شمس لنگردوی کی کتاب پر ایک نظر

کتاب کے فریم سے باہر کی تصویریں

محمد ہاشم اکبریانی

2015-8-25


شمس لنگرودی کی کتاب کی کمیت اورکیفیت کے بارے میں کہ جس کا شمار ادبیات ایران کی زبانی تاریخ میں ہوتا ہے دوسرے نظریات پیش کرنے چاہیے۔ اس لیے اس بارے میں بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور کہی جاتی رہیں گی۔ زبانی تاریخ کی کتابوں میں یہ بات قابل افسوس ہے کہ بہت سارے بزرگوں کی صفات اور خصوصیات بیان نہیں ہوتی ہے۔ مثلاًٍ کسی جگہ بھی عمران صلاحی کا پاک، صادق اور معصوم چہرہ دکھائی نہیں دیتا، یا اس کتاب میں ان کی انکساری اور مہربانی کی جھلک بھی نہیں دکھائی دیتی۔ جب تک کوئی خود عمران سے ہمکلام نہ ہو اور ان کے طرز گفتگو کو  نہ سنا ہو تو ان کی مہربانی، صداقت اور پاکی کو نہیں سمجھ سکتا کتاب عمران   کی صفات اور خصوصیات کو قارئین کے سامنے پیش نہیں کرسکی تاکہ قاری ان کو درک کرسکے۔ شمس لنگرودی کی یہ کتاب بھی ان کی انکساری، تواضع اور انسانیت کو انسانوں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اگر تم نے ان کو خود دیکھا ہو، ان سے بات کی ہو، ان سے بحث و مباحثہ کیا ہو، ان سے علیک سلیک یا احوال پرسی کی ہو اور ان کی مسکراہٹ دیکھی ہو تب تم ان کی انسانیت کو درک کرسکتے ہو۔ میں دعویٰ نہیں کرنا چاہتا کہ میں ان کا خاص دوست تھا لیکن وہی کچھ لمحات جو میں نے ان کے ساتھ گزارے ہیں اور ان کی محبت اور مہربانی کو دیکھا ہے بڑی تلاش کے بعد بھی شمس لنگرودی کی کتاب میں اس کا نشان نہیں ملتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا نقص ہے۔

بعض چیزوں کے ساتھ صرف تجربہ کیا جاسکتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی ہے تاکہ صحیح شناخت حاصل ہوجائے۔ یہ پہلا نکتہ تھا جو شمس لنگرودی کے بارے میں کہنا چاہ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے یہاں اس کا موقع مل گیا۔ ایک دو نکتے اور بھی ہیں لیکن وہ اس وادی سے باہر ہیں اور ان کا بیان کرنا موضوع کو خشک کردے گا اور وہ استدلال، دلیل اور توجیہ سے مربوط ہے۔

پہلا نکتہ شمس لنگرودی کی کتاب کے بارے میں یہ ہےکہ جو ہم نے ادھر ادھر دیکھااور سنا وہ یہ ہے کہ کتاب میں جو سوالات بیان کئے گئے ہیں وہ مناسب نہیں ہیں اور  بعض سوالات کا بیان کرنا لازم نہیں تھا یا اگر لازم تھا تو مقدمہ کتاب میں ان سوالات کی وجہ بتائی جاتی یہاں پر ایک مہم چیز یہ ہے کہ ممکن ہے ہم بعض سوالات ک مناسبت کو صحیح تشخیص نہ دے پائیں لیکن وہ تعریف جو ہم نے ادبیات معاصر کی زبانی تاریخ کے لیے وضع کی ہے اور جو اہداف معین کیے ہیں اس اعتبار سے یہ سوالات ضروری اور لازمی ہیں۔ مثلاً وہ سوالت کہ جو گھر میں ماں باپ کہ تعلقات اور گھر میں باپ یا ماں کی ھاکمیت کے رواج سے متعلق ہیں۔

زبای تاریخ میں یہ موضوع اہمیت کا حمل ہے کہ داستان گو یا شاعر  نے اپنا لڑکپن کسی خاندان میں گزارا ہے اور بیشک یہ بات اس کی شخصیت، احساسات اور افکار کو سمجھنے میں بہت مؤثر ثابت ہوگی اور اس کی تاثیر ان کے اشعار اور داستان کی تاثیر سے زیادہ ہے  دوسرے لفظوں میں خاندان کی شناخت میں مدد کرتی ہے اور ادبی شخصیت کو سمجھنے میں کارآمد ہوتی ہے۔

اور اس طرح سے ان سوالات کو زبانی تاریخ کے کلیات کے آئینے میں دیکھنا چاہیے اور اس سے جدا کرکے دیکھنے  سے ہدف واضح نہیں ہوسکتا اور وہ دوست و احباب جو سوالات کے مناسب نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں  ان کو چاہیے کہ کوئی نمونہ پیش کریں تاکہ موضوع روشن ہوجائے۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ادبیات ایران کی زبانی تاریخ کے سوالات کو بے نقص سمجھیں۔ ایران کی زبانی تاریخ پہلی بار ملک میں اجرا ہوئی ہے اور وہ بھی سرکاری مالی تعاون کے بغیر لہذا اس سے پہلے اس میدان میں کوئی تجربہ نہیں تھا کہ جس سے کوئی فائدہ حاصل کیا جاتا اور یہ بات فطری ہے کہ وہ پہلا قدم ہمیشہ نقائص کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور ایک کا تعلق سوالات کے پیش کرنے سے ہے تو دوسرے کا  یہ کہ اس طرح کے منصوبے مالی تعاون اور امکانات کے نیاز مند ہے۔ اور اس طریقہ سے نظریات اور رائے پیش کرنے کے علاوہ دوسرے ساتھی بھی اس کام کی ہمت کرسکیں۔ ہمارے معاشرے میں اتنی مشکلات کے باوجود پبلشر پرنٹنگ کے لیے  راضی ہوجاتا ہے یہ خود شکر کا مقام ہے۔

اس لیے اس منصوبے میں کمی بیشی کا ہونا ایک فطری امر ہے اور اس جگہ یہ بات بھی کہہ دوں کہ اگر ادبی شخصیت کی مدد اور رہنمائی نہ ہوتی تو یہ کام یہاں تک بھی نہیں پہنچ پاتا اب بھی کتاب (شمس لنگرودی) کو جناب شمس صاحب نے بارہا پڑھا اس کی اصلاح کی، پروف ریڈنگ کی، مطالب کی جانچ پڑتا کی اور تصحیح فرمائی اگر ان کی اتنی دقت نہ ہوتی تو کتاب اس طرح سے قارئین کے ہاتھ نہیں پہنچتی اور میری بات اس معنا میں نہیں ہے کہ جن لوگوں نے انٹرویو لیے اور اس کو تنظیم کیا ان کی خدمات کو فراموش کردیا جائے۔ جناب کیوان بازن نے بھی کافی محنت کی ہے اور حقیر کی طرف سے جو اصلاحات کی گئیں جناب شمس صاحب نے اس میں دقت کی اور کتاب کے نقص کو برطرف کیا اس چیز سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے۔

جناب شمس لنگروی دوسری ادبی شخصیتوں کی طرح ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ بعض نظریات کو بیان نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ صحیح فرماتے ہیں اگر ہم اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھیں اور ہم سے یہ کہا جائے کہ جن شاعروں اور مصنفین سے تمہارا تعلق رہا ہے ان سب کے ساتھ بیتے ہوئے سارے واقعات اور نظریات کو بیان کرو تو ہم بھی بہت ساری باتیں کہنے سے پرہیز کریں گے لیکن جناب لنگرودی کہ متعلق میں کود گواہی دے سکتا ہوں جہاں تک ہوسکا انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ تمام باتوں کو بیان کریں اور وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اگر کوئی حادثہ یا خاص موضوع جو تاثیر گزار ہے اس کو حذف کر دیا جائے اور سب سے مہم یہ بات ہے کہ انھوں نے جو بھی بیان کیا وہ صادقہ ہے اور اس میں جھوٹ کا شائبہ نہیں ہے اس لیے یہ کتاب (شمس لنگرودی) معاصر ادبیات کی تحلیلوں میں ایک خاص توجہ کی حامل ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔

آخری بات ، میرا اور کتاب کا رابطہ ہے اور میرے خیال میں مجھے اتنا حق پہنچتا ہے کہ کتاب کی تعریف کروں یا کم از کم اس کے کچھ حصوں کو سراہوں۔ اس کتاب میں جناب لنگرودی قید خانہ کے زمانے کو بیان کرتے ہوئے عالمی نقطہ نظر سے ہم کنار نظر آتے ہیں۔ جب بھی میں کتاب کے اس حصہ کا مطالعہ کرتا ہوں  تو رونے لگتا ہوں۔ جس دن کتاب کی تقریب رونمائی تھی اس کی شب  میں میری ذمہ داری تھی کہ کتاب کے کچھ حصوں کا مطالعہ کروں اور اس کو تقریب رونمائی کے پروگرام میں پڑھوں اس وقت مطالعہ کرتے ہوئے جب میں اس حصہ پر پہنچا تو بے اختیار رونے لگا۔ پہلے میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس حصہ کو پروگرام میں نہ پڑھا جائے کیونکہ پروگرام میں رونا دھونا اچھی بات نہیں  پھر سوچا کہ مناسب نہیں کہ میں اس کو نہ پڑھوں اس کے بعد میں نے خود اپنے آپ سے وعدہ لیا کہ اپنے آنسوؤں کو ضبط کروں گا پروگرام کے وقت میں اپنے ضمیر کو بار بار کہہ رہا تھا کہ رونا نہیں، رونا نہیں، ہزار بہانوں اور بڑی محنت سے میں نے مطالعہ کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول کیا شاید یہ مطالب اس قدر تاثیر گزار نہ ہوں میں کچھ زیادہ ہی حساس اورجذباتی ہوگیا بہرحال میں نے پروگرام میں گریہ نہیں کیا لیکن جب بھی کتاب کے اس حصہ کو پڑھتا ہوں تو رونے لگتا ہوں اور اس بات کا ذکر جناب شمس سے بھی کیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4105


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔