تم جلدی کیوں جاگے؟

ترجمہ: محب رضا

2024-5-11


ژیان پناہ ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے جیل میں دوستوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور ان کےخاندانوں کی جانب سے ہڑتال کا باعث بنے۔ ایک روز میں وقت سے پہلے بیدار ہو گیا ، اس  زمانے میں وہاں  ایک بستر،تین منزلہ  تھا ، اور میں سب سے اوپر تھا ۔  نچلی منزلوں پر بھی اچھے  دوست تھے۔ جب میں بستر سے نیچے اترا تو استوارمرادی نے مجھے دیکھ لیا، یہ میرا  ہر رات کا معمول تھا، لیکن آج کیا ہوا تھا ،مجھے نہیں معلوم ۔ صبح درست آٹھ بجے کا وقت تھا جب انہوں نے مجھے پوچھ گچھ کے لیے  بلا لیا، جب  میں وہاں پہنچا اورجیسے ہی مرادی کے سامنے کھڑا ہوا تو اس نے مجھے دائیں اوربائیں گال پر  دو تھپڑ مارے اور بولا۔"اتنی جلدی کس لیے جاگے تھے، تمہارا منصوبہ کیاتھا؟ "میں نے کہا؛" خدا کی قسم، میرا کوئی منصوبہ نہیں تھا، میں نماز پڑھنے اٹھا تھا"۔ بولا،"بالکل  نہیں"، اس نے مجھے مزید دو تھپڑ مارے اور پھر وہ مجھے سیڑھیوں کے نیچے ایسی جگہ لے آیا جہاں صحن میں کھڑے افراد دیکھ  نہیں سکتے تھے۔بولا،"تمہیں سو بار اٹھک بیٹھک کرنا ہے"وہ میرے سر پرکھڑا تھا اور اسکے ہاتھ میں ڈنڈا بھی تھا  ، اس کے بعد سارجنٹ نظری  بھی  آ کر کھڑا ہوگیا،کہنے لگے: "سو بار بیٹھواور کھڑے ہو" میں نے بھی اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا، چالیس  تک پہنچا تھا کہ اچانک  میرا توازن بگڑ ا اور پاوَں مڑ گیا ، میں  پشت کے  بل زمین پر گرا اور میرا سر کنکریٹ کی دیوار سے اتنی زور سے ٹکرایا کہ آسمان میرے سر کے گرد گھوم گیا اور سر پر چوٹ لگ گئی ۔اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا؛"واپس اپنے بیرک میں جاوَ"،اور  میں نے باقی سزا پوری نہیں کی ۔ جیل میں نماز کا مسئلہ  خصوصاً باجماعت نماز کا مسئلہ حکومت کے لیے بہت پریشان کن تھا، شاید اس عمل کو روکنے سے وہ چاہتے تھے کہ مذہبی افراد  کا جذبہ کم کرکے انہیں ڈرا دھمکا سکیں ،  یا شایداس طرح  وہ پوری جیل میں اپنی حاکمیت کو زیادہ سے زیادہ لاگو کرنا  چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے، تیس کے لگ بھگ وہ افراد  جو نمازی تھے، انہیں چند دن کے لیے انفرادی سیل میں منتقل کر دیا   اور ان میں سے چند افراد کو تفتیشی سیل میں کوڑے  بھی مارے گئے۔ میں بھی  ان لوگوں میں سے ایک تھا جو دیگر زندانیوں کو متحرک کرنے  میں شامل تھا، اس لیے مجھےتقریباً آٹھ دن تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور پھر دوبارہ جیل واپس بھیج دیا ۔

بظاہر، ان افراد کی  جیل میں کی جانے والی مزاحمت، ان کے گھر والوں تک منتقل ہو گئی اور بعض علماء اور مراجع کرام بھی اس  احتجاج میں شامل ہو گئے، اس صورتحال نے انہیں اپنا حکم واپس لینے پر مجبور کیا۔ ان کا عذر یہ تھا کہ کہتے تھے :" تمہارے جیسے قیدی،  اس قسم کی حرکت سے کوٹھری اور بیرک کا نظم و ضبط خراب کرتے ہیں اور دوسروں کے لیے خلل ایجاد کرتے ہیں، اورہر کوئی جو کہیں بھی سو رہا  ہوتا ہے، جب ہم اٹھتے ہیں تو سب کو ساتھ اٹھنا پڑتا ہے"۔ ویسے یہ جیل ،ایک سیاسی جیل تھی اور اس کا ماحول دوسری جیلوں سے مختلف تھا، یعنی یہ کبھی بھی طے شدہ معمول پر نہیں  چلتی تھی اور اسکا ماحول سیاسی حالات سے متاثر ہوتاتھا۔ جیل سے باہر کے تمام مسائل جیل کے حالات پر اثر ڈالتے تھے، قیدیوں سے متعلق تمام مسائل، قیدیوں کی حالت پر اثر گزارتھے، اور اصولی طور پر حکومتوں کی سیاسی اور سیکورٹی صورتحال جیلوں میں  اپنی تاثیر رکھتی ہے۔  جو واقعات باہررونما ہوتے ہیں ، جیسے مثلاًجب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دو تخریب کاروں کو پکڑا، یا دھماکہ کدھر ہوا، ان سب کا اثر جیل کے اندر ہوتا ہے، اس لیے نماز کا مسئلہ ، شاید نماز کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ حکومتی اقتدار کی مضبوطی اور سیاسی قیدیوں کو قابو کرنے کے لیے تھا، اس لیے جب انہوں نے دیکھا کہ اس کام کا مزید فائدہ نہیں اور ممکن ہے کہ یہ عمل زندان سے باہر ایک اورمشکل پیدا کردے تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ نماز کو روکنا چاہتے تھے، بلکہ وہ  اپنا زور دکھانا چاہتے تھے۔ خاص طور پر، جیسےمثلاً  امام کی طرف سے جو اعلانات  آتےتھے، وہ جیل میں اپنا اثر ڈالتے تھے۔ اگرامام کی طرف سےٹیپ آتی تو لوگوں تک پہنچ جاتی۔ قدرتی طور پر، ساواک اس کی روک تھا م کے لیے اپنے ایجنٹوں  سے کام لیتی ،اور اس کا اثر جیل کے اعلیٰ افسران کے جیل کے محافظوں  کے ساتھ برخورد پربھی پڑتا تھا۔ نماز کا قصہ اسی  قسم کا تھا۔

 

 

منبع: حمیدزاده گیوی، اکبر، خطیب انقلابی: اندیشه‌ها و خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین اکبر حمیدزاده گیوی، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر اثار امام خمینی مؤسسه چاپ و نشر عروج،‌ 1398، ص 304 – 305.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 474


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

گوهرالشریعه دستغیب کی یادیں

ہمارا مدعا یہ تھا کہ وہ ہمارے شوہروں یا بچوں کو لے گئے ہیں اور انہیں ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں مارنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، دکاندار اپنے گھر والوں، دوستوں اور جاننے والوں کو بتاتے جو وہ بازار میں ہوتا دیکھ رہے تھے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔