تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – دوسری قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-7-22


وہ سال جو حوادث میں غرق تھے

سن ۱۹۷۹ء میں میڈیکل کالج سے میری پڑھائی مکمل ہوگئی اور میں نے ایک ڈاکٹر کے عنوان سے معاشرے میں اپنی پریکٹس شروع کردی۔ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی وجہ سے بغداد کے ایک بہترین ہسپتال میں میری ڈیوٹی لگی۔ میری ڈیوٹی عرب چائلڈ ہسپتال سے شروع ہوئی اور "کرامہ" کے جنرل ہسپتال میں ختم ہوئی۔ عرب چائلڈ ہسپتال حساس جگہ پر  یعنی قومی اسمبلی، وزیر اعظم ہاؤس کے قریب تھا۔

اُسی سال جولائی کے مہینے میں عراقی حکومت کے ٹیلی ویژن نے صدام کے حکومت پر آنے کی خبر شائع کی۔کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اُس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے اور مستقبل میں اُس کے ملک میں کیا صورت حال ہوجائے گی؟ صدام نے حکومت پر قبضہ جمانے کے کچھ دنوں بعد، دوسرے سربراہوں اور اپنے رقیبوں کو  ایک خونی کھیل میں دیار فانی کی طرف بھیج دیا۔ اس سازش کو ٹیلی ویژن کے ذریعے دوسری تنظیموں کے افراد کو بھی دکھایا گیا تاکہ وہ لوگ عوام کو اس داستان کے بارے میں بتائیں  اور عراق کی مشہور کہاوت کے مطابق "جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر حاضر لوگوں کو اطلاع دیدیں۔"

صدام کے اس کام کا ہدف عوام کو دھمکی دینا اور رعب میں لینا تھا تاکہ اس ناپاک طریقے سے حکومت پر قبضہ جمائے۔ حقیقت میں یہ واقعہ صدام کے عراقی عوام پر ظلم و تجاوز کی شروعات تھیں اور اس ملک کو ویرانی، مصیبت ، خونریزی اور پستی کی طرف دھکیلنے کیلئے پہلا قدم تھا۔

میں پورے ایک سال تک بغداد میں رہا اور میں نے اس پوری مدت میں عراق اور اُس علاقے میں ہونے والے خطرناک اور اہم حوادث کو رونما ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں کوشش کروں گا کہ ایسے اہم ترین حادثات جو جنگ سے مربوط تھے اور جو انقلاب اسلامی ایران کے خلاف ایک وسیع تجاوز کی شروعات کی تیاری کیلئے منہ بولتی سند ہو، انھیں آپ کیلئے لکھوں۔

۱۔ صدام کا حکومت پر آنا

عراق کی مسلمان قوم ۶۵ فیصد شیعہ اور ۳۵ سنی سے تشکیل پائی ہے۔ شیعہ افراد، جو اسلام اور اپنے تمدن پر سختی سے پابند رہتے ہیں، انھوں نے مختلف زمانوں میں نمایاں مذہبی کردار ادا کیا  اور صدیوں سے ایرانی عوام کے ساتھ برادرانہ اور مستحکم روابط رکھتے ہیں۔ یہ روابط عراق  کے شیعوں اور ایران  کی عوام کے درمیان مذہبی صورت میں ہیں۔ امام خمینی نے اپنی زندگی کے ۱۵ سال نجف اشرف میں گزارے؛ اسی وجہ سے عالمی استکبار خوفزدہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو عراق دوسرے ممالک سے زیادہ اسلامی تحریک کے اثر کو قبول کرلے۔ لہذا کسی بھی حادثے کے واقع ہونے سے پہلے اُس کی روک تھام کیلئے کوئی چارہ جوئی ہوجانی چاہیے تھی۔ خاص طور سے یہ کہ شاہ اور امام خمینی کا تجربہ مغربیوں کیلئے بہترین  درس عبرت تھا۔

جیسا کہ عراقی سرزمین جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کی حامل ہے، ضروری تھا کہ ایک ایسا حاکم جس میں خاص خصوصیات پائی جاتی ہوں، اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور عوام کی ہر وہ حرکت جو انھیں انقلاب کی طرف لیکر جاتی ہو اُسے سرکوب کرے۔ اُسے  ہر صورت میں تہران اور قم سے اٹھنے والی قیام اور انقلاب کی تیز ہواؤں کا مقابلہ کرنا تھااور ضرورت پڑنے پر، اس انقلاب سے جنگ کرتا۔ اس ذمہ داری کیلئے سب سے مناسب شخص، کہ جس کے اندر اخلاقی پستی اور طاقت حاصل کرنے کا جنون تھااور اس طرح کے کرداروں کو ادا کرنے کیلئے جسے مغربی انٹیلی جنس اداروں کا تربیت یافتہ سمجھا جاتا تھا، وہ تکریت کے صدام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی وجہ سے، پہلے سے سوچے سمجھے ایک منصوبہ کے تحت، "البکر" کی جگہ صدام آیا اور وہ پارٹی اور حکومت کا سب سے بڑا شخص بنااور جو امریکا کی حمایت سے ایک ا فسانوی شخصیت کا حامل بنا۔ صدام نے پارٹی اور اُس کے تحت چلنے والے اداروں کو منظم کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کا آغاز کیا، پھر سیکیورٹی محکموں اور انٹیلی جنس اداروں میں تبدیلیاں لایا تاکہ وہ تمام امور کو بہت آسانی سے اپنے کنٹرول میں لے سکے۔ اور اُس نے وسیع پیمانے پرپارٹی اور فوج میں چھانٹی کا آغاز کیا۔ اسی طرح سوریہ کے ساتھ وحدت قرار داد کو بھی لغو کردیا تاکہ وہ ملک اس کی حکومت میں مداخلت نہ کرسکے۔ اُس وقت، صدام نے عوام کی طرف رُخ کیا اور اُس نے مختلف طریقوں سے کوشش کی کہ اپنی نسبت لوگوں کے اعتماد کو حاصل کرے۔ اسی بات کے پیش نظر، اُس نے برطانیہ اور ایک عرصہ تک حکمرانی کرنے والے ڈکٹیٹر کی انٹیلی جنس ایجنسی کے تجربوں سے استفادہ کیا۔ اس معاملے میں صدام کی اہم ترین سرگرمیاں، شہروں اور گاؤں کا دورہ کرنا ، حکومتی اداروں کا دورہ کرنا، خاص طور سے سہولت فراہم کرنے والے ادارے، جیسے ہسپتال، اسکول اور میونسپلٹی وغیرہ تھے۔ تاکہ ظاہری طور پر عوام کی مشکلات اور زندگی کا براہ راست مشاہدہ کرے۔

ان دوروں کے دوران، بعض نچلے درجے کے کاریگروں کو – بغیر کسی تحقیق یا مقدمے  کے – جیل میں ڈال دیتا، ملازمت سے نکال دیا یا انھیں سزا دیتا تھا اور کچھ دوسرے لوگوں کی بغیر کسی دلیل کے  حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو مشکلات حل کرنے والے فرد کے عنوان سے ظاہر کرنے کیلئے، کوشش کرتا کہ زور زبردستی سے کام لیکر، حکومتی اداروں کی وفاداریوں کو حاصل کرے۔ وہ اس حد تک آگے بڑھ گیا تھا کہ لوگوں کے سامنے قانون کا مذاق اُڑاتا تھا اور واضح طور پر کہتا تھا: "کاغذ پر پینسل سے لائن کھینچنا قانون ہے۔"

صدام عمومی افکار کو دھوکہ دینے کیلئے، دیہاتی لباس پہن کر، خیموں میں بیٹھ کر، فوجی بن کر، اور بالآخر قوم کا محبوب فرزند – حکومتی پرنٹ میڈیا کی تعبیر کے مطابق - بن کر منظر عام پر آیا۔ صدام کے دورہ جات ، جو ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائے جا رہے تھے، وہ مضحکہ خیز مناطر، ہنسنے والے واقعات اور حقیقت میں افسوس ناک ہوتے تھے۔ میں اُن میں سے کچھ کو یہاں ذکر کر رہا ہوں:

مجھے یاد ہے سب سے پہلے دن جب میں نے چائلڈ ہسپتال میں قدم رکھا تھا، ڈاکٹروں کے انچارج "ڈاکٹر حیدر" نے مجھ سے کہا: "اس ہسپتال میں صدر کے بہت دورے ہوتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ تم اس معاملے سے آگاہ رہو!"

میں سن ۱۹۷۹ میں عید الاضحی کے آخری دن ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کا ڈاکٹر تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے میری پلکیں جھپکیں۔ ہسپتال کی عمارت پر سکوت طاری تھا۔ اچانک رات ۱۰:۰۶ منٹ پر میں نے کچھ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنی جو چل رہے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو مجھے صدام نظر آیا جو اپنے محافظین کے ساتھ مین گیٹ سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ چوکیدار جو ایک بوڑھا شخص تھا اُس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر صدام کو سلام کیا، لیکن ایک محافظ نے اُس کے سینے پر ایک ہاتھ مارا اور اُسے زمین پر گرا دیا۔ میں اپنی جگہ آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ صدام اپنے محافظین کے ساتھ اندر آیا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:

"تم شفٹ کے ڈاکٹر ہو؟"

میں نے جواب دیا: "جی استاد۔"

صدام کے ساتھ آنے والوں نے اپنے مضبوط بازؤں سے مجھے اُس کے طرف کھینچا۔ مجھے اُس کے مکروہ چہرے، سوجھی ہوئی آنکھیں، الجھی ہوئی بھنوئیں اور اُس کے رخسار پر جو کالا تل تھا سے تعجب ہوا۔ اُس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اُسے ہسپتال کے مختلف جگہوں کو دکھاؤں۔فرعون کی سواری نے حرکت کی۔ میں نے جیسے ہی چاہا کہ اُس کے شانہ بہ شانہ چلوں، ایک محافظ نے مجھے ڈنڈا مارا اور میرے کان میں کہا: "پہلی بات تو یہ کہ سر کہو استاد نہیں اور دوسری بات یہ کہ اپنے ہاتھوں کو اپنے سر کے پیچھے رکھو!" اور میں نے فوراً اس کے حکم پر عمل کرلیا۔ چند میٹر چلنے کے بعد ہم لفٹ تک پہنچے اور میں صدام اور اُس کے ذاتی باڈی گارڈ سیکنڈ لیفٹیننٹ "حسین تکریتی" –فوج کا موجودہ وزیر [یعنی کتاب لکھنے کے وقت] اور صدام کا داماد – کے ساتھ لفٹ میں چڑھے اور پہلی منزل پر گئے کہ جہاں ہم سے پہلے محافظین پہنچ چکے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2829


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔