ورکشاپ

زبانی تاریخ سے آشنائی - 4

غیر مکتوب تاریخ کے فوائد

ترجمہ: محب رضا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-2-24


غیر مکتوب تاریخ کے فوائد

  • غیر مکتوب تاریخ کا پہلا فائدہ ،تیاری کے فوراً بعد اسکا استعمال ہے۔

مثال کے طور پر کل ایک واقعہ رونماہوا ،اور آج  راوی اسے نقل کرتا ہے، لیکن مکتوب تاریخ میں،  دستاویز کی تیاری کے بعد، کم از کم ۳۰ سال لگتے ہیں  کہ  اسے شائع  کرنے کی اجازت  دی جائے۔ کیا دستاویز پیش کی جائے گی یا نہیں ؟جو لوگ اس واقعہ میں شامل تھے ممکن ہے کہ اب اس دنیا میں نہ ہوں؛جوافراد   اسے مرتب کرنے کے  لیے منتخب ہوئے، ممکن ہے کہ اس موضوع کے ماہر نہ ہوں...

  • غیر مکتوب  تاریخ ، نادیدہ افراد کی تاریخ ہے۔

مثال کے طور پر سپاہ  پاسداران ، جہاد ، فوج۔۔۔ کی دستاویزات میں ایک عام سپاہی  کا ذکر کم ہی ملتا  ہے۔ان دستاویزات میں آنے والے  زیادہ تر نام اعلیٰ سطح کے کمانڈروں یا مختلف یونٹوں کے  ہوتے ہیں۔سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، سماجی دستاویزات  بھی اسی طرح کی ہوتی ہیں ۔ سرکاری دستاویزات، عہدہ داران  کی دستاویزات  ہوتی ہیں اور ان دستاویزات میں عام اہلکار نظر نہیں آتے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ غیر مکتوب  تاریخ ، عام لوگوں کی تاریخ ہے اور مکتوب تاریخ، رسمی تاریخ ہے۔

غیر مکتوب تاریخ کی یہ خصوصیت، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد، ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد  سے عام ہوئی،  یہی  مسئلہ تھا کہ  دیکھا گیا کہ جنگ میں لڑتے فوجی  ہیں، لیکن نام صرف کمانڈروں کے  سامنے آتے ہیں ۔ ونسٹن چرچل کی یادداشتیں ادب کا نوبل انعام جیتتی ہیں، لیکن جنگ میں حصہ لینے والے فوجی کہیں نظر نہیں آتے۔

  • رسمی تاریخ منظر دکھاتی ہے، لیکن غیر مکتوب تاریخ ہما رے سامنے  پس منظر  آشکار کرتی ہے ، جو جذاب تر بھی ہوتا ہے اور واقعی تر بھی ۔

مثال کے طور پر، ایک دور میں، ۲۷ محمد رسول اللہ (ص)  ڈویژن کے کمانڈر، سردار محمد کوثری نےمرکز سے تحریری طور  پر۲۵۰  ماسک  لینے کی درخواست کی۔ جب وہ ماسک لینے گئے تو وہاں ماسک کم تعداد میں تھے اور انہوں نے وہی کم تعداد ،انہیں دے دی ۔ بعد میں جب ۲۷ویں ڈویژن کی دستاویزات منتشر ہوئیں تو ان میں درج تھا کہ  اس تاریخ میں  ۲۵۰ ماسک  ۲۷ ویں ڈویژن  کی تحویل میں دئیے گئے  جبکہ یہ تعداد درست نہیں تھی۔

  • کچھ کا خیال ہے کہ غیر مکتوب  تاریخ معاملے کی اصل  روح کو منتقل کرتی ہے، جبکہ رسمی  تاریخ صرف جسم اور ظاہر  کو دکھاتی ہے۔

مثال کے طور پر، اگر دو کاریں آپس میں ٹکراجائیں ، اورافسر آ کر تفصیلات دیکھے اور تصویریں کھینچے تو یہ مثل رسمی تاریخ ہے؛ لیکن اگرواقعہ کو کسی ایسے شخص  کی نظر سے معلوم کرنے کی کوشش کریں ، جس  نے اوپر سے اسکا مشاہدہ کیا ہو، تو ممکن ہے کئی مزید نکات سامنے آئیں جیسے یہ حادثہ کیسے ہوا،اور ان وجوہات کا مکمل جائزہ  لیا جا سکے۔

غیر مکتوب تاریخ کے عیوب

  • وقت گزرنے کے ساتھ، ہو سکتا ہے  کہ کسی مصلحت یا مسئلہ کی بنا پر راوی نے اپنابیان بدل لیا ہو ، یا اسے کسی مختلف انداز میں بیان  کررہا ہو۔
  • ہم ماضی میں  پیش آنے والے واقعات اورانکے معلوم نتائج   کی، زمانہ حال میں، پسند و ناپسند، حالات، سیاسی مسائل وغیرہ کی بنیاد پر قضاوت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  • بھول جانا ،غیر مکتوب  تاریخ کا ایک اورنقص ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔
  • غیر مکتوب تاریخ کا ایک اور نقصان چیزوں کو چھپا لینا ہے۔ اس سے مراد، زمانہ حال  کی مصلحتوں کی بنیاد پر کچھ معاملات کا بیان یا عدم بیان  ہے۔
  • شیخی بگھارنابھی غیر مکتوب تاریخ کے نقصانات میں سے ایک ہے اور یہ یادداشتوں میں کافی حد تک نظر آتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی یادوں میں جو کسی واقعے کے گنے چنے افراد ہوں ۔ یہ انٹرویو لینے والے کا فن ہے کہ پہلےطے کرے ،کس سے انٹرویو کرنا ہے اور انٹرویو کے دوران ان شیخیوں  کو پہچانے۔   

 



 
صارفین کی تعداد: 297


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔