پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 16

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-4-29


مدرسوں میں  دستور تھا کہ جن شاگردوں کی علمی سطح بلند ہوتی تھی اور وہ پڑھائی میں اچھے ہوتے تھے وہ باقی شاگردوں کو قرآن پڑھاتے اور ابتدائی دروس کی تعلیم دیتے تھے۔ مدرسےکے کمرے میں رہنے والے ہم پانچوں  شاگردوں کی علمی سطح ایک جیسی ہی تھی  جسکی وجہ سے ملا صاحب ہمیں بذات خود ابتدائی دروس اور  دوسرے  دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ قرآن بھی خود ہی  پڑھاتے تھے۔ ہم کردی زبان میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور کر دی زبان میں ہی زبانی سوال و جواب بھی کیا  کرتے تھے اور مباحثہ کرتے وقت بھی کردی ہی  بولتے تھے۔ مگر ہمارا تحریری کام، سب فارسی ہی میں ہوتا اور تمام مضامین کے تحریری کام کو کرتے وقت فارسی زبان کا ہی استعمال کیاکرتے تھے۔

جب میرا اس مدرسے میں پہلا سال تھا تو میں ایک دن میں تین مضامین پڑھتا تھا اور قرائت قرآن کے علاوہ کردی زبان میں موجودکتاب احمدی کی دہرائی کے ساتھ ساتھ علم نحو میں عوامل جرجانی اور علم صرف میں تصریف زنجانی کی کتابوں کو پڑھتا تھا البتہ علم نحو اور صرف کو صرف زبانی اور استاد کے دیئے گئے درس کو سن کر اوررٹا لگا  کر گردانوں کو یاد کیا کرتا تھا اور تحریری کوئی کام نہ تھا ، مگر وہ تمام طلباء جن کی استعداد اور صلاحیتیں زیادہ تھیں وہ ایک دن میں پانچ مضامین بھی پڑھتے تھے۔

 یہ ہمارے استاد محترم کا خاصہ اور تجربہ تھا جس کی بدولت وہ ہر شاگرد کی استعداد و صلاحیت سے بخوبی واقف تھے اور اسی کے مطابق وہ یہ طے کرتے تھے کہ کسی طالب علم کو کتنا اور کہاں تک کا درس کس انداز سے دینا ہے اور وہی یہ طے کرتے تھے کہ کسی طالب علم کے لئے کسی کتاب کو منتخب کرنا ہے اس کتاب کی علمی سطح کیا ہوگی اور کسی شاگرد کو کتنے عرصے تک ابتدائی مرحلے میں رکھنا ہے اور کس شاگرد کو جلد ابتدائی مرحلے سے نکال کر ۔ بالائی مرحلے تک لاناہے۔ ہمارا کمرہ مسجد کے ساتھ ہی تھا۔ ہم روزانہ پانچ وقت اسی مسجد میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ نماز جماعت ادا کرتے تھے اور تعلیمی اور عبادتی کاموں اور مصروفیت کے بعد ، تفریحی سر گر میوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے تاکہ مولا علی ؑ  کے اس قول کے مطابق  عمل کر سکیں "ان هذه القلوب تمل کما تمل الابدان فابتغو الھاطرائف الحکمۃ " یعنی: یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں لہذا (جب ایسا ہو تو) ان کے لئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو لہذاہم فرصت کے  ان لمحات کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے ہر ممکن استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ عام دنوں کی نسبت جمعے کے دن خاص طور پر صفائی ستھرائی کو ملحوظ رکھتے تھے اور غسل کے بعد پاک و صاف کپڑوں کے  اہتمام کے ساتھ ، نماز جمعہ کی جماعت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 633


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فاو کے اسپتال کے میل نرس

راوی نے 1989(1368) میں شادی کی اور اس وقت وہ بیرجند میں امام رضا(ع) اسپتال میں ہیڈ نرس تھے. وہ اپنی ریٹائرمنٹ(سن2017 یا 1396) تک بیرجند کے رازی اسپتال میں خدمات انجام دیتے رہے. وہ اس وقت بیرجند یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ریٹائرڈ افراد کےمرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز(هیئت مدیره کانون بازنشستگان دانشگاه علوم پزشکی بیرجند) کا حصہ ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔