ایران کی عصری تاریخ، ڈاکٹر نعمت اللہ فاضلی کی زبانی

مترجم ابو زہرا علوی

2015-8-25


جب ہم ثقافتی تاریخ کو جدید ایران کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر ایران معاصر کے بارے میں ہم ایک طرح کا تجزیہ اور تحلیل کرتے ہیں، ہم اس بات کی کو شش کرتے ہیں کہ مفاہیم و نظریات اور دوسرے علوم جیسے معاشرتی علوم وغیرہ جو ناصرف تاریخ بلکہ ثقافتی مطالعات، سماج شناسی، اقتصاد، حقوق اور دیگر علوم کہ جیسے فلسفہ، میں جو ثقافتی نظریات متولد ہو ئے ہیں ان سے نظریہ پردازی میں مدد لیں اور ان کی مدد سے ایک معنٰی  حاصل کریں اور معاشرے  کے  مختلف گوشوں ، انسانوں و دیگر چیزوں تک رسائی حاصل کریں ۔

منوچہر دین پرست ۔ ثقافتی تاریخ کی اہم ترین باتوں میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ معاشرے کی جانب متوجہ ہے حالانکہ روایتی طور طریقوں میں اس پر بہت کم توجہ ہوا کرتی ہے مثلا روایتی تاریخ نگاری میں ایک حکومت کا گرنا یا عام طور پر ملتوں کی  سیاسی  تلاش دیکھنے میں ملتی ہیں، جنگ، سلاطین، گروپس، پارٹیاں، سیاست میں رقابتیں اور دیگر چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ ہماری ثقافتی تاریخ کسی غیر ملکی طاقت سے حاصل نہیں ہورہی ہے اور ہم اسے مٹا بھی نہیں رہے بلکہ ہم اس سیاست کو سیاست بہ عبارت دیگر لے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سیاست ایک طرح کی تلاش ہے کیوں کہ سیاست کو مستقل عنوان سے نہیں دیکھتے یا ثقافت کو سیاست سے جدا نہیں کرتے بہت سے افکار پرداز جیسے جانسون وغیرہ مختلف میدانوں میں ثقافتی ہونے یا ثقافتی بازی کی بات کرتے ہیں۔جس کا ایک معنٰی تو یہ ہے کہ دور حاضر میں اقتصاد، اجتماع اور سیاست، ثقافتی میدان میں مدغم ہو چکے ہیں۔

ثقافتی تاریخ ایک ایسا موضوع ہے کہ جو آج کل پُر ونق ہو چکا ہے کہ جس میں ١۹۷۰ کے  بعد ایک پھیلاو آیا ہے لیکن ایران میں اب تک پہنچانا نہیں گیا ہے اور اس میدان میں بہت کم کام ہوا ہے اس میدان کے مطالعات کم ہیں وہ تاریخ کہ جو زاریعہ ابلاغ میں اور اخبارات میں  ہمیں نظر آتی ہے  اسی طرح ایران کی تایخ نگاری زیادہ تر تاریخ سیاسی ، تاریخ جنگ ، لڑائیاں اور واقعات کے بیان کے علاوہ کچھ نہیں اس سے بہت کم ثقافت کا کام لیا جاتا ہے ،اس بنا پر یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم اس مرحلے میں اس کو پہنچانے ، یہ ہے کیا ، کس طرح یہ شعبہ علم سے تعلق رکھتا ہے ، اسکی حدود  اس کا موضوع  ، اسکا کام ، اسکا طریقہ کار ، اس کے بعد اس کی اس نسبت سے  تحلیل   کہ کون سے علوم کاملا اس کی مجاورت کرتے ہیں  دوسری جانب ثقافتی تاریخ گویا کہ ایک موضوع ہے کہ جو اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جو دو اصلی انسانی علوم کو ملاکر چلا ئے، یعنی تاریخ و ثقافت کو ایک ساتھ رکھے اس بنا پر ثقافتی تاریخ ایک علم ہے کہ جس میں اس سے تعلق رکھنے والے علوم جیسا کہ ثقافت، تاریخ، انسان شناسی، ثقافتی مطالعہ اور وہ علوم جن سے تاریخ کے ساتھ استفادہ کیا جا تا ہے، ان علوم کی شاخوں سے جیسا کہ علوم انسان کی مختلف شاخیں ہیں، نزدیک ترین حدود اور مشترک حدود کہ جو معاشرتی علوم ہے ثقافی تاریخ  میں ان سب کا حصہ حاصل ہے ۔

ابھی ابھی ایک کتاب کہ جس کانام "تاریخ فر ہنگی ایران مدرن"  یعنی ماڈرن ایران کی ثقافتی تاریخ شائع ہو ئی ہے یہ کتاب  تجزیاتی گفتگو، اینتھو گرافک وضاحت  Ethnographic descriptions ، زندگی کے خصوصی اثرات، اور جدید ایران کی ثقافت پر مشتمل ہے، ایسے خصوصی اثرات کہ جو آج تک ہمارے کسی مورخ اور علوم اجتماعی کے محقق نے بیان نہیں کئے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسجد، کتاب، بدن، حافظہ، موسیقی یا خاندان یا دیگر موضوعات کہ جو اس کتاب میں موجود ہیں کسی اور نے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا بلکہ جو متون آج موجود ہیں ان میں یا تو تاریخ نگاری ہے اور انظار سے فاقد ہے یا تحقیق میں تجربہ کم اور نپا تلا ہے۔ جو کچھ اس کتاب میں موجود ہے اس پر ہر ایرانی اپنی روز مرہ کی زندگی میں  تجربہ کر چکا ہے  لیکن اس کتاب کے مولف نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس میں ایک فردی تجربہ کوانجام دے اور اسی طرح تحلیلی گفتگو کرے، اس گفتگو میں کوشش کی گئی ہے کہ جدید ایران کی ثقافتی تاریخ کے مختلف پہلووں پر نقد اور تحقیق کریں۔

سوال: پہلے سوال کی اجازت دیں کہ جب ہم جدید ایران کی ثقافت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم کس چیز پر بات کرنا چاہتے ہیں، بنیادی طور پر جدید ایران کی ثقافتی تاریخ سے ہماری مراد کیا ہے؟ آیا اس سے مراد وہی ہے کہ جو ماسلف میں گذر چکا ہے یا ہم ایک جدید فضا میں داخل ہو چکے ہیں؟۔

ہر علم کے بارے میں ایک اہم سوال جو کیا جاتا ہے  چاہے وہ علم روایتی ہو یا کلاسک ہو کہ اس علم کا موضوع کیا ہے؟ ویسے آجکل اس بنیاد پر علوم کی شناخت نہیں ہوتی اور اس کی گروہ بندی نہیں ہو تی۔ ماضی میں لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ہر علم کا موضوع ہونا چاہیے، ثقافتی  سرگرمیوں نے  علوم کی ایک شاخ کے طور پر یا مطالعات کے میدان میں کہ جو نسبتاً جدید ہیں  ١۹۸۰ سے اپنی حرکت کا آغاز کر دیا تھا اور کسی نا کسی طرح کالجز اور تحقیقی ابحاث میں شامل ہوتا تھا، اس سے پہلے کہ اس کے موضوع  کی شناخت کے بارے میں کچھ کہا جائے بنیادی طور پر اس کی نگاہ یا وہ خصوصیت کہ جو انسانی معاشرے کے مسائل حل کرنے میں ہے یہ اپنی شناخت کراتی ہے۔ اگر ہم ایران کے سماج کو تاریخ ثقافت کی نگاہ سے دیکھیں تو ضروری نہیں کہ ہم ایرانی معاشرے اور ثقافت کے لئے اسکے نقاط و اسکے اجزا یا موضوعات کو معین کریں اور ایک ایرانی ثقافتی  تاریخی عنوان کے موضوع کو اپنے مطالعے کی بنا پر قرار دیں بلکہ اگر حال حاضر میں معاشرتی ثقافت کو تاریخی ثقافت کے عنوان سے دیکھیں تو ماضی ہماری نگاہوں کے سامنے  آجاتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں آپ ثقافتی تاریخ کو ایک جیسا Integrated دیکھ رہیں ہیں ۔؟

بالفاظ دیگر، اس بنا پر اس سے پہلے کہ ہم ایران کی عصری تاریخ کو ثقافتی تاریخ کےمطالعات کی بنا پراس کا کوئی خاص موضوع قرار، اس میں چند نکات کی جانب توجہ دی جائے کہ جن کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

١ ثقافتی تاریخ کا ایک خاص ویژن ہے جو اس بات کی جستجو میں ہے کہ ایران کے موجودہ حالات اور جو ثقافت ایران میں موجود ہو اس کی ایک طرح کی تفسیر اور تجزیہ و تحلیل کرے۔ اگر ثقافتی تاریخ کو ہم اس ویژن سے دیکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایرانی عوام نے اپنے دور کو کس طرح گذارا اور کس طرح انھوں نے خود ، اپنی زندگی کو اپنے معاشرے کو، دنیا کو، کس طرح انھوں نے اس کو معنی دیا ہے ؟ کس طرح انھوں نے زندگی اور اپنے معاشرے کو بیان کیا ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا ئے کہ ثقافتی تاریخ ایک معنٰی کی تلاش ہے کہ جس سے شناخت اور منابع نکل کر آتے ہیں یہ ایک معنٰی کی کان کی مانند کے مانند ہے کہ جو گروہوں، جوانوں اور انسانوں کو ایک معنٰی دیتی ہے یا ان سے بہرمند ہو تی ہے اگر اس میں ایک اور معنٰی ضم کر دیا جا ئے تو ہم اس نکتے پر پہنچیں گے کہ جب ہم ثقافتی تاریخ کو جدید ایران کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو بنیاد ی طور پر ایک طرح کا تجزیہ و تحلیل نظری موجودہ ایران کے بارے میں کر تے ہیں ، ہم اس بات کی تلاش کرتے ہیں کہ مفاہیم سے مدد لیں اور نظریات اور آراء سے کہ جو تمام اجتماعی علوم کہ جس میں ناصرف تاریخ شامل ہے بلکہ ثقافتی مطالعات، سماج شناسی، اقتصاد، حقوق، اور دیگر علوم انسانی جیسا کہ فلسفہ اور دیگر علوم کہ جن میں ثقافتی نظریات ایجاد ہوتے ہیں ان مفاہیم  و نظریات کہ جو اس سلسلے میں دیئےگئے ہیں۔ معاشرے کے مختلف پہلووں، انسان اور مختلف موجودات کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ چند مثال دیئے دیتا ہوں، تاریخی مطالعہ ایران کی عوام کے لئے کوئی نئی بات نہیں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں ایران ان ممالک میں سے ایک ہے کہ جو مطالعات تاریخی میں آغاز کی حیثیت رکھتا ہے ہمارے پاس اس کے کئی نمونے ہیں چاہے اسلامی دور ہو یا غیر اسلامی دور ہو مختلف صورتوں میں مطالعہ ایران میں رہا ہے ہمارے پاس مختلف مثالیں ہیں چاہے ثقافت ہو چاہے ادب ہو رسوم و فن و ہنر، تفکرات و اندیشے، اور دیگر علوم کے مطالعات، ایران کی عوام کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اسی بنا پر ہم اپنی تاریخ نگاری میں مختلف پہلووں کے مطالعات کو دیکھتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب "جدید ایران کی ثقافتی تاریخ" میں ہر زاویے سےگفتگو کی ہے اور اس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم ہر بحث کی تکرار کریں لیکن جس چیز کی ضرورت ہے اور جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ میں نے کوشش کی ہے اس کتاب میں اور اپنی دیگر تحریروں میں ثقافتی تاریخ کے نکتہ نظر کی جانب توجہ دوں، کہ جو تاریخ  ثقافت سے جدا ہے ، جس طرح بیان کیا کہ ثقافتی تاریخ کا ہدف نظام ثقافت اور اس کی بنیاد کو پہنچانا ہے، اس کے علاوہ میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایک طرح کا معیاری نقطہ نظر اور ایک مثبت نقطہ نظر Post-positivist کہ جو دونوں نظریات کو مدنظر رکھے دونوں کی عاملیت حتیٰ وہ عاملیت کہ جوایک دوسرے کےمقابل میں ہیں ان سے ہٹ کر ہو۔ ایک اور بات کہ میں نے جس سے اس کتاب میں استفادہ کیا ہے دراصل بین الکلیاتی Interdisciplinary ہے کہ جو مختلف مفکرین کی نظر اور آراء جیسے تاریخ نگاری کے میدان میں فوکو پیٹروبرگ، اور وایٹ اور بہت سے دیگر افردسے مدد لی ہے جبکہ میری کوشش یہ تھی کہ میں گیدنز اور ان سے جیسے بہت سے افرد سے مدد لوں۔

سوال: جدید ایران کے بارے میں شاید یا ایرانی سماج میں یہ اہم ترین سوال ہوگا کہ اس جدید سے کیا مراد ہے؟  آپ نے بہت اچھی طرح سے ثقافتی تاریخ کا معنٰی بیان کیا، میرا سوال کہ اس شعبے میں مطالعات ہوں گے ضرورت سے زیادہ اس مقولے پر توجہ دی جا ئے گی اور سیاست اس سے دور  رہے گی، آیایہ ایک خاص توجہ ہے؟ جبکہ سیاست ثقافت پر اور سماج پر اثرگذار رہی ہواور ثقافت کو اور معاشرے کو بغیر سیاست کے نہیں دیکھا جا سکتا حتیٰ تجزیہ و تحلیل بھی نہیں کی جا سکتی جس طرح آپ نے مسجد کی بحث  کی اور اس میں سیاسی کے عمل دخل کو بھی بیان کیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ ۔

 

جواب: ثقافتی تاریخ کی ایک اہم خصوصیت یہ کہ وہ سماج کی جانب متوجہ ہے اور روایتی شکل و صورت کی وجہ سے روایتی تاریخ نگاری میں معاشرہ کم نظر آتا تھا، مثلا روایتی تاریخ نگاری میں حکومتوں کے سقوط و ظہور یا عام طور پرملتوں کی سیاسی تاریخ ملتی ہے، جنگیں، سلاطین، گروہ ،پارٹیاں اور ان میں سیاسی رقابتیں ملتی ہیں، جبکہ ثقافتی تاریخ میں ہم اس میں   سیاست کو دوسرے معنٰی میں لیتے ہیں جہاں پر فوکو سیاست کو قدرت سے لیتا ہے وہاں معاشرہ بکھر جا تا ہے ثقافتی تاریخ کا نقطہ نظر ایک طرح کی تلاش و جستجو ہے اس لئے سیاست کو مستقل نہیں دیکھتے یا ثقافت کو سیاست سے جدا نہیں کرتے یا اقتصاد و سیاست و ثقافت کو ان امور میں شامل کرتے ہیں کہ جو ایک دوسرے سے مدغم ہو چکے ہیں ،بہت سے ماہرین جیسے جینسون  وغیرہ  نے آج کی مختلف فلیڈز کو ثقافت یا Cultural turn سے تعبیر کیا ہے اس کا معنٰی یہ ہے کہ آج کل اقتصاد، اجتماع و سیاست ثقافت کے میدان میں گھل مل چکے ہیں اور یہ آج کل کا مطلب چند دہائیاں نہیں ۔﴿یعنی یہ جو بار بار کہا جارہا ہے کہ آج آج ا سکا مطلب چند دہائیاں نہیں بلکہ چند سو سال ہیں ۔

اور ان کا جدا کرنا بھی ممکن نہیں ۔۔۔۔۔

جی ایسا ہی ہے بلکہ جدید دنیا کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جدا ادارہ ہے جبکہ ایک طرح کا ادغام اس میں موجود ہے، اس ادغام میں جدیدموضوع ہر روز طاقت ور ہوتا جا رہا ہے  اس کی وجہ یہ ہے کہ  ایک  جدید ٹیکنالوجی اس کے پاس ہے اور اس نے جمہوری عمل ایجاد کیاہے ، اقتصاد ی و رفاہی امور کو وسیع کیا ہے، ماڈرن انسان کو توان مند کیا ہے جیسے یہ تمام رفاہی سروسز اور بہترین تعلیم کی صورتیں اور دوسرے دلائل کہ جس نے اپنی توان مندی کو زیادہ کیا ہے اور نتیجتا ً اس نےتصرف کے لئے  اجتماعی ، سیاسی و اقتصادی امور میں عملا  ایک طرح کا  ثقافتی یا ثقافتی  یا تہذیب کے گھماؤ  Cultural turn میں انضمام  کو متحقق کیا ہے  ،

 

 

جب ہم مسجد کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم گفتگو اس بارے میں ہو تی ہے کہ مسجد نے کس طرح ایک نظام کو پہچناوایا ہے اس گفتگو کے علاوہ قدرت کو بھی ہم شامل کرتے ہیں ، جب ہم کتاب یا کسی شہر کے بارے میں با ت کرتے ہیں یا ہماری گفتگو  کسی اور کے بارے میں ہوتی ہے تو اس سے ہمارا قصد یہ ہوتا ہے کہ اس بات کو پہنچواوں کہ قدرت کے تعلقات کے علاوہ  پیداوار کے اسباب کا عمل ہے ،دراصل ہم جس کو تہذیب یا کلچر یاثقافت کہتے ہیں وہ  تنگ روابط ہیں کہ ایران معاصر میں  اس کی جڑیں موجود ہیں ، ثقافتی تاریخ کی خصوصیا ت میں سے ہے کہ یہ ہے کہ انسان معاصر کی تمام زندگی میں اپنی اہمیت کو پہچنواتی ہے ۔

   Potentialثقافتی نظام  بہت اچھا اور برجستہ ہے وہ خود کو پہچنواتا ہے ، ثقافتی تاریخ نگاری  کی بحث میں روز مرہ کی رفتار اور لوگوں کے ثقافتی اظہار پر زیادہ توجہ دی جا تی ہے ثقافتی مورخ جس موضوع کو دیکھتا اسے  ریسرچ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کون سی چیز اس کے لئے اولویت  رکھتی ہے ؟

جس طرح سے میں نے اس کتاب کی فصل اول میں کلچر تاریخ کیا ہے اس کے بارے میں وضاحت کی ہے ، ثقافتی تاریخ  کی انسانوں  تمام کمیونٹیز میں  بیشتر توجہ رکھتاہے   ،انسانوں کی تمام تر کمیو نٹیز اپنی توان کی پہنچا ن عواطف و احساسات ، خواہشات و جبلیات اور اپنی درخواستوں   اپنے ارادوں اور وہ کام کہ انھوں نے انجام دینے ہیں اپنے  روز مررہ کے کام کہ جو وہ انجام دیتے ہیں کلچر تاریخ اس میں تحقق پیدا کرتی ہے  ،اور اسکی جستجو ہی یہی ہے کہ یہ ان پیچیدہ مراحل پر توجہ دے

اس بنا پر میں نے یہاں کو شش کی ہے زندگی کے مختلف شعبوں میں چند وجوہ کی بنا پر ایرانی زندگی کی اصلاح پر توجہ  دوں کہ جو ایک طرح کا ایرانی انسان کا تمام معاشروں سے اور ہماری  عصری تاریخ   کے تعامل کا پتہ دیتی ہے جیساکہ میں کلچر تاریخ کی فصل بدن  میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی گفتگو کو روایتی اور مابعد جدید بدن کو وضاحت سے بیان کروں ، میں نے اس کتاب میں کو شش کی ہے کہ وہ لحظہ کہ جس میں ہمارے معاشرے میں تغیر پیدا ہے اس لحظے کو بنیادی لحظہ جانے تاکہ تاریخ ثقافتی اس پر متمرکز ہو جا ئے ، یہ تاریخی لحظات وہ لمحات ہیں کہ جن پر گفتگو کرنے سے ان میں تبدیلی پیدا ہو جا تی ہے یعنی ہماری روایتی گفتگو تدریجا  موڈرن گفتگو میں اور جدید گفتگو مابعد جدید میں تبدیل ہو جا تی ہے ۔ البتہ میری کوشش یہ ہے کہ میں ان مفاہیم کو ایک تکاملی صورت میں سطحی نہ دیکھوں بلکہ کو شش یہ ہے کہ وہ تبدیلیاں کہ جنھوں نے تغیر ایجاد کی ہے پہلے تو یہ کہ یہ لمحات   کوہتاہ نہیں ہیں دوسرے یہ کہ ایسا نہیں کہ یہ تبدیلیاں معین چیز سے شروع ہوئیں اور ایک معین چیز پر جا کر ختم ہو گئیں

میری کوشش یہ رہی ہے کہ میں یہ چیز بیان کروں کہ ہم ١۵۰ سال کے دوران کہ جس ہم تاریخ معاصر کہتے ہیں ان میں روایتی ،موڈرن اور مابعد جدید لمحات دیکھتے ہیں اس کے باجود کہ یہ سب آپس میں جڑے ہو ئے ہیں ہم ان میں ابتدا و آخر کو نہیں معلوم کر سکتے لیکن ان میں تین صورتیں ہیں پہلی یہ کہ یہ تینوں صورتیں پہلے سے  وجود رکھتی تھیں  دوسرے یہ کہ ان میں بعض لمحے قدرتمند اور توانمند ہیں ان میں  واضح تر کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگوں کی روز مرہ زندگی میں ان کی ایکشن میں یا  حکومتوں کی ثقافتی سیاست اور حاکمیت یا مناسب طبقات اور ان میں موجود اجتماعی گروہ میں  نظر آتی ہے میں اس بات کے درپے نہیں تھا کہ کمیت کو دیکھو ں اور تحولات کے میزان کو تولوں اور وہ واقعہ کہ جس کا وزن کم نکلے تو اس کی وضاحت کروں بلکہ میری کوشش یہ تھی کہ میں جدید مفاہیم ایجاد کروں کہ جو نظریات کی بنیاد پر ہوں اور جو محصول تازہ کو ایران کے انسان کی زندگی پر ، سیاست پر ، شہر پر ، ادب ، یا کسی اور میدان میں فوکس کروں اس کتاب میں تبدیلی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

آپ ا س بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ لحظے بہت زیادہ پر شتاب تھے ؟

میں اپ کی مراد نہ سمجھ سکا ۔

جب آپ نے تین تبدیلوں کی بات کی کہ روایتی ثقافتی ، موڈرن کلچر ل اور مابعد جدید کلچر ل بطور مثال ہم اپنی موسیقی کو دیکھتے ہیں کہ روایتی  اور موڈرن میں ایک وقت ایسا تھا کہ جب ان میں کشا کشی تھی اور پھر جدید موسیقی جیت گئی لیکن کچھ ہی عرصہ گذرنے کے بعد دوبارہ روایتی موسیقی آگئی اور وہ بھی اجتماعی  و ثقافتی حتیٰ سیاسی رفتار کی وجہ سے ایسا ہو ا، لیکن شہر کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جددت بڑی زور سے آئی اور اس نے ہماری روایت کو شہر سے باہر کر دیا اور بہت سے ہمارے روایتی مراکز اپنی تمام تر یادوں کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں یہ کشا کشی بہت زیادہ تھی آیاہم اس بات پر گفتگو کر سکتے ہیں کہ یہ افکار واپس نہیں پلتے گے ، اور روایتی افکار اپنی جگہ جددت کواور جددت مابعد جدید کو دیں گے ؟ ۔

جو بحث میں نے کی ہے وہ اس بات پر مشتمل ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام پراسس ایرانی معاشر ے کو تمام گوشوں میں تبدیل کر رہا ہے   یہ پراسس ، اخبارات و مطبوعات و کتاب و ریڈیو و ڈش و انٹرنیٹ کہ جو اس پراسس کو پیدا کر رہا ہے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ  زرایع ابلاغ کا پراسس  ہماری زندگی کے تمام گوشوں پر اثر انداز ہو رہا ہے ،

موسیقی میں بھی ایسا ہی ہے ، ہماری روایتی موسیقی کہ جو ایک نوع کی موسیقی کے طور پر یاد کرتا ہوں دراصل  روایتی ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ اس کے اندر روایتی ہونے کی تمام خصوصیات موجود ہوں بلکہ یہ موسیقی بھی  میڈیا کے پراسس  کے زیر اثر تھی اسی طرح کہ جس طرح جدید موسیقی پراسس کا حصہ ہے اور میڈیا کی وہ تاثیر کہ جو جدید موسیقی پر اثر انداز ہو تی ہے وہی میڈیا اس مابعد جدید موسیقی پر اثر انداز ہوگا اور ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہیں گے مثلا ہماری روایتی موسیقی ہو یا جدید یا مابعد جدید ہو سیاسی میدیا کے زیر اثر ہے کیوں کہ میڈیا نے موسیقی کی ہر چیز کو عام کر دیتا ہے کہ جو اور اس عام ہونے کے پراسس میں سیاست اور قدرت نے قدم رکھا ہے اور جب ہم ہر چیز کو عام کریں گے تو سب اس میں شریک ہو جا تے ہیں پس اب مسئلہ موسیقی کے ذائقے کا نہیں رہتا بلکہ قدرت اور منافع بھی اثر انداز ہو تے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گروہ اپنی انتخابات کی مہم میں ایک جدید موسیقی سے کام چلاتے ہیں   جبکہ وہ روایتی موسیقی کو بھی سنتے ہیں ۔

یہ جو آپ نے مثالیں دی ہیں آیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جددت سے ظاہری طور پر آشنا ہو ئے ہیں نا کہ ہمیں  جددت کی معرفت ہے ؟

آپ نے جس کی جانب اشارہ کیا ہے ایران میں جددت  کے مفہوم کے بارے میں  ایک سنجیدہ  تنازعات میں سے ہے ، میں نے اپنی کتاب کی دوسری فصل میں ایران میں روشن فکروں کے عنوان کے تحت گفتگو میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے روشن فکر حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ایران میں جددیت پیدا ہی نہیں ہو ئی ہے یہ صر ف مادی اور ظاہری صورت ایران میں آئی ہے اس کی پہنچان اب تک ایران میں جلوہ گر نہیں ہو ئی ہے ، میں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتا اس کی وجہ یہ ہے کہ  وجود مادی و غیرمادی و معنوی و غیر معنوی  ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو تے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ایک کار ایران میں آئے اور اس کی تاثیر معنوی نہ آئے یا بلند و بالا عمارتیں یااسکولز یا کالجز یا کو ئی ہسپتال وغیرہ ، وازرتوں کی عمارتیں اور اداروں کی  جدید عمارتیں ہو ں لیکن  لوگوں کی طرز زندگی میں  کسی بھی طرح کا کوئی  فرق نہ آئے ،مطالعات شاہد ہیں کہ جہاں کی بھی سیاست سے نوسازی کی صورت اختیا ر کی ہے وہاں جدید افکار و اندیشے وجود میں آئے ہیں  وہاں رویوں میں تبدیلی آئی ہے اسی وجہ سے میں ان کی آراء کو قبول نہیں کرتا بعض افرد کہا کرتے ہیں کہ ہم نے ظواہر کو  پیڑول بیچ کر ایران کے لئے خرید کر معاشرے کے حوالے کر ڈالا لیکن ہماری عوام  کے رویوں ، افکار و احساسات اور اقدار و چال و چلن میں کو فرق نہیں آیا ، یہ نظر نہ صرف از لحاظ نظری ایک نادرست راستہ ہے ،بلکہ ایرانی معاشرے نے آخری چند سالوں میں بہت تغیر کیا ہے معاشرے نے ازلحاظ معنٰی تغیر کیا ہے ، جدید ایران کی تاریخ نامی کتاب کہ جس کے مصنف آبراھا میان تھے انھوں نے انھیں تبدیلوں کا ذکر کیا ہے میں نے بھی اسی دلیل کی بنا پر اپنی کتاب میں اس بات کو لکھا ہے کہ ایران میں جو تبدیلی ہو ئی ہے وہ کو ۴ی معمولی نہیں ۔

اس کا مطلب اس کی کامل پہنچان ہے ؟۔

کامل طور پر یہ تغیرات معنوی پہلو رکھتے ہیں اور ایران انسانی اس  پیداری پراسس میں اور اس کے پھیلاو کے پراسس میں تبدیلی لا چکا ہے مابعد جدید و آج کا ایرانی محصول مختلف موارد میں متفاوت ہو چکا ہے ، مثال کے طور پر ایرانی معاصر کی آرزومندی کی ظرفیت، مابعد جدید ایرانی کی ظرفیت کے برابر نہیں کہ جو ۵۰ سال پہلے تھی اس بنا پر میں اس بات کا اعتقاد رکھتا ہوں کہ ہم میں ایک معنوی اور ثقافتی تغیر پیدا ہو چکا ہے اس وجہ سے  ہم ایرانی  ثقافتی تاریخ کی جانب بڑھ سکتے ہیں اگر کو ئی تبدیلی نہ ہو ئی ہو تی تو جدید ایرانی ثقافتی تاریخ بھی بامعنٰی نہیں ہو تی ۔

    ایک نقد کہ جو اس جدیدکلچر ل تاریخ  پر ہوتا ہے وہ یہ کہ   یہ تاریخ نگاری بہت زیادہ میڈیا کی سمت جھکاؤ رکھتی ہے آپ اس نقد کا کیا جواب دیں گے ، بنیادی طور پر ان تنقید کو ناآشنائی کی بنا پر کہیں گے یا یہ کہ یہ واقعی ایک نقد ہے ؟۔

میں پہلی بار اس نقد کو سن رہا ہوں لیکن بات اچھی ہے زہن میں آنے والی ہے وہ بھی اس وقت کہ جو آج ہم کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور دوسری جانب روزنامہ نگار بھی آج کی باتیں کر رہے ہیں یعنی دونوں کے درمیان ایک موضوع  مشترک ہے   کہ دونوں معاصر کی جانب متوجہ ہیں ، دوسری جانب کلچر ل تاریخ کی پہنچان بھی ایک نقطہ نظر ہے کہ جو کیفیت پر مبنی ہے تا کہ تفسیر و استنباط و معنا حاصل کر سکے اور واقعات و حوادث سے ایک طرح کا علم پیدا کر سکے یہ کام روزنامہ نگاری بھی کیا کرتی ہے کہ ایک نامہ نگار کی حیثیت سے لوگوں کی زندگی کو ہمیشہ بیان کر تا ہے اور ان کے مُحّصِل کو اور زندگی سے اپنی تخصیص کو بیان کرتے ہیں  تمام فلیڈز میں ریسرچر کلچر ل تاریخ کی مانند ہیں کہ ایک طرح کا مخاطب عمومی پر عطف کا کام دیتے ہیں ۔

  یہاں ایک نکتہ ہے کہ  جدید ثقافتی کے مورخ کا نثر بہت زیادہ بامعنٰی ہے کہ جو زاریع ابلاغ پر اکتفا نہیں کرتا ۔

جی آپ نے درست کہا ایساہی ہے اور میں  کہنا نہیں چاہتا کہ یہ روزنامہ نگاری کی نثر کی مانند ہے ، بعض مقامات پر بہت زیادہ فرق ہے ، ثقافتی تاریخ  معاصر کو ابھارنے کی ایک طرح کی کوشش ہے، جبکہ

نامہ نگاری  تھیوری کے ساتھ ایک  عہد مندی ہے کہ جس میں اجتماعی مفاہیم نہیں لیکن ان میں بہت زیادہ شباہت ہے نثر اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ چاہے ما بعد جدیدیت یا پوسٹ structuralist  ہو آج کا نثر سیال و منعطف اور ایک طرح کا بلاغی فن ہے ،اگر  کالج کا نثر مثبت گرا Positivism ایک طرح کا ظریف طبع Aesthetic forms   میں اپنی ھویت کو تلاش کرلیتا ، تو آج مابعد جدید نثر Unparagraphed prose postmodern  مطالعات کے میدان میں  ثقافتی تاریخ کی مانند اور دیگر فیلڈ میں  بھی یہی کام ہوتا کہ جس طرح کلچر ل تاریخ اپنے مخاطب کو اقدار کی جانب متوجہ کرتی ہے اور ایک سمت دیتی ہے ، ثقافتی تاریخ ، ،، ،  ایک ایسے مجموعے کا جز ہے کہ جو بنیادی طور پر ایک پیرا میٹر کا کام دیتی ہے کہ جس نے اس کی پہنچان میں میں ایک پھیلاو ایجاد کیا ہے اس پیرا میٹر میں ہم اس چیز کے قائل نہیں کہ کالجز کے نثر کو ایک دم چھوڑ دیا جا ئے یا صرف اسی نثر کو لکھا جا ئے یا مولف کے اپنے نظریات کو چھوڑ دیا جا ئے اس وجہ سے میں نے اس کتاب میں آگاہنا کوشش کی ہے اور جوان نسل کی خصوصیات کو مابعد جدید ، کیف و انعطاف و جذابیت و جمالیات شناسی کو نثر میں لا یا ہوں ۔

آخری سوال کے طور پر ، ثقافتی تاریخ کی خاص روش ہمارے علوم انسانی معاصر کہ جو قدرت کے زیر تحت ہے ، سیاست اور عدم آگاہی و عدم گفتگو پر مبنی ہے  ان پر    کیا اثرات چھوڑے گی ؟ ۔

مختلف پہلوں سے ہم ثقافتی تاریخ میں ایک دوسرے کے نفع کے بارے میں بات کر سکتے ہیں ، پہلا نکتہ یہ کہ ایک طرح کا تازہ اور پر طراوٹ بیان کا طریقہ ، فلیڈیز کی شناخت اور معرفتی نگاہ  ثقافتی تاریخ میں موجود ہے اس وجہ سے ہم نے کہا کہ یہ خصوصیت  ایران  کے تعلیمی اداروں میں ایک تحرک ایجاد کرے گے کہ جو اکیڈمیوں کے رشد کا سبب بنے کا اور علوم  اس بات میں مختار ہیں کہ کس حد تک جدید نثر و فرق کو اور جدید موضوعات ، جدید شناخت کو ہمارے لئے ایجاد کرے اسی وجہ سے اس سے بہرمندی کے لئے تمام علوم انسانی جیسا کہ سماج شناسی و تاریخ نگاری کو اپنے تحت لے میں نے آخری چند سالوں میں  اس سلسلے میں کلچر   ل تاریخ کو بیان کیا ہے اور جوانوں نے محققوں نے میری اس بات کو قبول بھی کیا ہے بہر حال جو بھی ہو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ یہ تازگی پہلا سود ہے ، دوسرا نکتہ سودمندی یہ ہے کہ کلچر ل تاریخ ہمارے معاصر معاشرے میں جمہوریت کی صورت میں ہے یعینی ہم  خصوصیا کی جانب  اور سربر اہوں کی خواہشات اور افراد کی متوجہ ہیں ، اس با ت کی جانب متوجہ ہیں کہ اجتماع کے گروہ مثلا خواتین و اقلیت اور اقوام دیگر اور ان کی خصوصیات کہ جو کلچر ل تاریخ ہے متوجہ ہیں اس بنا پر ایران کے معاشرے کو جمہوری بنانے میں تاریخ سومند رہی ہے

 

تیسرا نکتہ یہ کہ جدید ایرانی  کلچر ل تاریخ یہ ہے کہ جو روش میں نے انتخاب کی ہے اس میں عوام کا ادغام ہے انسان شناسی ، جامعہ شناسی ، اور کلچر ل مطالعات تاریخ نگاری کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور عوام الناس کے ادغام پر متوجہ ہیں تا کہ نسل جواب دلچسپی کے ساتھ اجتماعی مطالعات  تاریخی کی جانب بڑھیں  یہ بات باعث تاسف ہے کہ ایران میں علوم اجتماعی کی کتب پڑھی نہیں جا تی ، اور مخاطبین کا یہ بحران بڑا سنجیدہ ہے بحرانوں میں سے ایک بحران تو ہے علوم اجتماعی کی  نشری کتب کی تعداد روز بہ روز کم ہو تی جا رہی ہے اس کا حل یہ ہے کہ ہم کالجز کے متعصب نثر کو تبدیل کریں ہر متن کے کئے ضروری ہے کہ وہ بڑھنے کے لئے لذت ایجاد کرے اس کے علاوہ اگر ہے تو وہ متن نہیں ، ایران میں علوم اجتماعی کا متن   اپنے پڑھنے والے کے لئے جذابیت سے عاری ہے میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ میں ثقافتی تاریخ کے خصوصی نثر کہ جو وہ رکھتا ہے اور علوم اجتماعی میں ایک طرح کی جذبیت کو پہچنواوں تاکہ ہماری جوان نسل اور وہ لوگ کہ جو اس علم سے تعلق نہیں رکھتے وہ بھی اس میں جذب ہو جائیں میرے خیال میں اس طرح کا کام دیگر علوم میں بھی ہونا چاہیے حتی ریاضیات و کمیا و فزکس میں بھی ، یہ جمہوریت کے پراسس کا ایک حصہ ہے  ،اس علم کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ثقافتی تاریخ کی کوشش یہ ہے کہ وہ کالجز کے وہ علوم کہ جو ایک دوسرے جدا اور جزیروں کی مانند ایک دوسرے سے دور ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے مل جا ئیں کلچر ل تاریخ میں ایک گفتگو شعبوں اور فضا کے درمیان ہوتی ہے یعنی اکیڈمیز کی فضا وں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے ،ابھی اس کتاب کو نشر ہو ئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں مجھے بہت اچھے دوست ملے کہ جو مختلف علوم  کہ جو اس کتاب سے تعلق رکھتے ہیں  میں سوچتا ہوں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ایسا وقت آئے گا کہ ایک ایسا گروہ وجود میں آئے اور وہ افراد کہ جو وقت نہ ہو نے وجہ سے دوسرے علوم کی جانب نہ جا سکے وہ ایک دوسرے کے علوم کو مطالعہ کریں گے ۔ میں جب اس کتاب کو لکھ رہا تھا تو میں نے  مختلف علوم  ، اجتماعی و اقتصاد و حقوق و ثقافتی  دسیوں مقالے پڑھے گویا کہ میں نے ان کی جاسوسی کی ہے اگر میں یہ کتاب   نہیں لکھ رہا ہوتا تو یہ موقع بھی میرے ہاتھ نہیں لگتا پس ثقافتی تاریخ  مختلف علوم کے درمیان ایک مناسبت اور ایک طرح کی صلح و ہم نشینی و ہم سخنی پیدا کرتی ہے اور ان کے درمیان ایک رشتہ پیدا کرتی ہے اگر یہ رشتہ ایجاد ہو جا ئے یہ ثقافتی تاریخ کا سب سے بڑا سود ہو گا ،  ، یہ ایک اہم سوال ہے جو تمام علوم کے بارے میں ضرور پو چھنا چاہیے ، ثقافتی تاریخ کی ایک ارزش یہ ہے کہ یہ تاریخ نگاری  و علوم اجتماعی کی سود مندی   کو سنجیدہ لیں اور عموماً اس میدان میں جو متن لکھے جا تے ہیں ان پر اہم ترین نقد اس علم کی سود مندی کے بارے میں ہے ، آج روز بروز علوم  میڈیا یی ہو رہے ہیں آج کالجز  اس بات کے درپے ہیں کہ

 

کتابوں کے علاوہ متون و مقالے سب تصویری ہوں اور ہم ویب سائٹ پر اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اس میں صوتی اور تصویری فائل ہو تی ہے دنیا میں تعلیمی ادارے اس بات کی تلاش میں ہیں کہ انھیں بلند مقام ملے اور یہ طبیعی ہے  کہ جسے کلچر ل تاریخ نے بیان کیا ہے ،میں اس طرح کے علم کو روزنامہ نگاری کی جنس سے نہیں سمجھتا لیکن بہت قریب ضرور سمجھتا ہوں ۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے آج کے ایران میں کبھی روزنامہ نگاری کو ایک طرح سے خفیف یا بے کار نوع سمجھا جاتاہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں روزنامہ نگاری ایک سرگرم ثقافتی کا م ہے جیسے سارے ثقافتی کام ہوا کرتے ہیں یہ کو ئی خوار کام نہیں بلکہ ایک طڑح کا باارزش کام ہے ۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4327


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔