سید نور الدین عافی کی یادیں
یہ مقدر میں نہیں تھا
انتخاب: فریبا الماسی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-10-21
ستمبر 1982 کے اواخر میں آپریشن شروع ہونے میں دو تین دن رہ گئے تھے. ہمارے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ کریم اور محمود ستاری- جو کہ بھائی تھے- اور میرا بھائی سید صادق آئے اور کہنے لگے: "آؤ پانی کی طرف چلیں".[1] خزاں کے ابتدائی دنوں کی صبح تھی اور موسم تھوڑا ٹھنڈا ہو رہا تھا لیکن میں نے انہیں منع نہیں کیا اور ہم ساتھ چلے گئے. ان چند دنوں میں ہمارے ساتھی دوپہر کی گرمی میں نہانے اور تیراکی کے لیے وہاں جایا کرتے تھے. ہمارے پہنچنے تک سورج کی گرمی بڑھ چکی تھی. ہم پانی کے کنارے بیٹھ گئے اور نہانے کی تیاری کرنے لگے کہ صادق نے آواز لگائی: "وہاں دیکھو! ایک ساتھی ڈوب رہا ہے!"
... نہیں بھئی!
... دیکھو وہ لڑکا ڈوب رہا ہے!
وہ سچ کہہ رہا تھا. ایک شخص پانی میں ہاتھ پیر مار رہا تھا. وہ کبھی اوپر آرہا تھا کبھی نیچے جارہا تھا لیکن اس کے آس پاس کسی کی بھی توجہ اس کی جانب نہیں تھی. میں نے بغیر دیر کیے ڈپکی لگائی اور جلدی سے اس تک پہنچ گیا. میں پانی کے نیچے گیا اور اس کے پیروں کو اوپر کی طرف دھکیلنے لگا تاکہ اس کا سر پانی سے باہر رہے. وہ اللہ کا بندہ بھی جیسے ہی پانی کے اوپر آیا تو اس نے میرے سر کے بال پکڑے اور مجھے پانی میں ڈبا دیا اور میری گردن پر کھڑا ہو گیا. میرے منہ میں بہت سارا پانی جا رہا تھا؛ میں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن میں خود کو اس کے شکنجے سے چھڑا نہیں پایا. اب میں خود ڈوب رہا تھا، میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں اس کے پیٹ میں کچھ گھونسے ماروں تاکہ وہ مجھے چھوڑ دے. میں نے بہت مشکل سے اسے بھی پانی سے باہر کھینچا، لیکن میری سانس پھول چکی تھی اور میرے پیٹ میں اس سے بھی زیادہ پانی جا چکا تھا. ہم نے بڑی مشقت سے نگلا ہوا پانی باہر نکالا. اس وقت میں نے اسے پہچانا؛ وہ "محمد رضا چمیدفر"[2] کا چھوٹا بھائی تھا. اس واقعے کے ساتھ ہمارا نہانا دھونا اپنے اختتام کو پہنچا. ہم نے اپنے کپڑے پہنے اور اس گڑھے سے اوپر کی طرف چلنے لگے.
آہستہ آہستہ بٹالین کی جگہ نظر آنے لگی. ہم اس کچے روڈ پر جہاں سے بہت سی گاڑیاں گزرتی تھیں بٹالین کی طرف چل رہے تھے کہ شاید کوئی گاڑی آئے اور ہمیں بھی بٹھا لے، لیکن ہم جہاں بھی نظر گھما کر دیکھ رہے تھے تو ہمارے ساتھی پیدل ہی ٹیلے کی طرف چل رہے تھے. کچھ لمحوں بعد سڑک پر گاڑی کا گرد و غبار دکھا. بٹالین کی سپلائز کی گاڑی تھی جو کھانے کی بڑی بڑی دیگوں کو فورسز تک پہنچاتی تھی. اس کا ڈرائیور مراغے(شہر) سے تھا، اس نے تھوڑا آگے گاڑی روکی تاکہ ہم بھی سوار ہو جائیں. جیسے ہی ہم گاڑی کے پاس پہنچے تو ہمارے ساتھی لڑ بھڑ کر اوپر چڑھ گئے اور ہر کوئی کہیں نہ کہیں لٹک گیا. صادق بھی گاڑی کے پیچھے سوار ہو گیا اور صرف میں رہ گیا! ڈرائیور نے مجھے آواز دی: "سید صاحب آپ بھی آجائیں سوار ہو جائیں!"
... کہاں سوار ہو جاؤں، جگہ ہی نہیں بچی!"
ڈرائیور نے آگے بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو گاڑی کے پیچھے بھیجنا چاہا لیکن میں نے منع کر دیا؛ میں نے کہا: "آپ جائیں میں پیدل آنا چاہتا ہوں!". میرے بھائی نے جیسے ہی دیکھا کہ میں سوار نہیں ہوا تو وہ بھی گاڑی سے نیچے کود پڑا. کریم ستاری بھی اتر گیا اور گاڑی چلی گئی. کھانے سے بھری ہوئی دیگوں کے بوجھ کے علاوہ بارہ تیرہ لوگ بھی گاڑی سے لٹکے ہوئے تھے اور گاڑی بہت مشکل سے ٹیلے کی ڈھلان سے اوپر جا رہی تھی. چند لمحوں بعد ہم نے عراقی طیاروں کی آواز سنی. ہم ٹیلے کے اوپر پہنچ گئے تھے اور بٹالین کی جگہ سے ہمارا فاصلہ 800 میٹر سے بھی کم تھا. ابھی تک گاڑی بٹالین تک نہیں پہنچی تھی، لیکن وہ ہموار جگہ پر چل رہی تھی جو طیارے کے لیے ایک آسان نشانہ تھا. ہم نے دیکھا کہ ایک طیارے نے گاڑی کی طرف غوطہ لگایا. میرے دل سے آہ نکلی: "اب وہ گاڑی کو نشانہ بنانے والا ہے!"
ہم تیزی سے دوڑ رہے تھے لیکن چند سیکنڈوں میں طیارے سے نکلے میزائل نے گاڑی کو ہوا میں اڑا دیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے سب کچھ بکھر گیا. ہمارے ساتھی، کھانے کی دیگیں، ٹائر وغیرہ. ہم جب پہنچے تو ہم نے اپنے ساتھیوں کے ٹکڑے ہوئے بدن دیکھے. ہم سب کی حالت خراب ہوگئی تھی. ہماری آنکھوں کے سامنے جو منظر تھا وہ بہت تکلیف دہ تھا. ان لوگوں میں سے صرف سپلائز کا انچارج ہی زندہ بچا تھا جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں اور اس کا پیٹ پھٹ چکا تھا، اسے پیچھے کی طرف منتقل کر دیا گیا. جہاں تک ہو سکا ہم نے باقی جنازوں کو اٹھالیا. ایک گھنٹے بعد بٹالین کی طرف سے ایک لوڈر آیا اور اس نے گاڑی کی باقیات اور جو کچھ بھی بچا تھا اسے مٹی سے چھپا دیا تاکہ اس منظر کو دیکھ کر ہمارے ساتھیوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو. اسی دن ہم نے سنا کہ اس حادثے میں بچ جانے والا اکیلا زخمی بھی راستے میں شہید ہو گیا ہے.[3] تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ اس دن میں اور صادق بمباری میں زندہ بچ جائیں اور اپنے فوجی ساتھیوں کی شہادت کے گواہ بن جائیں. صرف خدا جانتا تھا کہ کچھ دنوں بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا![4]
[1] اس علاقے میں جہاد نے دریائے سومار میں ایک چھوٹا سا بند بنا دیا تھا کہ جہاں کافی پانی جمع ہوتا تھا اور تالاب سے دوستوں کی مراد وہی جگہ تھی.
[2] محمد رضا چمیدفر سوسنگرد اور بستان میں آذربائیجان کی پرانی فورسز اور اس بڑے کارنامے میں بچ جانے والے گنے چنے لوگوں میں سے ہیں.
[3] مجھے لگتا ہے کہ وہ گاڑی شہید صدوقی بٹالین کی تھی جس کی سپلائز کے انچارج شہید قربانعلی بجانی بھائی بھی شہید ہو گئے.
[4] سپهری، معصومه، نورالدین پسر ایران؛ خاطرات سید نور الدین عافی، تهران، شرکت انتشارات سورہ مہر، 1390(2011)، ص 110.
صارفین کی تعداد: 199