سیف اللہ عباسی مقدم سے سہراب سپہری کے متعلق گفتگو

سہراب سپہری اور مہمانسرائے شربتی


2015-8-22


یہ خبر میرے جوان ساتھی مہدی عرشی نے مجھے دی کہ  کاشان کے  سابق مہمانسرائے شربتی کے ایک ملازم کے پاس سہراب سپہری کی ایک یاد گار پینٹنگ ہے، کیفے یا مہمانسرائے شربتی کو اہل کاشان اپنی عادی زبان میں مخفف بناتے ہوئے مہمانسرا کہتے ہیں اور جب یہ لوگ کسی کو خیابان رجائی سے ایڈریس دیتے ہیں تو اس مہمانسرا کو ابتدائی نکتہ قرا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ مہمانسرا کافی سال ہوئے ختم ہوچکا ہے اس کے باوجود یہ نام اہلیان شہر کو  اس قدر بھاتا ہے کہ بغیر پوچھے اس کی وضاحت میں لگ جاتے ہیں  ۔ کوئی سوال بھی نہیں کرتا اس مہمانسرا کے بارے میں لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک ہی مہمانسرا تھا اور وہ کیفے شربتی تھا بس ، ہماری جوان نسل مہمانسرا یا چائے خآنہ شربتی کو صرف دور سے جانتے ہیں۔ اس کی باتیں اور یادیں انھوں نے اپنے بڑوں سے سنی ہیں۔ لیکن جب بھی کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں کہ جس کی کو ئی یاد داشت ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اتنا بھی کو ئی دور نہیں بلکہ قریب تر ہے۔ اسی وجہ سے مہمانسرا میرے لئے ایک نمونہ اور ایک خاص دور ہے اور ایک ایسی جگہ کہ جو نامعلوم ہے اور مجھے چاہتا ہوں کہ اسے معلوم کروں کہ ایک روایتی فضا اور مذہبی شہر میں کس طرح سے سیر کا موقع ملا، شواہد و قرائن کی بنیاد ہر سہراب اپنازیادہ تر وقت مہمانسرا میں ہی گذارتا تھا بلکہ کچھ سال جو اس نے کاشان میں گذارے، اسی مہمانسرا میں گذارے ہیں، اس مہمانسرا کے ایک سابقہ ملازم کی بات دو طرح سے جذاب ہے ایک تو یہ کہ اس نے سہراب کو دیکھا ہے اور بغیر کسی سنسر کے اس نے زبانی تاریخ کہ جو سہراب سے متعلق تھی بیان کی۔ حتٰی کہ اس کے پاس اس کی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ بھی ہے دوسرے یہ کہ کم از کم  مہمانسرا کے بارے میں اس کی گفتگو اس کی پر اسراریت کو کم کر ے گی ۔

یہ عصر کا وقت جمعرات کا دن ہے کہ سیف اللہ عباسی مقدم کہ جو مہمانسرا شربتی کے سابقہ ملازم ہیں اور اب عباسیوں کہ دسترخوان کے ایک تخت پر بیٹھے ہیں چند سالو ں سے یہ یہاں کے کرتا دھرتا ہیں۔ شربت کہ جو انہوں نے ہی بنایا ہے اسے پینے کے بعد کہتے ہیں کہ انھوں نے سہراب کو دیکھا ہے اور اسی طرح اس پینٹنگ کو کہ جو اس نے میرے لئے بنائی تھی، اب اس بات کی کیا اہیمت ہے کہ وہ پینٹگ سہراب کے آثار سے مطابقت نہیں رکھتی؟ اس کے بعد کا کام ریسرچر حضرات کا ہے کہ جو اب یہاں طوفان کی مانند آئیں گے۔

 

ایسا کیا ہوا کہ آپ چائے خانہ شربتی میں مشغول ہو ئے؟

میں نیاسر کا رہنے والا ہوں ١۳۷۳ میں نیا سر کا ایک آشنا تھا کہ جو جناب شربتی کا ماموں تھا ان کی سفارش پر میں کاشان میں مشغول ہو گیا اس وقت میں ١۲ سال کا تھا تقریبا۴۹ ۔۵۰ میں پیدا ہوا ، میں ٦٦ میں یہیں تھا۔

 

یہ چائے خآنہ ٦٦ میں موجود تھا ؟

جی، جناب شربتی کاشان کے جانے پہچانے انسان تھے اور اثر ورسوخ والے بھی۔ لیکن افسوس کہ کچھ ایسے کام کیے کہ جن کی وجہ سے چائے خانہ بند ہو گیا۔ کچھ لوگ بیکار ہو گئے۔ خود شربتی صاحب بھی گھر بیٹھ گئے۔ مہمانسرا فضآ کے اعتبار سے، اسکی صورتحال س صرف نظر کرتے ہوئے کاشان کی بہترین جگہ تھے میں نے حساب لگایا ہے، ۵۵ سال پرانی عمارت تھی ۔

 

لوگوں کی نگاہ میں مہمانسرا کی کیا حیثیت تھی ؟

مہمانسرا ایک عالمی جگہ تھی۔ سارے آٹسٹ یہاں فلم بندی اور ڈارمے بنانے کے لئے آتے تھے۔ فلم جیسا کہ طوقی، آدمک، ذبیح در درشکہ چی، یہیں پر بنائی گئیں ہیں، ذبیح ہمدان میں بنی تھی۔ لیکن وہاں شوٹنگ کی اجازت نہیں ملی تو کاشان آگئے، حتیٰ اراک پولیس کا دفتر بھی مہمانسرا میں فلمایا گیا ہے، ڈرامہ سیریل، سمک عیار، بھی کاشان میں بنی ہے۔ انقلاب کے بعد فلم سفیر بنانے بھی یہیں آئے تھے ۔

 

کیا یہ ہوٹل و ریسٹورنٹ اور جو آج کل کہا جاتا ہے کافی شاب بھی تھا؟

جی جی ، ہوٹل امیراکبیر کاشان کا واحد بہترین ہوٹل تھا ، ارازل و اوباش قسم کے افراد کو آنے نہیں دیا جاتا تھا۔

 

پھر وہ کہاں جاتے تھے؟

وہ سب یوسف مختار کے ہاں جاتے تھے کہ جو یہودی تھا۔

 

میرے لئے سوال تھا کہ کاشان جس کی خاص فضا تھی اس حالت میں اس طرح کی جگہ کا ہونا اور اس میں جانے والے کیسے تھے، ان وقتوں میں فرق تھا بہت سےمذہبی تھے انقلاب کے بعد بہت سے تبدیل ہو گئے۔

 

جو لوگ آتے تھے ان کی وضع و قطع کیا ہو تی تھی؟

زیادہ تر فیلمیز ہوا کرتی تھیں شہر کے کرتا دھرتا اکثر راتوں کو یہاں آیا کرتے اور شب گذارا کرتے تھے، کو ئی دوسری جگہ نہ تھی ، حیف ہے کہ ابھی بھی کوئی اچھی جگہ شہر میں نہیں ہے، وہاں کہ جیسا کھانا کہیں بھی نہیں، اس وقت کے گوسفند و مرغ دیسی ہوا کرتے تھے۔ دوا والے نہیں تھے۔ لیکن اب سب کچھ کیمیائی ہو چکا ہے۔ ایک چوزہ ایک دن میں دو کلو کا مرغا بن جاتاہے۔ اس سے اس بات کی توقع نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مزیدار ہوگا۔ مہمانسرا بہت خوبصورت تھا۔  قدیم لکڑی کی کھڑکیاں، ان پر ریشمی رنگین پردے کہ جو دیواروں پر چڑھے کاغذ سے ہم آہنگ تھے۔ ہال کے فرش پر بہترین پینٹنگ تھی یہاں کوئی اجنبی پن کا احساس نہیں کرتا تھا اسکی راتیں کے تو کیا کہنے ، بہت اچھا تھا۔

 

پہلی بار سہراب کب یہاں آیا ،کچھ یاد ہے ؟

سہراب ہمیشہ یہاں آیا کرتا تھا، دو سال میں تین ماہ کے اردگرد خزاں کے دنوں میں یہاں آتا تھا وہ اکثر کاشان میں رہتا اور اس کی اقامت گاہ یہی مہمانسرا تھی۔

 

یہاں کیوں ؟ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں گیا ؟

اس کے والد کا گھر تو تہران میں تھا، وہ خود بھی تہران میں تھا لیکن اس کے سفر زیادہ ہو تے تھے، ایسا لگتا ہے کہ اس نے گھر پا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سہراب کے والد کا گھر دروازہ عطار ہے، لیکن میں نے نہیں سنا کہ سہراب کے والد کا گھر کاشان میں تھا۔

 

پھر وہ کیوں کاشان آتا تھا ؟

وہ زیادہ تر تفریح کے لئے یہاں آتا جاتا تھا وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ نہیں آیا۔ میں نے اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اکیلا افسوس کہ اس نے شادی بھی نہیں کی ۔

 

کیوں نہیں کہ ؟ کیا وجہ تھی ؟

مجھے لگتا ہے کہ وہ اس بات کو جانتا تھا کہ اسے کینسر ہے اور جب کسی کو ایسی بیماری کی خبر ہو تو آدھا تو وہ ویسے ہی مر جاتا ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ کیوں میرے بعد میرے بیوی بچے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں۔

 

سہراب سگریٹ پیتا تھا ؟

نہیں۔

واقعی؟

ہم ہر روز اس کے کمرے میں جاتے صبح صبح جا کر دیکھتے کہ مسافر ہیں یا چلے گئے، کمرہ خالی ہے یا نہیں، سہراب کے کمرے میں جا تے تھے ، لیکن کبھی بھی کوئی مشروب نہیں دیکھا، نہ کو ئی سیگریٹ ،اگر پیتا ہوتا تو ایش ٹرے ضرور  بھر جا تی، ہاں نماز پڑھتا تھا میں نے خود دیکھا ہے نماز پڑھتے ہو ئے۔


پابندی سے پڑھتا تھا؟

ہاں ہمیشہ اپنے افکار میں گم رہتا تھا۔

 

آپ جانتے تھے کہ کون ہے اور کیا کام کرتا ہے؟

کاشان میں تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ اسٹوڈنٹس اس کے پاس آتے ہیں اور ان کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں انھیں پہچانتے ہیں، ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں، ان دنوں کیمرہ کمیاب تھا، شاید ۳۰ ۔۴۰  گروہ میں کسی ایک کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا اور وہ بھی کالج کا یا پھر کسی استاد کا ہوتا آج کی طرح نہیں تھا کہ ہر ایک کے پاس دو دو موبائل ہیں۔

 

سہراب کے بارے میں آپ کچھ کہہ رہے تھے؟

سہراب کے اپنے خاص عقائد تھے کاشان میں کوئی نہیں جانتا تھا لوگ اسے دیوانہ کہا کرتے تھے۔

 

مگر وہ کیا کیا کرتے تھے ؟

اگر ایک پتہ کو توڑا جاتا یا ایک حیوان کو زبح کیا جاتا تو وہ افسردہ ہو تے تھے۔

 

تو کیا آپ ان کے ساتھ باہر بھی جا تے تھے؟

نہیں، راتوں کو ان کے ساتھ بیٹھتے اور ان سے باتیں کرتے، بہت سی باتیں اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ بعد میں سمجھ میں آئیں۔

 

مثلا وہ کیا کہا کرتے تھے؟

وہ بہت زیادہ احساساتی اور محبتی تھا، حد سے زیادہ، کہا کرتاتھا کہ برے انسان کو بھی کام کرنے کا موقع دینا چاہیے، رات کے آخری پہروں میں کہ جب سارے گاہک چلے جاتے تو ہم صبح ۵ بجے تک بیٹھ کر باتیں کرتے۔

 

آپ کے ساتھ گرم جوشی سے ملتے تھے؟

خدا آپ کا بھلا کرے، کبھی کبھی تو انعام بھی دیا کرتے تھے مجھے شرم آتی وہ بہت اسرار کرتے میں نہیں لیتا۔

 

کتنا دیا کرتے تھے؟

اس وقت کے حساب سے ١۰ تومان بہت ہوا کرتا تھا، جتنے دنوں میں نے وہاں کام کیا کسی ایک سے بھی نہیں کہا کہ مجھے انعام دو، میں اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ ہم اپنی زمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ باقی سب گاہک کے اپنے کرم پر ہے۔ کبھی انعام ملتا تو اس میں کچھ اور ملا کر پھل و مٹھائی وغیرہ لیکر ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھاتے۔

 

تو آپ مہمانسرا ہی میں سوتے تھے؟

بچپن میں ہی کاشان آیا جب تک شادی نہیں اور مستقل نہیں ہوا یہیں سویا کرتا تھا، دفتر کا چوکیدار تھا کا رخانے کے انجینئرز کو کہ جو آدھی رات میں آیا کرتے تھے انھیں کمرہ دینا ضروری تھا میں انھیں کمرہ دیا کرتا تھا۔

 

سہراب کیا کہا کرتا تھا کیا آپ یہ سوچا کرتے تھے کہ ان کی باتیں الگ ہیں؟

محمد تقی جعفری تو آپ کو یاد ہوں گے۔ ۸۰ فیصد افراد ان کی باتیں نہیں سمجھتے تھے سہراب کی باتیں بھی ایسے ہی تھی ۔

 

کیا آپ یہ بات جانتے تھے کہ سہراب نے ایک کتاب بھی لکھی ہے؟

اس وقت تو نہیں تھی، اسکی کتابیں انقلاب کے بعد سامنے آئیں ہیں، کاشان میں تو کو ئی جانتا ہی نہ تھا۔ سہراب ہمیشہ ایک دوکاندار سے پھل لیا کرتا تھا کہ جس سے ہم لوگ مہمانسرا کی خریداری کیا کرتے تھے، جب ہم کچھ خریدنے اس کے پاس جایا کرتے تھےتو وہ کہتا کہ یہ داڑھی والا آدمی کہ جس کی گاڑی کااسٹیرنگ باہر ملک کی گاڑی کی طرح ہے، پاگل ہے؟ لو گ اس کے بارے میں ایسا سوچا کرتے تھے ہم بھی نہیں جا نتے تھے کہ یہ شاعر ہے ۔

 

پس زیادہ تر وہ اپنی پینٹنگز کی وجہ سے مشہور تھے ؟

جی انقلاب کے بعد تو وہ مشہور ہو گیا، میں بھی سن ۵۴،۵۵ میں سمجھا کہ وہ مصور ہے برش کو کاغذ پر رکھتا اور پھر کہیں نہ دیکھتا بناتا رہتا ہے، کاریگروں کی تصاویر بناتا تھا پھر انھیں تحفہ دیتا بہت سوں نے بعد میں پھاڑ دیں۔ لیکن میں نے سنبھا ل کررکھی ہے سہراب کا ایک استاد بھی تھا ایک بوڑھا۔

 

یہ بوڑھا کون تھا ؟

نام مجھے یاد نہیں تقریباً ۷۵ سال کا ہو گیا تھا لیکن سرحال تھا، سہراب ان کا بڑا احترام کیا کرتا تھا۔

 

 کب معلوم ہوا کہ وہ شاعر بھی ہے ؟

انقلاب کے بعد ۵۷ میں۔

 

کیسے معلوم ہوا ؟

ایک صاحب جو اس کے استاد تھے وہ آئے تو کام کرنے والوں نے پوچھا کہ کون ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ شاعر ہیں اور جناب سپہری کے استاد ہیں۔ ہم اس زمانے میں بہت سی باتوں کو نہیں جانتے تھے، اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ یہ ایک ایسی شخصیت ہیں۔

 

انقلاب کے بعد ان کی کتابیں بھی خریدیں؟

جی، ڈاکڑ شریعتی و استاد مطہری کی کتابیں بھی ہیں میرے پاس۔

 

ان کے اشعار میں سے کچھ یاد ہے؟

حفاظہ ساتھ چھوڑ گیا ہے ۔

 

ایسا کیا ہواتھا کہ آپ کے لئے یہ پینٹنگ بنائی؟

جب چنار کے دیہاتوں سے دیر میں آیا کرتے تھے تو پھر وہ چائے خآنے میں نہیں رکتے تھے سیدھے اپنے کمرے کی جانب چلے جاتے تھے۔

 

یہاں کیوں نہیں سوتے تھے؟

نہیں معلوم ،وہ اپنی جیپ میں آتے جا تے، انکی گاڑی کا اسٹیرنگ ہماری گاڑیوں کے برعکس تھا۔ میرے خیال میں گاڑی امریکی تھی، اکثر خزاں کے موسم میں کاشان میں ہوتے اور سردیوں میں تہران چلے جاتے۔ عید و بہار میں دوبارہ چلے آتے، اس وقت یہ سب گاوں تھا نہیں معلوم کیوں ؟

 

جب وہ کمرے میں گئے تو کیا ہوا؟

مجھ سے پوچھا عاشق ہو، میں نے کہا نہیں، میں ١۷ ، ١۸ سال سے زیادہ کا نہ تھا، مجھے  ایسی چیزوں کا علم نہیں تھا۔ مجھ سے کہا کہ اگر میں تمہاری تصوریر بناوں تو سنبھال کر رکھو گے؟  بچہ تھا اور اسی سوچ میں میں نے کہا کہ جتنا ہو سکے گا حفاظت کروں گا ، تو انھوں نے کہا، یہ کیا بات ہوئی، سنبھال کے رکھو گے یا نہیں؟ میں نے دوبارہ کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا جب تک زندہ ہوں اور سنبھال سکا تو سنبھالوں گا، سچ پوچھیئے تو یہ پوٹریٹ میں گم کر بیٹھا تھا، چند ماہ قبل مجھے کتابوں کے درمیان میں سے ملی ہے ، پھینکی نہیں تھی میں نے، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ تصویر کا کیا ہوا کہ اچانک ایک دن یہ مجھے دوبارہ مل گئی۔

 

سہراب سیاسی تھے؟ سیاست کے بارے میں کبھی کوئی گفتگو ہوئی ؟

میں نے بہت کوشش کی کہ انھیں سیاست کی جانب کھینچوں لیکن اس مسئلے میں میں انکا حریف نہ بن سکا، کبھی بھی سمجھ نہ پایا کہ وہ سیاسی ہیں یا نہیں کبھی ظاہر نہیں ہو نے دیا۔ البتہ جب ایک سال یا چھ مہینے کے لئے باہر جاتے تھے۔ انقلاب کے بعد جب ہر طرف سیاسی باتیں ہوتی تھیں تو کہتے کہ رہنے دو اپنی باتیں کرو بعد میں پتہ چلا کہ سیاسی باتیں انھیں اچھی ہی نہیں لگتی تھی۔

 

اخبار پڑھا کرتے تھے ؟

نہیں، کتابیں زیادہ پڑھا کرتے تھے، میں خود روزنامہ اطلاعات کا طرفدار تھا، سہراب کی کتابیں خارجی تھیں، ان کے کمرے کی میز کتابوں سے بھری ہوتی، ایرنی کتابیں نہیں پڑھا کرتے تھے لیکن مجھے زبان کا نہیں پتہ کہ کتابیں کس زبان میں تھیں۔

 

سہراب کے بارے میں کچھ اور ہے کہنے کو ؟

کوئی نہ سمجھا کہ سہراب کون ہے ان کے جگری دوست ڈاکڑ مدیحی اور ڈاکڑ فلسفی تھے لیکن وہ یہاں نہ آئے۔ کانفرنس اور سیمنار میں انھیں پہچنوایا اور کہا کہ اے لوگو تمہارے درمیان ایک ایسا تھا اس پر فخر کرو ،جب تک لوگ زندہ ہوتے ہیں ہم ان کے لئے کوئی کام ہی نہیں کرتے جب اسے کچھ ہو جاتا ہے تو اس کی موت کے بینر بنواتے ہیں پھول خریدتے ہیں اب کاشان میں کون ہے جو نمونہ بن سکے؟ جوان کس کی بات مانیں؟ اسی وجہ سے میری نگاہ میں شہر کے لوگ بڑے قصور وار ہیں انھوں نے کوتاہی کی ہے۔ اب بھی بہت سے ایسے ہیں کہ جو نہیں چاہتے کی شہر میں ترقی ہو ۔

مترجم ،علوی



 
صارفین کی تعداد: 5177


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔