انقلاب کے دور میں مساجد

مسجد لر زادہ

مریم طحان
ترجمہ: سید سمیر علی جعفری

2018-9-1


مسجد لر زادہ تہران کی ایک معروف  مسجد  اور پہلوی حکومت کے خلاف تحریک کا اہم مرکز تھی۔  یہ مسجد  ۱۳۵۰ سے  ۱۳۵۷  [ ۱۹۷۱ سے ۱۹۷۸] تک  جنوب مشرقی تہران میں  مبارزات اسلامی کے لئے ہال  اور انقلابی نوجوانوں کے جمع ہونے کا مرکز تھی، بالخصوص   ان طلبہ کے لئے جنوبی تہران کی انقلابی تحریکوں میں شریک تھے۔

مسجد لر زادہ ،  ایک رہائشی محلہ میں واقع ہے جو اسی نام کی ایک خیابان میں ہے اور خیابان خراسان، جنوبی تہران کے نزدیک واقع ہے۔ خیابان خراسان میں مختلف اصناف کے تاجر اپنے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ مسجد اپنی طرز تعمیر  اور تاریخی واقعات کی بنا پر اہمیت کی حامل ہے۔

مسجد لرزادہ سال ۱۳۲۲ ہجری شمسی [۱۹۴۳]  میں آیت اللہ شیخ علی اکبر برہان کی وساطت تعمیر کی گئی۔ اسی لئے اس  مسجد کا دوسرا مشہور نام مسجد برہانیہ ہے۔[1] ایک روایت کے مطابق مسجد کی زمین، مدرسہ اور   مخزن آب وغیرہ حاجی غلام رضا نیک زادہ توتوچیان نے وقف کیا تھا لیکن کچھ ثبوت اس بات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف   مخزن آب  اور طالب علموں کے لئے کمرے وقف کئے تھے باقی زمین حسین لرزادہ نے وقف کی تھی ، وہی محترم لرزادہ جو اس مسجد کے معمار اور مرمت کار رہے۔[2]

یہ مسجد محترم لرزادہ کے ہاتھوں تعمیر ہونے یا پھر خیابان لرزادہ میں واقع ہونے کی وجہ سے مسجد لرزادہ کے نام سے مشہور ہوگئی ۔[3] شہر تہران کی قدیمی عمارتوں کی دوبارہ تعمیر و مرمت کے باوجود بھی یہ مسجد اپنی پہلی سی صورت پر باقی ہے اور اپنی روایتی معماری کے نقوش کو محفوظ کئے ہوئے ہے۔[4]

مولوی علی اکبر برہاں سال  ۱۳۲۰  ہجری شمسی  [ ۱۹۴۱ء]میں اس نیت  سے نجف سے ایران آئے کہ ایرانی قوم کے لئے تعلیم و تربیت اور مدرسہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے خیابان خراسان جو اس زمانے میں شہر سے کافی فاصلے پر ، ایک بیابان میں واقع تھی، وہاں مسجد و مدرسہ لرزادہ کی بنیاد رکھی۔ ان کے ہاتھ خالی تھے او ر وہ اسی بے بضاعتی میں مدرسہ کے امور چلا رہے تھے۔[5]

یہ مسجد قاچاری طرز تعمیر پر، گنبد نما چھتوں ، ستونوں کی بہتات اور چھوٹی محراب ، فیروزی سنگ کاری کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔  وسعت کے اعتبار سےزیادہ بڑی نہیں ہے مگر مذہبی اور علمی امور کی انجام دہی کے لئے یہاں مناسب امکانات موجود ہیں۔ رقبہ کے لحاظ سے تقریباً ۱۲۰۰ مربع میٹر پر مشتمل ہے، جس کا ۵۴۰ مربع میٹر آرام گاہ کے ساتھ مختص ہے۔ مدرسہ لرزادہ اس مسجد کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ گلی کی ابتداء میں ہے اور مسجد سے ملا ہوا نہیں ہے[6] اور یوں بھی اب وہ مدرسہ علمیہ امام سجاد علیہ السلام کے نام سے جانا  جاتا ہے۔ماضی میں مسجد اور مدرسہ ایک دوسرے کے پہلو میں تھے مگر بعد میں مدرسہ کو آرام گاہ میں تبدیل کر دیا گیا اور حجۃ الاسلام عباس علی عمید زنجانی نے ایک مکان خرید کر مدرسے کے لئے مخصوص کر دیا جس میں طلاب صرف تعلیم حاصل کر سکتے ہیں وہاں رہائش کا انتظام نہیں۔[7]

مسجد کے  ساتھ ہی  مخزن آب تعمیر کیا گیا، بعد میں پانی کی شہری لائینز بچھنے کے بعد اس کا ایک بڑا حصہ اسٹور میں تبدیل ہو گیا اور  تہہ خانے والے حصے کو مسجد کا باورچی خانہ بنا دیا گیا۔[8]

مسجد لرزادہ کے پہلے پیش نماز خود آیت اللہ برہان تھے[9]۔ وہ ہر شب  نماز کے بعد، اپنے  پر کشش بیان میں، نمازیوں سے خاطاب کیا کرتے تھے۔  ان کا  انداز بیان ایسا دلچسپ ہوتا تھا کہ غیر متدین لوگوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرا لیتا تھا۔ ان کے کاموں کے طفیل محلہ لرزادہ  ایک پاک اور معنوی محلے میں تبدیل ہو گیا اور وہاں کے رہائشی آیت اللہ برہان کے احترام میں بہت سی  ایسی بداعمالیوں سے کنارہ کش ہو گئے جو دیگر علاقوں میں معمولاً انجام دی جاتی تھیں۔[10]

جب تک آیت اللہ برہان امام جماعت رہے ، مسجد میں ہر صنف کے لوگ نماز کی ادائیگی کے لئے آیا کرتے تھے " وہ سب سے کہا کرتے تھے کہ  آپ لوگوں کو جو بھی کام ہو آپس میں ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے انجام دیں،  کیونکہ  وہ لوگ متدین اور قابل اعتماد ہیں اور آپ کے گھروں میں آتے ہیں، ان کی نظریں پاکیزہ ہیں۔ حتیٰ کہ وہ تاکید کرتے کہ ازدواج کے لئے بھی دولہا دلہن آپس میں تلاش کریں ۔ کئی ڈاکٹروں نے آیت اللہ برہان سے کہا کہ اگر کوئی مریض، فقیر ہو تو اس کو آپ ہمارے پاس بھیجیں تاکہ ہم اس کا مفت علاج کریں۔ اگر کوئی نئی کتاب چھپتی تھی تو آیت اللہ برہان اس کے مولف سے کہتے تھے کہ   اپنی کتابوں کو مسجد میں لے آو میں لوگوں کو خریدنے کا کہہ دونگا۔ فیض الاسلام صاحب اپنی نہج البلاغہ کو مسجد لے آئے جس کی چھ جلدیں تھیں اور انہیں ۵ تومان فی جلد کے حساب سے فروخت کر دیا۔ مسجد لرزادہ تقریباً ایک چھوٹا سا شہر بن گئی تھی جہاں ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔[11]

سال ۱۳۴۲  شمسی  [ ۱۹۶۳ء] میں ، آیت اللہ شیخ جواد فومنی حائری کچھ مدت کےلئے مسجد لرزادہ میں قیام  پذیر ہوئے۔اس قیام کے دوران وہ نماز کی امامت کے ساتھ  مسجد کے منبر سے تقریر بھی کیا کرتے تھے۔وہ ایک جنگجو سپاہی تھے اور بے خوف و خطر ہر منبر اور ہر مسجد میں  شہنشاہی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور اس  حکومت کے خلاف منصوبہ بندیاں کرتے تھے۔[12]

ابتدا ء ہی سے مسجد لرزادہ میں آیت اللہ برہان کے علاوہ  بھی لوگ پیش نماز رہے جیسے  حجۃ الاسلام سید محمد شجاعی جو آیت اللہ برہان کی زندگی اور ان کی وفات کے بعد بھی مسجد لرزادہ میں پیش نماز رہے، محترم حاجی شیخ علی آقا تنکابنی جو فلسفی کے نام سے مشہور تھے ۱۳۴۱ سے ۱۳۵۰ [ ۱۹۶۲ تا  ۱۹۷۱ء]  تک مسجد لرزادہ میں پیش نماز رہے اور آیت اللہ عباس علی عمید زنجانی [13]۔ مسجد لرزادہ میں سیاسی امور کی انجام دہی تو آیت اللہ برہان کے زمانے سے جاری تھی۔ وہ پہلوی حکومت کے جشنوں اور تہران میں موجود فساد اخلاقی خصوصاً لالازار اور خیابان شاہ آباد کے فساد کے سخت مخالف تھے اور منبر پر کہا کرتے تھے: " میں تہران کی اس حالت کے انجام سے ڈرتا ہوں کہیں خدا وند متعال غضبناک ہوکر شدید عذاب نہ نازل کر دے۔[14]

آیت اللہ برہان کی اخلاقی خوبیاں اس بات کا باعث ہوئیں کہ مختلف مذہبی تنظیمیں مسجد لرزادہ سے ملحق ہو گئیں ۔ " فدائیان اسلام" کے مسجد لرزادہ سے ملحق ہونے کے ساتھ ہی اس مسجد کی سیاسی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ فدائیان اسلام نے مسجد لرزادہ کو اپنے مرکزی دفتر کے طور پر استعمال کیا۔ اس تنظیم کے لیڈر سید مجتبیٰ نواب صفوی، حقائق اسلام، حرمت کا تحفظ  اور شرعیت کی  پاسداری کے موضوعات پر اسی مسجد میں مجالس سے خطاب کیا کرتے تھے۔  مسجد لرزادہ میں ہونے والی مجالس آرام و سکون سے برپا نہ ہوتی تھی بلکہ بعض اوقات پلیس سے مقابلہ ہوجاتا اور کبھی حاضرین مجلس اور تنظیم کے اراکین کی گرفتاریوں کے ساتھ  مجلس اختتام پذیر ہوتی تھی۔ اس تنظیم کے اراکین اس مقابلے اور لڑائی میں ، قومی محاذ پر لڑنے والوں کے ساتھ رابطے میں تھے، اور ان کی کوشش پیٹرولیم کو قومیانے کی تھی۔[15]

فدائیان اسلام  کے علاوہ ایک  جمعیت " گروہ شیعیان " کے نام سے جس کے اصلی رکن، حاجی صادق امانی، اسد اللہ لاجوردی، حاجی ہادی امانی،  رحمانی اور مقصودی تھے، نے بھی مسجد لرزادہ کو اپنے کاموں کی انجام دہی کے لئے مرکز قرار دیا ہوا تھا۔[16]

۱۳۴۲ شمسی [ ۱۹۶۳ء] کے آغاز  کے ساتھ ہی  پر نشیب و فراز حادثات رونما شروع ہو گئے اسی دور میں مسجد لرزادہ نے بھی اپنے کاموں کو سیاسی رنگ دینا شروع کر دیا۔ ۱۵ خرداد کے حادثات سے قبل مسجد لرزادہ ، جنوبی تہران کے لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی کیونکہ مہدی عراقی جیسے لوگ حکومت سے مقابلے کے لئے  اسی مسجد سے ضد حکومت منصوبوں کا اجرا و راہنمائی کیا کرتے تھے۔ محمد تقی فلسفی جو تہران کے مشہور واعظ تھے ، نے مسجد لرزادہ  میں بہت سے مذہبی-سیاسی خطاب کئے اپنے ایک خطاب میں انہوں نے ہارون الرشید کی ایک داستان کو کنایہ کے طور پر بیان کرکے پہلوی حکومت پر شدید تنقید کی۔  محمد تقی فلسفی صاحب کے بیانات اس بات کا سبب بنے کہ مختلف سیاسی گروہ جیسے " جبھہ ملی" مسجد لرزادہ  کی جانب متوجہ ہوئے۔ ۱۳۴۵-۱۳۴۶  [ ۱۹۶۶-۱۹۶۷] میں شیخ علی اصغر مروارید کی تقاریر کے گرج نے  مسجد لرزادہ کا شہرہ تمام تہران میں کر دیا جس کے نتیجے میں شہر بھر کی حکومت مخالف  قوتوں کا رخ مسجد لرزادہ کی طرف ہوگیا۔[17]

سن  ۱۳۵۰   [۱۹۷۱ء] سے حجۃ الاسلام عباس علی عمید زنجانی کو مسجد لرزاداہ کی جماعت کے امام کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ وہ نماز کی امامت کے علاوہ ہفتہ میں دو دن تفسیر قرآن، ایک دن نہج البلاغہ اور دو دن امام خمینی کے فتووں کا درس دیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کو کئی بار ساواکیوں نے طلب کیا اور دو بار ان کو جیل بھی جانا  پڑا[18]۔ مسجد لرزادہ تہران کی ان نادر مساجد میں تھی جہاں امام خمینی کے فتوے بیان کئے جاتے تھے اور صراحت کے ساتھ انکا نام لے کر ان کے لئے دعا کی جاتی تھی اور مختلف مناسبتوں کے اعتبار سے وہاں انقلابی مجالس اور تقاریر ہوتی تھیں[19]۔ تہران کی دیگر مساجد کی طرح مسجد لرزادہ میں بھی واعظین کرام اور روشن فکر انقلابی حضرات کو تقریر کی دعوت دی جاتی تھی اور پوری کوشش کی جاتی تھی باخبر اور توانا خطباء کے بیانات کے سبب اس مسجد کو پہلوی حکومت کے خلاف مرکز میں تبدیل کر دیا جائے۔

حجۃ الاسلام عمید زنجانی کے علاوہ بھی کئی ایک علماء اور انقلابی مسجد لرزادہ کے منبر سے خطاب کرنے کی سعادت سے مشرف ہوئے۔ شیخ حسین انصاریان سن ۱۳۴۷ [ ۱۹۶۸ء] ، محمد آشوری ۱۳۵۱ اور۱۳۵۲[ ۱۹۷۲،۷۳]، شہید شیخ محمد چاوشی ۱۳۵۶ اور ۱۳۵۷  [۱۹۷۷،۷۸] میں اس مسجد کے اہم ترین واعظ رہے[20]۔حجۃ الاسلام  عمید زنجانی کے قول کے مطابق محمد آشوری کی تقاریر کو قبول عام حاصل تھا کیونکہ انکا بیان بہت رسا ہوا کرتا تھا اور وہ صرف مسائل مادی اور انقلاب پر گفتگو رکرتے تھے ان کی تقاریر عبودیت اور معنویت کے بیان سے خالی ہوتی تھیں[21]۔

فدائیان اسلام ، گروہ شیعیان کے علاوہ اور بھی مذہبی انجمنوں نے مسجد لرزادہ کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا ، ان کے ہمراہ ادارہ مجاہدین خلق کے چند مشہور اراکین نے بھی مسجد لرزادہ میں اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ مسجد نے بھی حکومت سے لڑنے کے لئے اور بالخصوص مالی مسائل کی وجہ سے اس ادارہ کے ساتھ کام کرنے کو مناسب جانا اور اس کے منصوبوں کی حمایت کی۔   [۱۹۷۸،۷۹]۱۳۵۷ کے اوخر میں مجاہدین خلق اور مسجد لرزادہ  میں چپقلش پیدا ہو گئی اور مسجد لرزادہ کے عہدہ داروں نے اس ادارہ کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا[22]۔

۱۳۵۳ سے ۱۳۵۶  [۱۹۷۴ تا ۱۹۷۷] کے دوران ساواک نے مسجد لرزادہ پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی اور ان کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح مسجد لرزادہ  کی مجالس اور دیگر پروگرامز میں شرکت کرنے والے افراد کے درمیان اختلاف پیدا کریں لیکن امام جماعت حجۃ الاسلام عمید زنجانی کی بھرپور کوششوں نے ان کے اس منصوبے پر خاک ڈالے رکھی اور مسجد میں انقلابی تحریک پورے زور و شور سے جاری رہی۔ انقلابی نوجوان بھی ساواک والوں سے چھپ چھپا کر امام خمینی کے بیانات کے پمفلٹس لوگوں میں تقسیم کر کے مسجد لرزادہ کی انقلابی تحریک کو زندہ اور پر نشاط رکھے ہوئے تھے۔[23]

انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی مسجد لرزادہ ظلم و ستم کی کے خلاف کام کرنے کی منصوبہ بندیوں پر عمل پیرا تھی مگر ۱۳۵۷ میں جو واقعہ اس مسجد میں ہوا ، اس کے بعد مسجد لرزادہ کا نام انقلاب اسلامی کی تحریک میں جاوداں ہو گیا۔ ۱۹ دی ۱۳۵۶  [۹ جنوری ۱۹۷۸]میں قم میں قتل و غارت کا واقعہ رونما ہوا اس  پیچھے پیچھے  اسی حادثہ کے شہداء کے چہلم کے تقریب میں تبریز اور پھر یزد میں ہونے والے حادثوں نے تمام لوگوں کو برانگیختہ کر دیا تھا کہ وہ روزانہ کسی کسی نہ شہر کسی نہ کشی گوشے میں پہلوی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر یں۔ مسجد لرزادہ میں بھی اسی مناسبت سے جنوبی تہران کے لوگوں نے بڑے بڑے جلسے اور پروگرامز ترتیب دیئے  جن کی روک تھام کے لئے حکومت کو  پولیس، ساواک اور خصوصی فوجی دستے کی مثلث تشکیل دینا پڑی۔ ماہ رمضان المبارک ۱۳۵۷ مطابق  مرداد ۱۳۵۷[ جولائی ۱۹۷۸]، محترم محمد چاوشی تقریر کے لئے مسجد لرزادہ تشریف لائے ، اور پہلی دس راتوں میں بغیر کسی خوف و تردید کے پہلوی سپتوں کی بد اعمالیوں اور باپ بیٹے  کے اعمال قبیحہ کے بارے میں کھل کر تقاریر کیں اور شاہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس تقاریر نے لوگوں کو بالخصوص نوجوانوں کو  اتنا پرجوش بنا دیا تھا کہ جس وقت  وہ نعرے بلند  کرتے تھے تو مسجد کے در دیوار کے ساتھ اطراف کی گلیاں بھی لرز اٹھتی تھیں۔ اس تمام عرصے میں مسجد لرزادہ پولیس کے محاصرے میں تھی مگر لوگ اس پر حیرت زدہ تھے کہ آخر حکومت کوئی رد عمل کیوں نہیں دکھا رہی اور کسی کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا[24]۔

۲۴ مرداد [ ۱۵، اگست ۱۹۷۸] یعنی ماہ مبارک کی ۱۱ویں شب آئی تو تقریباً چار ہزار لوگ[25]، آسودہ خاطر مسجد میں جمع ہوگئے کیونکہ وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ اب حکومت کو ئی اقدام کرے وہ سمجھ رہے تھے کہ حکومت نے ان کی مجلس کو  اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔  سب لوگ محترم چاووشی صاحب کے منتظر تھے۔ سب اس بات سے غافل تھے کہ حکومت نے ان کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ انہوں نے مسجد کے مقرر کو مسجد پہنچنے سے قبل ہی گرفتار کر لیا تھا اور کئی ایک ٹرک  شہری گارڈز، خصوصی سپاہی اور ۱۳ و ۱۴ نمبر تھانے کی پولیس کے اراکان سے بھرے ہوئے ، مسجد پر حملے کے در پے تھے۔ جس وقت مسجد کے حاضرین کو ان حالات کا علم ہوا اور انہوں نے مشکوک حکومتی کارندےمسجد کے اطراف میں دیکھے ، تو انہیں وہاں سے بھگانے کی کوشش کی بس  یہی کام اس کا بہانہ بناکہ حکومت نے اپنی کاروائی کا آغاز کر دیا[26]۔

درحقیقت وہ حملے جو حکومت کی جانب سے مولویوں اور انقلابیوں پر ہو رہے تھے ، مسجد لرزادہ بھی اس بے حرمتی سے محفوظ نہ رہی اور اس مسجد نے بھی  برستی گولیوں اور آنسو گیس جس کے سبب حجۃ الاسلام عمید زنجانی کو اپنی تقریر ختم کرنا پڑی، کا مشاہد کیا[27]۔

آنسو گیس اور دستی بم کے پھٹنے نے مسجد میں حاضر لوگوں میں عجیب دہشت پھیلا دی تھی اور حکومت کی جانب سے عوام ، فرد فرد پر حملے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ پولیس کو جو کوئی نظر آتا  اس  زد و کوب کرتے تھے۔ انہیں اس بات کی پروا بھی نہیں تھی کہ مسجد کے قالینوں کو آگ لگے گی تو لوگ بھی زندہ جل جائیں گے۔  حالات ایسے ہوگئے تھے کہ لوگ مسجد سے باہر بھی نہ  جا سکتے اور مسجد کے اندر رہنا بھی ممکن نہ تھا۔  جو کوئی باہر جاتا پولیس والے اور حکومتی کارندے اس کو بٹوں  ، پستولوں اور اپنے جوتوں سے مارتے اور ہر طرح کی فحاشی اور ہتک عزت کرتے۔  یہ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہنے کے  بعدشدید فائرنگ پر ختم ہوا جس کے نتیجے میں کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ حکومتی کارندوں نے اسی پر بس نہ کیا اور رات کو دو بے کے قریب دوبار آئے اور مسجد لرزادہ کی آرام گاہ پر دھاوا بول دیا۔ مسجد کے قمقے توڑ ڈالے اور قرآن کریم و کتب ادعیہ کو زمین پر پھینک کر ان کی بے حرمتی کی اور یوں مسجد لرزادہ میں تخریب کاریاں انجام دیں[28]۔ اس واقعہ کے بعد ۲۴ رمضان المبارک کو  پہلوی حکومت نے مسجد لرزادہ کے پیش امام حجۃ الاسلام عمید زنجانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لئے ایک بار پھر مسجد لرزادہ کی بے حرمتی کی[29]۔  اس کے بعد بھی دوبار مسجد لرزادہ پر پہلوی حکومت کی جانب سے حملہ کیا گیا اور اس کی بے حرمتی کی گئی ایک بار ۱۷ شہریور [ ۸ ستمبر] کے بعد ، جس میں مسجد  پر حملہ کر کے کتاب خانہ، تقاریر ےک ٹیپ ریکارڈز اور پانچ ہزار تومان برباد کر دیئے گئے تھے اور دوسری بار سات محرم کی رات کو کتاب خانہ پر دوبارہ حملہ کیا گیا اور مسجد کے کارکنان کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا[30]۔

جیسا کہ ابتدا میں  بیان کیا گیا کہ مسجد لرزادہ کے ساتھ ہی مدرسہ کا قیام بھی عمل میں آیا تھا ، اس نے بھی اپنے کام کا آغاز مسجد کے ساتھ ہی کر دیا تھا۔ یہ حوزہ علمی بھی آیت اللہ برہان کے زیر نظر کام کرتا تھا اور آیات عظام  و ححج الاسلام محمد رضا مہدوی کنی، علی اکبر ناطق نوری، حسین انصاریان، سید قاسم شجاعی اور احمد مجتہدی تہرانی اس مدرسہ کے اولین شاگردوں میں سے تھے۔[31]

پہلا  اسلامی بینک جو قرض الحسنہ کی فراہمی کے لئے  اور بغیر سود پر کام کے لئے تہران بلکہ پورے ایران میں قائم کیا گیا وہ مسجد لرزادہ میں ہی آیت اللہ برہان کی کوششوں سے  سال ۱۳۴۸  [ ۱۹۶۸] میں قائم ہوا[32] بعد میں  اس بینک کے شعبے، تہران کی دوسری مساجد اور دیگر شہروں میں بھی قائم کئے گئے۔ اس بینک کے قیام کا مقصد ، اس وقت کے رائج بینکنگ کے  سودی نظام سے مقابلہ کرنا تھا۔ اس بینک کے منافع اور ذخائر کو ضرورت مندوں کی مدد کے علاوہ زیادہ تر  سیاسی قیدیوں اور شہداء کے گھرانوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے خرچ کیا جاتا تھا اسی لئے  پہلوی حکومت  کے لئے اس بینک کے کاموں کو کنٹرول کرنا ضروری ہوگیا تھا[33]۔ ان کاموں کے علاوہ یہ بینک انقلابی تنظیموں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کےلئے ایک اہم مخزن تھا  اسی کے طفیل  یہ گروہ اس قابل ہوئے تھے مذہبی امور کی انجام دہی اور تحریکوں کو رشد و ترقی دی جائے[34]۔ بقول حجۃ الاسلام عمید زنجانی ، یہ بینک مالی لحاظ سے کمزور انقلابیوں کے لئے سرپرست تھا[35]۔

سال ۱۳۵۷  [۱۹۷۸ء] میں حجت الاسلام عمید زنجانی کی کوششوں سے ، مسجد میں ایک خیراتی انجمن تشکیل دی گئی، جس کا بنیادی کام  ضرورت مند لڑکیوں کے لئے جہیز فراہم کرنا تھا۔ اس انجمن نے حاجی ناصر ہاشمی کی سربراہی میں اپنے کام کا آغاز کیا[36]۔

اس وجہ سے کہ جنوبی تہران میں، انقلاب کے اوئل میں زیادہ تر شہید مسجد لرزادہ کے فعال کارکن اور مسجد کے پروگرامز میں شریک ہونے والے لوگ ہوا کرتے تھے[37]، حجۃ الاسلام عمید زنجانی صاحب نے " درمانگاہ شہدای لرزادہ" کے نام سے مسجد سے کچھ فاصلے پر ایک ڈسپنسری بھی قائم کی[38]۔

مسجد لرزادہ کے جنوبی حصے کو، ماہ محرم اور صفر کی مجالس ، ایام فاطمیہ کے پروگرامز، ماہ رمضان اور ختم قرآن کی  زنانی تقاریب کے لئے  مخصوص کر دیا گیا تھا اور وہ اب دار  الزہراء علیہا السلام یا دار القرآن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔[39]

کتابیات:

۱۔ آزاد مرد، طیب  شہید طیب، حاجی رضائی، ساواکی اسناد کی روشنی میں، تہران، مرکز تحقیقات اسناد تاریخی وزارت اطلاعات ۱۳۷۸

۲۔ جعفریان، رسول، ایران کی سیاسی مذہبی تنظیمیں اور ادارے، محمد رضا شاہ پہلوی کے آنے سے انقلاب اسلامی کی کامیابی تک۔ ۱۳۲۰ تا ۱۳۵۷، تہران ، مرکز اسناد انقلاب اسلامی ۱۳۸۳

۳۔ حجۃ الاسلام حاجی شیخ  حسین انصاریان کے واقعات، تدوین محمد رضا دھقانی اشکذری، حمید کرمی پور، رحیم نیک بخت، تہران مرکز اسناد اسلامی ۱۳۸۲۔

۴۔ دوانی، علی، نہضت روحانیوں ایران، ج۷، بی جا: بنیاد فرہنگی امام رضا علیہ السلام، بی تا:

۵۔ شریفی روح اللہ، شیخ نصرت ، زندگی اور جنگ، روحانی شہید نصرت اللہ انصاری تہران، سورہ مہر ۱۳۹۵

۶۔ مازندرانیان، حمید رضا، تاریخ شفاہی، انقلاب اسلامی میں موثر مساجد، [ قبا، جاوید، لرزادہ، الجوااد] تہران، مرکز اسناد انقلاب  اسلامی ۱۳۸۹۔

۷۔مراد پور، آرانی، معصومہ، جوشیلے اور نورانی دن،[ انقلاب اسلامی کا انتظار ۱۳۵۶-۱۳۵۷] جلد ۱، تہران: بنیاد تاریخ پژوہی اور انقلاب اسلامی کا انسائیکلو پیڈیا ۱۳۹۱۔

۸۔ تہران کی کہنسال مساجد، بنیاد ایران  شناسی کی گروہی تحقیقات، نظر حسن حبیبی کی زیر نظر، تہران، بنیاد ایران شناسی۱۳۸۸۔

۹۔ میزبانی، مہناز، منیژہ صدری اور حشمت اللہ سلیمی،  انقلاب اسلامی کی کامیابی میں مساجد اور یونیورسٹیز کا کرداد، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی ۱۳۸۳۔

۱۰۔ ساواک کی اسناد کی روشنی میں یاران امام، آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی ساواکی روایات کے آئینے میں، تہران، مرکز تحقیقات اسناد تاریخی اور وزرات اطلاعات ۱۳۸۵

 

 

 

 

 

[1] تہران کی کہنسال مساجد، گروہی تحیقیق، بنیاد ایران شناسی، زیر نظر حسن حبیبی، تہران، بنیاد ایران شناسی، ۱۳۸۸، صفحہ ۳۶۴

[2] ایضاً صفحہ ۳۶۴ اور ۳۶۷

[3] ایضا، ۳۶۴

[4] ایضاً، ۳۶۴

[5] حجۃ الاسلام شیخ انصاریان کے واقعات، جمع و تدوین محمد رضا دحقانی اشکذری، حمید کرمی پور، رحیم نیکبخت، تہران : مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲، صفحہ، ۲۰ اور ۲۱

[6] تہران کی کہنسال مساجد ص ۳۶۴

[7] حمید رضا مازندرانیان، تاریخ شفاہی، انقلاب اسلامی میں موثر کردار ادا کرنے والی مساجد، [قبا، لرزادہ، الجواد] تہران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔۔۔ ۱۳۸۹، ص ۱۴۸، تہران کی کہنسال مساجد ص ۳۶۶

[8] ایضاً

[9] ایضاً صفہ ۳۶۷

[10] شیخ انصاریان کے واقعات، صفحہ ۲۱

[11] ایضاً صفحہ ۴۰

[12] تہران کی کہنسال مساجد صفحہ ۳۶۷، آزاد مرد طیب شہید حاج رضائی۔ اسناد ساواک کے مطابق، تہران مرکز تحقیقات اسناد تاریخی  و وزارات اطلاعات ۱۳۷۸، صفحہ ۱۹۸

 

[13] تاریخ شفاہی، انقلاب میں موثر مساجد، صفحہ ۱۰۶ تا ۱۰۸

[14] حجت الاسلام شیخ انصاریان کے واقعات صفہ ۴۱، تاریخ شفاہی انقلاب میں موثر مساجد صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲

[15] تاریخ شفاہی انقلاب اسلامی میں موثر مساجد صفہ۔ ۱۰۶-۱۰۸

[16] ایضاً صفحہ ۱۱۹-۱۲۲

[17] ایضاً صفحہ ۱۲۵-۱۳۰

[18] تہران کی کہنسال مساجد صفحہ ۳۶۷-۳۶۸

[19] ایضاً ۳۶۸

[20] ایضا ۳۶۷

[21] رسول جعفریان، ایران کے سیاسی مذہبی ادارہ اور تنظیمیں، محمد رضا شاہ پہلوی سے انقلاب اسلامی کی کامیابی تک ۱۳۲۰ تا ۱۳۵۷، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی ۱۳۸۳، صفحہ ۵۷۹

[22]  تاریخ شفاہی،انقلاب اسلامی میں موثر مساجد، صفحہ ۱۳۷-۱۳۸

[23] ایضاً صدحہ ۱۳۸-۱۴۰

[24] علی دوانی، نہضت روحانیون ایران، جلد ۷، بی جا: بنیاد فرہنگی امام رضا، بی تا صفحہ ۳۲۸-۲۳۹

[25] معصومہ مراد پور آرانی، جوشیلے اور نورانی دن، [ انقلاب اسلامی کے دنوں کا انتظار، ۱۳۵۶-۵۷] جلد ۱، تہران بنیاد تاریخ پژقہی اور انقلاب اسلامی کا انسائکلو پیڈیا، ۱۳۹۱، صفحہ ۴۲۳

[26] نہضت روحانیون ایران، جلد ۷ صفحہ ۳۲۹

[27] مہناز میزبانی، منیژہ صدری و حشمت اللہ سلیمی، انقلاب اسلامی کی کامیابی میں مساجد اور یونیورسٹیز کا کرداد، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۸۳، صفحہ ۶۲

[28] نہضت روحانیون جلد ۷ صفحہ ۳۳۰

[29] ایضا جلد ۷ صفحہ ۳۰۳

[30] ایضاً جلد ۷ صفحہ ۳۳۱

[31] تاریخ شفاہی انقلاب اسلامی میں موثر مساجد، صفحہ۱۴۷ تا ۱۵۱، ؛ یاران امام ساواک کی روایت کے مطابق، آیت اللہ مہدوی کنی، ساواک کی روایت کے مطابق، تہران، مرکز تحقیقات اسناد تاریخی وزارات اطلاعات۔ ۱۳۸۵ صفحہ ۸

[32] حجت الاسلام شیخ انصاریان کے واقعات صفحہ ۳۹ اور تہران کی کہنسال مساجد صفحہ ۳۶۶

[33] نہضت روحانیون ایران صفحہ۳۲۸ جلد ۱

[34] روح اللہ شریفی، شیخ نصرت: زندگی اور استقامت شہید نصرت اللہ انصاری، تہران: سورہ مہر، ۱۳۹۵، ص ۶۵

[35] شیخ نصرت صفحہ ۶۵، تاریخ شفاہی، انقلاب اسلامی میں موثر مساجد ص ۱۶۱

[36] تہران کی کہنسال مساجد ص ۳۶۷

[37] نہضت روحانیون ایران، جلد ۷ صفحہ ۳۲۸

[38] تہران کی کہنسال مساجد صفحہ ۳۶۶

[39] تہران کی کہنسال مساجد صفحہ ۳۶۷

 

 



 
صارفین کی تعداد: 4177


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔