زبانی تاریخ کے انٹرویو میں سوالوں کا انداز

غلام رضا عزیزی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-5-13


زبانی تاریخ کے انٹرویو کی خصوصیات میں سے جو اُسے اُس کی دیگر اقسام کے انٹرویو کے ساتھ مماثلت بخشتی ہے، "سوالنامہ کا مرتب ہونا اور مناسب سوالات "اور دقیق اور سنجیدہ ہونا ہے۔

زبانی تاریخ کے بعض انٹرویوز میں "انٹرویو دینے  والے کی طرف سے اتفاقاتی سوالات کے پیدا ہوجانے"کا امکان ہونا، آزاد انٹرویو یا بغیر ہدایات والے انٹرویو میں سوالات پیش کرنے کے طریقہ کار کی طرح ہے۔ ان دو طرح کی قسموں میں انٹرویو دینے   والا جواب دینے میں آزاد ہوتا ہے اور وہ مکمل آزادی یا نسبی آزادی کے ساتھ دوبدو ہونے والے سوالوں کا جواب دے سکتا ہے۔ اسی طرح ان دونوں طریقہ کار میں، انٹرویو دینے والے کو مطالب بیان کرنے، اپنی تجربات، اعتقادات، افکار، احساسات اور واقعات کی تشریح کو فوراً منتقل  کرنے کیلئے شوق دلایا جاتا ہے۔ حتی کبھی ایسا ہوتا ہے ایک سوال کی وجہ سے دوسرا سوال سامنے آجاتا ہے اور اسی طرح سے انٹرویو کا عمل جاری رہتا ہے۔ حتی زبانی تاریخ کے بعض انٹرویوز میں اور خاص طور سے ان انٹرویوز کے آغاز میں، جہاں عام طور سے انٹرویو لینے والا، انٹرویو دینے والے کو آزاد چھوڑ دیتا ہے کہ "جو دل چاہے بیان کریں" اور افراد کو اس چیز کا پابند نہ کرنا"یہ کہ صرف اور صرف جن حدود کے اندر میں سوال کروں بس اُنہی کا جواب دیں"، سبب بنتا ہے کہ اس طرح کے انٹرویوز  مکمل طور پر بغیر حدود کے اور کھلے  انٹرویو کے نزدیک ہوجائیں۔ چارلس موریسی نے زبانی تاریخ کے انٹرویو کی مہارتوں کے بیان کے ضمن میں زبانی تاریخ میں دو طرح سے استعمال ہونے والے طریقہ کار میں اس مسئلہ کی طرف بنحو احسن اشارہ کیا اور انھوں لکھا ہے: "انٹرویو کی نشست" انٹرویو دینے والے کو نمائش دینے اور اُسے بال کے ساتھ دوڑنے کا حق دینا چاہیے۔

دوسری طرف سے زبانی تاریخ کے انٹرویوز "نئے سوالات پر توجہ کرتے ہوئے"حدود میں معین بھی ہوسکتے ہیں یا بغیر حدود کے یعنی کھلے انٹرویوز بھی ہوسکتے ہیں۔

اسی طرح اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ انٹرویو لینے افراد ایک خاص منصوبہ کی انجام دہی کیلئے انٹرویو دینے والے شخص کے ایک خاص حصے سے واقعات کو جمع کرتے ہیں۔ جبکہ انٹرویو دینے والے حضرات اگر یہ چاہتے کہ وہ اپنے واقعات خود تحریر کریں ایسی صورت میں  شاید یہ ہوتا کہ وہ زیادہ تر دوسرے پہلوؤں کو بیان کرتے۔ حتی کبھی کبھار ایسا سوال سامنے آتا ہے کہ "انسان اپنی زندگی کے تجربات میں سے اہم ترین کو بیان کرے"۔ اس بات کی وجہ سے زبانی تاریخ کے مسئلہ میں انٹرویو لینے والے حضرات زیادہ تر منصوبے کے ہدف پر نظر رکھتے ہیں نہ کہ اُس کے شخصی رجحان پر۔

زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویوز کبھی کبھار آدھے ہدایت یافتہ یا نصف آزاد انٹرویو سے نزدیک ہوتے ہیں؛ محقق نے گن کر کچھ سوالات کو تیار کرلیا ہوتا ہے، لیکن اُس نے اُنہیں جن ترتیب سے یاد کیا ہوتا اُسی ترتیب سے پوچھتا نہیں ہے اور وہ انٹرویو دینے والے کو بات کرنے کی ترغیب دلاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اُس کے کلام کا سلسلہ انٹرویو کے اصلی ہدف سے منحرف یا زیادہ دور نہ ہونے پائے۔

ریڈیو اور ٹی وی پر ہونے والے انٹرویوز، زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویوز کی طرح معلومات حاصل کرنے کیلئے دو طرفہ شخصی رابطہ ہوتا ہے۔ ان انٹرویوز میں  جو فرق دیکھنے میں آتا ہے، در اصل وہ خبر اور معلومات کی قسم سے مربوط ہوتا ہے۔ حالانکہ زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویوز، انٹرویو کو گذشتہ کی بہترین اور دقیق شناخت کیلئے اور تاریخ نگاری میں حاصل ہونے والے مطالب سے استفادہ کرنے کیلئے  انجام دیا جاتا ہے، مطبوعات، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے ہونے والے انٹرویوز میں خود خبر کے علاوہ  خبر کو سنوار کر نمائشی انداز میں پیش کرنا، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری طرف سے مطبوعات اور ریڈیو (اور ٹی وی) کے انٹرویوز  اور زبانی تاریخ کے بعض  انٹرویوز میں تھوڑی بہت شباہت بھی پائی جاتی ہے کہ اُن میں سے اہم ترین چیز کام میں آنے والے آلات اور طریقہ  ہے جو آڈیو ریکارڈنگ  (وڈیو ریکارڈنگ کے موارد میں) اور ان انٹرویو کی خبر پہنچانے سے مربوط ہے۔

دوسری طرف سے بعض موارد میں زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویوز ، انٹرویو کی گہرائی سے نزدیک ہوتے ہیں۔ اس طرح کے انٹرویو میں، کہ جسے "با مقصد گفتگو" سے یاد کیاجاتا ہے، ایک وسیع انٹرویو کے خلاف ایک خاص موضوع کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ہدف صرف یہ نہیں کہ خاص واقعات کے بارے میں اُس کے ردّ عمل کی تشخیص دی جائے بلکہ  "علت " کی شناخت اور روحی اور نفسیاتی ردّ عمل کے دلائل مورد نظر ہیں۔ گہرے اور عمیق انٹرویوز کا مقصد پیچیدہ معلومات جیسے عقائد، افکار اور انٹرویو دینے والے کے تجربات کو حاصل کرنا ہے۔ زبانی تاریخ کے انٹرویوز میں جیسا کہ عمیق انٹرویو، انٹرویو کرنے والے کو انٹرویو سے پہلے  "تشخیصی مطالعہ" کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حتی زبانی تاریخ میں ہونے والے انٹرویوز میں  انٹرویو لینے والے کے کردار کی وجہ سے، انٹرویو کو فعال سمجھا جاتا ہے، ایسے موارد پیش آتے ہیں کہ انٹرویو لینے والا، " مطالب کھنگالنے یا اُنہیں یاد دلانے میں گفتگو کرنے والے کی مدد کرتا ہے"۔

متمرکز انٹرویو کاہدف (ایک واقعہ یا ایک شخصی تجربہ  کی ان لوگوں پر تاثیر کی تحقیق ہے  جو وہاں موجود تھے یا اُس میں شریک تھے)، اور ایک طرح سے تاریخی واقعات کی تاثیر کو درک کرنا ہے؛ اور اس طرح سے یہ زبانی تاریخ کے انٹرویوز سے بہت نزدیک ہے۔

لہذا انٹرویو دینے والا اور انٹرویو کا موضوع اور شرائط ایسے عوامل ہیں جو سوالات کو پوچھنے اور  انٹرویو کی نشست کو منظم کرنے میں تاثیر گزار ہیں۔ جس طرح سے انٹرویو لینے والے  کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ خود کو پہلے سے طے شدہ سوالات تک محدود نہ رکھیں، اسی طرح اُس سے کہا جاتا ہے کہ انٹرویو سے پہلے موضوع کے بارے میں مطالعہ کرے، خاص سوالات کے ساتھ مخلوط ہوئے آزاد سوالات اور ایسے سوالات پوچھے جس سے اور سوالات نکلتے ہوں اور ایسی آزاد گفتگو کرے جو موضوع کے وسیع  ساحلوں سے مربوط ہو۔

جس طرح کے اشارہ ہوا زبانی تاریخ میں ہونے والا انٹرویو دوسری فیلڈ میں ہونے والے انٹرویو سے کچھ شباہتیں اور کچھ فرق رکھتا ہے۔ وہ خاصیت جس نے اُسے انٹرویو کے فن میں ایک مخصوص قسم میں تبدیل  کردیا ہے، اُس کا بہت زیادہ لچکدار  اور طریقہ کار میں تبدیلی جیسی خصوصیات کی وجہ سے ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے زبانی تاریخ میں انٹرویو لینے  کو فی البدیع ہونا چاہیے اور اُسے موجودہ شرائط کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے  کہ اُن علوم اور موضوعات میں جہاں انٹرویو کو معلومات حاصل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، زبانی تاریخ کے منصوبوں کی محصولات مختلف اقسام اور پہلوؤں کی وجہ سے بہت ہی مختلف طریقوں سے استعمال  کے قابل ہیں۔ ڈاکٹر مرتضی نورائی اپنے مقالہ میں ان استعمالات کی ایک فہرست  لیکر آئے ہیں جو مندرجہ ذیل صورت میں ہے:

تاریخ کی منفرد اور مرکب کتابوں کی تولید؛

آڈیو اور ویڈیو آرکائیوز کی تشکیل؛

مختلف صورتوں (ڈاکومنٹری) میں فلم؛

ہنر و آرٹ کے عجائب خانے اور نمائشگاہ؛

ریڈیو کے پروگرام؛

طلاب اور اساتید کی ٹریننگ کے لیے تعلیمی مواد؛

تعلیمی کتاب اور وڈیوزجو سب کیلئے ہوں؛

ویب سائٹس؛

خاموش رہنے والے طبقات کی (زیادہ سے زیادہ) اجتماعی شراکت ؛

ثقافتی میراث کی حفاظت؛

قوانین اور قانونی استاد کے بارے میں تعلیم؛

مربوطہ اداروں میں ریٹائر ہونے والوں کے آرکائیو؛

خاندانوں کی تاریخ؛

بوڑھے افراد کا طبی علاج ۔



 
صارفین کی تعداد: 4628


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔