حوزہ ہنری سیستان و بلوچستان میں "زبانی یادیں" کے عنوان سے پہلی فنی ورکشاپ کی رپورٹ

گفتگو کی مہارتیں

ترتیب: مطہرہ قوی دل جعفری

ترجمہ : سید محمد روح اللہ

2016-6-17


حوزہ ہنری سیستان و بلوچستان میں "زبانی یادیں" کے عنوان پر پہلی خصوصی ورکشاپ کا انعقاد ۱۶ اپریل ۲۰۱۶ کو شام ۴:۳۰ پر ہوا۔

ابتدائی کلمات حوزہ ہنری کے صوبائی مدیر جناب محسن ذوالفقاری صاحب نے ادا کئے جس میں انہوں نے حوزہ ہنری کے امور ثقافت و فنون کے ڈائریکٹر برای صوبہ جات کو خوشآمدید کہا اور انکو خطاب کی دعوت دی۔ ان کی تقریر کے اہم نکات آپ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

 

شفاہی تاریخ ایک خام مال ہے

زبانی یادوں کا تازہ کرنا اور انکے بارے میں بحث، ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ جس طرح قرآن میں بھی آیا ہے کہ  "الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسانَ عَلَّمَهُ الْبَیانَ‌" وہ رحمن ہے، اس نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان سکھایا یعنی بات کرنا سکھایا۔

جو کچھ ہمارے ذہن میں ہے، جو کچھ ہمارے دل میں ہے اسے دوسروں تک منتقل کریں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ کچھ دن ہمارے بہت خاص ہوتے ہیں، اس طرح ہم نے گذارے ہوتے ہیں کہ کبھی ہماری یاد سے محو نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح یادیں اور واقعات کو جسم دے دیا جاتا ہے تاکہ ہمیشہ زندہ رہیں، اسی طرح تاریخ لکھی گئی یعنی انسان نے جو کچھ دیکھا اور مشاہدہ کیا اسے الفاظ میں بیان کیا اور لکھ دیا۔
ان زبانی یادوں نے ہمیں موقع فراہم کیا کہ ہم لوگوں میں جائیں، انکے یاد رہنے والے واقعات جانیں اور ان کو دوسروں تک منتقل کریں۔ تاریخ شفاہی کا علم جدید دور میں تشکیل پانے والا علم ہے جو در اصل ایک روش اور طریقہ کار ہے جو زبانی یادوں کو اکھٹا کرنے کے لئے مفید ہے۔

زبانی یادوں کا علم سیکھنے کے لئے ہم تاریخی محققین کے محتاج ہیں جو خود ایک مورخ یا انٹرویو لینے والے ہوں۔ البتہ تاریخ شفاہی کے مورخ کے لئے کچھ مقدمات کا فراہم ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ تاریخ شفاہی ایک خام مال کی حیثیت رکھتا ہے کہ جسے دوسرے علوم کے اختیار میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاعر کے ختیار میں، ایک بہترین شعر کا روپ دھار لیگی، اگر کسی فیلم ڈائریکٹر کے اختیار میں دی جائے تو ایک بہترین فیلم کی صورت میں سامنے آئے گی اور اگر کسی قلم دان کے ہاتھ میں دے دی جائے تو ایک خوبصورت داستان قرار پائے گ۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک ہنر مند انسان، چاہے ادیب ہو یا کسی فن کا مالک ایک خاص روش اور طریقہ سے اس ھنر کو کسب کرتا ہے۔ لہذا  زبانی یادیں کسی بھی ہنرمند کے لئے  ایک مقدمہ کے عنوان سے لازم اور ضروری ہیں۔  کیونکہ ہنر مند وہ ہے جو دلوں میں سے بہترین داستانوں کو باہر نکال لے ان کو سنے اور انہیں اپنے فن کے ذریعے  دوسروں تک منتقل کرے اور اس کام کے لئے اصل چیز گفتگو ہے۔

ہم نے یہ حدیث بارہا سنی ہے کہ "جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا" اور ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے کے لئے اپنی خصوصیات اور صفات کو جاننا ہوگا۔ انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے دوران کیا جانے والا مقدس دفاع ، یہ ۲ ایسے واقعات ہیں کہ جنہوں نے عصر حاضر کی تاریخ اور اسی طرح ایران کی شفاہی تاریخ کو اپنے زیر اثر کیا ہوا ہے۔

ہم شفاہی تاریخ کے علم اس میں چاہتے ہیں کہ اپنے زمانے کے انسان کو پہچانیں، جس نے ایک خاص زمانے میں اپنا کردار ادا کیا، ان کو جانیں اور آئندہ آنے والوں کو پہچان وائیں۔ پس اس کام کے لئے سب سے پہلے خود کوصحیح طریقے سے  پہچاننا ہوگااور اسکے بعد ان واقعات کو جاننے کے لئے وسائل مہیا کرنے ہونگے۔

 

ضروری مہارتیں

 وہ روش اور طریقہ کار جس سے ایک زبانی یادوں تک پہنچا جا سکتا ہے وہ انٹرویو ہے، اور ایک انٹرویو ۳ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ انٹرویو سے پہلے کا مرحلہ، اسکے درمیان اور اسکے بعد کا مرحلہ۔

سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے ہے کہ ایک داستان، وقعہ یا یاد کے چار رکن ہوتے ہیں۔۱: زمانہ، ۲: مکان، ۳: موضوع اور ۴: جس سے انٹر ویو لیا جارہا ہے اسکا موضوع سے تعلق و رابطہ ۔ یہ چار چیزیں معلوم ہونا ضروری ہے اور اسی طرف انٹرویو سے پہلے اس شخص کے بارے میں مکمل تحقیقی معلومات کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

اب آتےہیں اس بات کی جانب کہ تاریخ شفاہی کے ایک محقق کو کن کن مہارتوں کا حامل ہونا ضروری ہے ؟

یہاں اہم ترین چیز وہ ارتباط کا برقرار کرنا ہے، یعنی خود کو اس شخص کے ساتھ اتنا ملوث کردینا کہ وہ آخر تک آپ کے ساتھ ساتھ رہے۔یہ ملوث ہونا اور ارتباط کا برقرار کرنا  ۲ صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک بغیر کلام کا ارتباط اور ایک کلامی ارتباط

بعض دفعہ انٹرویو دینے والا شخص کافی شرمیلا ہوتا ہے یا بعض واقعات کی نسبت حساس ہوتا ہے تو اس سے ان واقعات کی جزئیات معلوم کرنا ایک سخت کام ہے۔  اسکے لئےہمیں ارتباط بنانے کی مہارتیں یاخود کو اس کی داستانوں میں ملوث کرنے کی مہارتوں کا معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ اسکے دل کی آواز کا باہر نکالا جاسکے۔

بغیر کلام و گفتگو کے ارتباط کا بنانا مثلا اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، کس سےکتنی اہمیت کے ساتھ پیش آنا ہے، ہاتھوں کی حرکت اور اس طرح کے دیگر باریک نکات یہ سب بغیر گفتگو کے ارتباط کو برقرار کرنے والی چیزیں ہیں۔ اسی طرح ایک حد تک معلومات عامہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ابھی تک جو بیان ہوا یہ مقدماتی چیزیں ہیں جو انسان میں پائی جانی چاہئے ہیں تاکہ مخاطب سے اپنا مورد نظر بیان کرواسکے۔ انٹرویو سے قبل کے مرحلہ میں سب سے پہلی چیز انٹرویو کا موضوع ، مخاطب اور جگہ کا جاننا ضروری ہے۔

کیا پہلے سے سوالات کا لکھنا  یا تیار کرنا  ضروری ہے ؟ جی نہیں،

انٹرویو سے پہلے کچھ سوال جواب، حال احوال پوچھیں، آپ کے ملاقات کا طریقہ دعا سلام یہ چیزیں بتادیتی ہیں کہ سامنے والا  اپنے دل کی بات کرے گا یا نہیں۔ اور یہ چیزیں اسی ارتباط برقرار کرنے کی صلاحیت پر موقوف ہیں۔

لہذا جو چیز اہم ہے وہ یہ جاننا ہے کہ انٹرویو سے قبل کیا کیا جائے ؟ گفتگو کاآغاز کس طرح کیا جائے ؟ انٹرویو کے دوران کیا رویہ رکھا جائے کس طرح سوالات پوچھے جائیں اور کیا سوالات پوچھے جائیں ؟

دوران انٹرویو جو چیزیں ہمیں انجام دینی ہیں

۱: آغاز و ابتداء نہایت بہترین اور معتبر انداز میں ہو

۲: اپنی فائل کو مرتب رکھنا، جیسے تاریخ، مکان، وقت، انٹرویو دینے والے کا تعارف اور موضوع وغیرہ سب لکھے ہوئے ہوں۔

 

انٹرویو کا نتیجہ

 ورکشاپ کی پہلی نشست ۷:۴۵ پر تمام ہوگئی اور اسکا دوسرا جلسہ اگلے روز یعنی ۱۷ اپریل شام ۴:۳۰ پر منعقد ہوا۔

جس میں قاسمی صاحب نے  انٹرویو کی کیفیت پر بحث کی کہ کس طرح ایک انٹرویو سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ :

انٹرویو کا نتیجہ  انٹرویو لینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ اسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے ہے تاکہ اسکام کا اختتام اور نتیجہ بے فائدہ ہونے نہ دے۔  انٹرویو کے آغاز پر مسلط ہوں تاکہ مخاطب کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔

علم نفسیات کے مطابق ہر شخصیت کا ایک کوریڈور ہوتا ہے جس میں داخل ہونے کے لئے انسان کے پاس ہنر ہونا چاہئے ہے۔

 

یادوں اور شفاہی تاریخ کے درمیان فرق کو جانیں

تاریخ وہی یادیں ہیں لیکن پالش شدہ۔ تاریخ کو جاننے کی ایک روش شفاہی اور زبانی تاریخ ہے۔ جس کے ذریعے تاریخی معلومات کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اور شفاہی تاریخ میں ان معلومات کا جمع کرنا صرف انٹرویو سے ہی ممکن ہے۔

اگر لوگوں کی زندگی کی جانب توجہ کریں تو وہ اپنی زندگی کی بہت اہم یادوں کو انٹرویو میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کے رابطے میں کسی دلیل و سند کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اجتماعی معاملات میں ان یادوں اور واقعات سے مستفید ہوں اور اسی نظر سے جو کچھ بیان کیا جارہا ہے اگر یہ کسی شخص کی اپنی ذاتی تحلیل کے مطابق  نہ ہو تو سوال بھی کریں گے۔  ورنہ اسکے لئے اہم نہیں کہ اسکی سند ہے یا نہیں۔ اور لوگ بھی کسی مستند واقعہ اور غیر مستند واقعہ میں فرق نہیں کرتے۔

یاد و واقعہ، اصل مطلب ہےاور شفاہی تاریخ وہی واقعہ ہے لیکن اس پر مزید کام کیا جاچکا ہے۔ ہمیں ایسی شفاہی تاریخ کی ضرورت ہے جو مستند ہو کیونکہ اسکو دوسروں تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔

 

گفتگو کے طریقہ اور انٹرویو

انٹرویو میں کچھ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔

۱۔ اچھا آغاز

۲۔ انٹرویو کے موضوع کے بارے میں مکمل آگاہی

۳۔ سوال پوچھنے کا انداز و طریقہ

۴۔ صحیح و غلط سوال میں تمییز

۵۔ انٹرویو کے اختتام کا طریقہ کار

اگر گفتگو ایک خاص ہدف کی جانب، ایک خاص جہت میں چلی جائے تو "مکالمہ" ہوجاتا ہے۔ تاریخ شفاہی کے لئے ہمیں اسی مکالمے یا اسی جہت دار گفتگو تک پہنچنا ہوگا۔ گفتگو کی مختلف اقسام کو جاننے سے ہم انٹرویو کو صحیح سمت میں لے جاسکتے ہیں۔

۱: مناظرہ ؛ میں اپنی نظر بیان کروں اور آپ اپنی

۲: مباحثہ؛ کسی موضوع پر بحث

۳؛ مجادلہ؛ تنازع اور تعصب کے ساتھ گفتگو

۴: مقائسہ؛ سوال جواب  کے ذریعے موازنہ کرنا

۵: مشاجرہ؛ لڑائی کے ساتھ گفتگو

اب ہم جانتے ہیں کہ کس طرح ایک سوال کے جواب کو دوسرے سوال کا مقدمہ بنایا جائے۔ اس کے لئے ہمیں سوالات کی اقسام کو جاننا ہوگا۔
۱: سادہ سوال

۲: مرکب سوال، جس میں کئی سوال موجود ہوں

انٹرویو میں بہتر یہ ہے کہ سادہ سوال کئے جائیں۔  اگر آپ کوئی واقعہ نہیں چاہتے تو مثال دے دیں تاکہ مخاطب کو اندازہ ہو کہ آپ در اصل پوچھنا کیا چاہ رہے ہیں۔

اور ایک بات یہ کہ جوابات بھی ۲ طرح کے ہوتے ہیں ؛ اچھے اور برے

اسی سوال و جواب کے دوران ہم جان سکتے ہیں کہ آیا یہ سوال یا جواب ہمارے مقصد و مطلوب تک پہنچا رہا ہے یا نہیں ۔

سوال کی ایک اور تقسیم کھلا سوال اور بند سوال ہے۔ یعنی وہ سوال جو زمینہ فراہم کرے کہ مخاطب اپنے دل کی بات بیان کرسکے، کسی مثال کے ذریعے پوچھا جانے والا سوال،  دوسرا سوال بند سوال ہے یعنی زمینہ فراہم نہیں کرتا بلکہ اسکا جواب ہاں یا نہیں میں ہوتا ہے۔

شفاہی تاریخ  تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا سوال کھلا ہو اور بعد والے سوال کا زمینہ فراہم کرے۔

 

o        ورکشاپ کی دوسری نشست میں یہ مطالب  شرکت کنندگان سے عملی  طور پر  کروائے گئے۔  قاسمی پور صاحب نے شرکت کنندگان سے کسی شخص کا انٹرویو لینے کو کہا جس سے شرکت کنندگان بطریق احسن ان بیان شدہ مطالب کو جان سکے۔



 
صارفین کی تعداد: 6264


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔