھا اور ٹی وی شوز دیکھنے کے دوران جنگ کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے تھے۔  میں نے کہا: " صدام نے کہا..."

ڈاکٹر "رعد"  نے غصے سے جواب دیا: " تم جناب صدر یا عزیز صدام کیوں نہیں کہتے؟  کیا صدام تمہارا نوکر ہے؟"

 میں نے جواب دیا: "مجھے جناب صدر یا عزیز کہنے کی عادت نہیں ہے میں ہمیشہ صدام حسین کہہ کر ہی اس کا نام لیتا ہوں۔"

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2572


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔