مسعود تہرانی سے گفتگو

شہید رجائی اپنے شاگرد کی زبانی


2015-8-22


اب تک شہید رجائی کے بارے میں سیاسی مطالب ہی بیان ہوئے ہیں لیکن ان کے اس زمانے کے واقعات کہ جب وہ استاد تھے، بہت کم لوگوں نے سنے ہونگے۔ اسی وجہ سے ہم ایک ریٹائرڈ ٹیچر اور ان کے شاگرد جناب مسعود تہرانی کے پاس پہنچے، تاکہ شہید رجائی کی تدریس کی روش اور ان کے کلاس روم میں اپنے شاگردوں سے برتاو کو جانا جائے۔ہم آپکو اس گفتگو کی مطالعے کی دعوت دیتے ہیں۔

 

موسیٰ خان: آپ نے ہماری دعوت کو قبول کیا اور ہم سے گفتگو کی حامی بھری اس بات پر ہم آپ کے منمون ہیں، سب سے پہلے تو ہمیں یہ بتائیے کہ آپکی تاریخ پیدائش کیا ہے اور جن مدارس میں آپ نے پڑھا ہے اور جہاں تک پڑھا ہے بیان فر ما دیجئے۔

تہرانی: میں مسعود تہرانی یکم شہریور ۱۳۳۵ کو تہران میں پیدا ہوا اور ابتدائی چھ سال میں بندار رازی حالیہ شہید جہان آرائی اسکول  کہ جو لرزادہ خیابان پر ہے ، میں تعلیم حاصل کی، پھر ہائی اسکول کی تعلیم میر داماد کہ جو میدان شاہ کی جانب ہے وہاں حاصل کی، اس وقت  ہائی اسکول تین سالوں میں تقسیم تھا، پہلا دورہ ساتویں سے نویں سال تک کا تھا، دوسرا دورہ دسویں سے بارہویں تک کا، میں دوسرے دورے میں تھا کہ جہاں طالب علم کو اپنا سبجیکٹ  معین کرنا ہوتا تھا میں نے سائنس کا انتخاب کیا، شہید رجائی ہمارے اسکول کے دوسرے سیشن کے ریاضی کے استاد تھے۔

 

 موسیٰ خان: آپ نے اس اسکول میں کتنے سال آپ نے پڑھا ہے ؟

تہرانی: ۱۳۴۷ میں داخل ہوا اور ۱۳۵۳ میں فارغ التحصیل ہوا، مرحوم رجائی آخری تین سالوں میں یعنی ق۳۵۰ سے ق۳۵۳ تک ہمارے معلم تھے۔

 

موسیٰ خان ،وہ کیا پڑھاتے تھے ؟

تہرانی: الجبرا، جیومیڑی، ٹینگنو میڑی۔

 

موسیٰ خان: ان کی پہلی کلاس آپ کو یاد ہے؟

تہرانی: کیوں کہ بہت عرصہ بیت چکا ہے لہذا مجھے یاد نہیں لیکن میرے ذہن میں جو ہے وہ بتا دیتا ہوں۔

 

موسیٰ خان: جب وہ کلاس میں آتے تھے تو کیا خاص بات تھی ان میں، کیا خصوصیات تھیں؟

تہرانی: یہ رسم بن گئی تھی کہ شہید رجائی کے کلاس میں آنے سے پہلے بعض طالب علم بورڈ پر کو ئی آیت کو ئی حدیث لکھ دیا کرتے تھے ١۰ منٹ تک وہ اس پر بات کرتے پھر درس شروع ہوتا، وہ بہت اچھا پڑھاتے جبکہ انکا قد چھوٹا تھا لیکن ان میں جذبہ بہت تھا۔

 

موسیٰ خان: کیا انھوں نے خود یہ بات کہی تھی کہ انکے آنے سے قبل بورڈ پر آیت و حدیث لکھی جا ئے ؟

تہرانی: مجھے صحیح یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ وہ کلاس میں آ کر ۵ یا ١۰ منٹ ہمیں نصیحت کیا کرتے تھے بہت سے طالب علم مذہبی تھے آیت و روایت کا انتخاب کر کے خود ہی لکھا کرتے تھے۔

موسی خان: کیاوہ سیاسی مسائل کو بیان کرتے تھے یا صرف اخلاقی باتیں ہی کرتے تھے؟

تہرانی: اخلاقی اور سیاسی دونوں باتیں کیا کرتے تھے جہاں تک مجھے یاد ہے کہا کرتے تھے کہ ظلم و جور کے مقابلے میں کھڑا ہونا ضروری ہے اپنی راہوں کا انتخاب کرو۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا تھا مجھے معلوم ہے کہ میں اس طرح کی باتیں کر کے کلاس کا وقت لیتاہوں لیکن میری ذمہ داری ہے کہ اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر کرو ں، ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے۔

 

موسیٰ خان: طالب علم ان کی کلاس میں شیطانی کیا کرتے تھے ؟

تہرانی: نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوتا تھا وہ کلاس کو چھوڑتے ہی نہیں تھے ہمیشہ طالب علم مشغول رہتے تھے یا درس ہو رہا ہوتا یا سوالات حل ہو رہے ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے دانتوں میں درد تھا جس کی وجہ سے میں کام نہ کر سکا۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے درد ہے میں کام نہیں کر سکا ،انھوں نے کہا کو ئی بات نہیں۔

ان دنوں مشتق کی بحث تھی جب سوالات حل ہو گئے تو میری جانب رخ کر کے کہا کہ، جناب دانتوں کے درد والے، اس مشتق کو بورڈ پر حل تو کرو۔ قسمت اچھی تھی وہ سوالات مجھے حل تھے میں بورڈ پر گیا اور حل کر ڈالا۔

 

موسیٰ ۔یعنی وہ ہوم ورک دیکھا کرتے تھے ؟

تہرانی: جی، ہمیشہ دیکھا کرتے تھے اور یہ ان کے روز کے پروگرام کا حصہ تھا۔

 

موسیٰ خان: آپ کی کلاس میں کتنے لوگ تھے؟

تہرانی :۳۰ سے زیادہ تھے۔

 

موسیٰ خان: وہ کلاس میں کس طرح رہتے تھے ان کا رویہ کیسا تھا ؟

 تہرانی: ایک جاذب نظر انسان تھے بہت محترمانہ رویہ ہوتا تھا ان کا رعب اتنا تھا کہ کسی کی مجال ہی نہیں تھی کہ وہ کلاس میں بدنظمی پھیلاسکے، مذاق کر سکے۔

 

موسیٰ خان: انھیں کبھی ہنستے  ہو ئے دیکھا ؟

تہرانی: نہیں مجھے یاد نہیں، ان تین سالوں میں کبھی کبھی کوئی موقع آتا کہ وہ تبسم کرتے لیکن ہنسنا اور وہ بھی بلند آواز سے ہنسنا، نہیں۔

 

موسیٰ خان: وہ سوالوں کو خود حل کیا کرتے تھے یا طالب علموں سے حل کرواتے تھے؟

تہرانی: وہ خود یہ کام کیا کرتے تھے یا پھر ان کی نظارت میں یہ کام ہوتا۔

 

موسیٰ خان: کیا وہ طالب علموں کو سزا دیا کرتے تھے یا ان کی توہین کیا کرتے تھے ؟

تہرانی: نہیں کبھی نہیں، بس ایک ہی نگاہ طالب علم کے لئے کافی تھی، میں پھر کہوں گا کہ وہ بہت رعب دار تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب طالب علم کی توہین اور مارپیٹ عام تھی وہ ایک مذہبی اور اچھے استاد تھے اگر کو ئی شرارت کر بیٹھتا تو اسے مارنے پیٹنے کے بجائے اس سے بات کرتے۔ میں نے ان تین سالوں میں انھیں کسی کو مارتے نہیں دیکھا ۔

 

موسیٰ خان: وہ طالب علم کی علمی سطح کے بارے میں کیسے تھے ؟

تہرانی: مرحوم رجائی نے کلاس میں کئی بار یہ جملہ بیان کیا کہ آپ کالج جانا چاہتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ بغیر پڑھے لکھے کوئی کالج جا ئے، مجھے یاد ہے کہ اسی سال دو کلاسیں ریاضی میں فیل ہوگئیں اور انھیں دوبارہ امتحان دینا پڑا۔ وہ اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ علمی سطح قابل قبول حد تک بڑھے پھر اوپر کی کلاس میں جائے۔

 

موسیٰ خان: کیا وہ ترقی پاس کیا کرتے تھے؟

تہرانی: جی نہیں۔

 

موسیٰ خان: دوران تدریس کبھی گرفتار ہوئے؟

تہرانی ،١۳۵۳تعلیمی سال کے اختتام پر انہیں گرفتار کرلیا گیا، ان کی گرفتاری کی خبر میں نے طالب علموں سے سنی تھی وہ یہاں آخرسال تک معلم ہی تھے، کیوں کہ میرا آخری سال تھا۔ عید کے بعد زرا جلدی چھٹیاں پڑ گئیں اردیبہشت یا خرداد میں، مجھے صحیح طرح یاد نہیں، کہ انھیں کب گرفتار کیا گیا۔

 

موسیٰ خان: آیا کو ئی اور استاد ہے کہ جو مرحوم رجائی سے نزدیک ہو ؟

تہرانی: جی جناب حسینی کہ جو فلسفے کے استاد تھے اور ۷ تیر ١۳٦۰ کے دھماکے میں شہید ہو گئے وہ ہمارے پرنسپل تھے۔

 

موسیٰ خان: کیا سائنس کے شعبے میں فلسفہ بھی ہوتا ؟

تہرانی: اس وقت منطق اور فلسفہ عام طور پر پڑھایا جاتا تھا ، جو بارہویں تک لازم تھا۔

 

موسیٰ خان: کیا حسینی صاحب کلاس میں سیاسی باتیں کرتے تھے؟

تہرانی: نہیں ایسا نہیں تھا لیکن مرحوم رجائی جیسا کہ پہلے میں کہا کہ بالوسطہ سیاسی مسائل بیان کیا کرتے تھے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ نارمک میں جو کمال اسکول ہے وہاں بھی شہید رجا ئی پڑھا یا کرتے تھے۔

 

موسیٰ خان: آپ اس گفتگومیں شریک ہو ئے، بہت شکر یہ ۔

مترجم علوی



 
صارفین کی تعداد: 4711


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔