پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 7
نو ریاب میں اسکول کا افتتاح
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-12-26
یہ سال 1959ء کے موسم خزاں کا ذکر ہے کہ پاوہ کے معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے آغا اسماعیل شیانی صاحب ایک دن نوریاب گاؤں تشریف لائے اور گاؤں کے سردار آغا ولی محمد ولد بیگی اور دوسرے آبادی سرداروں سے کہا "اگر ہو سکے تو آپ لوگ ایک کلاس کے طلباء کو جمع کریں میں حاضر ہوں کہ روزانہ پاوہ سے یہاں آکر انہیں پڑھنا لکھنا سکھاؤں "۔
آغا شیانی چھ جماعتیں پڑھے ہوئے تھے ، تعلیم و تدریس میں دلچسپی رکھنے کے علاوہ ان کا ارادہ یہ بھی تھا کہ اس کام کے ذریعے تدریس میں مہارت حاصل کر کےسرکاری ملازمت حاصل کر سکیں اور بحیثیت سرکاری ٹیچر (استاد) کے کام کر سکیں۔
اسی وجہ سے اس کام کے لئے انہوں نے پاوہ کے نزدیک ترین گاؤں یعنی نوریاب کا انتخاب کیا تھا تاکہ اپنے خواب کو شر مندہ تعبیر کر سکیں اور یہاں ایک سرکاری اسکول قائم کر سکیں۔
نور یا رب کے لوگوں نے ان کا خوب خیر مقدم کیا اور اپنے چھ سے بارہ سال کے لڑکوں جو کہ تقریباً چالیس تھے ان سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایڈمیشن کروا دیا، یہ کلاس آغا محمد سلیم ولد بیگی کے گھر کے ایک کمرے میں شروع کر دی گئی ، میں گیارہ سال کا ہو چکا تھا کہ اپنی والدہ کے بے حد اصرار اور تشویق دلانے کے بعد اس مدرسے میں آگیا۔
میں اور میرابھتیجا " نادر" تقریباً ہم عمر تھے مگر میرے بھائی صالح نے ہمیشہ ایک شفیق باپ کی طرح میرے کاموں کو انجام دیا تھا لہذا انہوں نے اس بار بھی اپنے بیٹے اور میرے درمیان ایسا ہی کیا کہ مجھے پڑھنےکے لئےاسکول بھیج دیا اور اپنے بیٹے کو زراعت (کھیتی باڑی) کے کاموں اور دیگر گھریلو کاموں کی مدد کے لئے اپنے ساتھ ہی رکھا۔
کلاس میں شاگردوں کی عمر اور قدو قامت میں اختلاف کے باوجود بھی ہمارے اسکول میں سب شاگرد ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے کیونکہ صرف ایک ہی کمرہ دستیاب تھا جس میں ایک طرف کچھ شاگرد میز اور بینچ پر بیٹھتے تھے باقی دری پر یا پتھروں کے چھوٹے ٹکڑوں پر بیٹھتے تھے اور دیوار یا لکڑی کے تختوں سے ٹیک لگا کر اپنا پورا دھیان آغا شیانی کی طرف مرکوز رکھتے تھے، بیٹھنے کے اس طریقہ کار میں اور طلباء میں عدل و انصاف قائم رکھا جا سکے اسلئے کلاس کا مانیٹر روزانہ صبح کلاس شروع ہونے سے پہلے طلباء کی بیٹھنے کی جگہوں کو تبدیل کرتا تھا تاکہ ایسا نہ ہو کہ ایک شاگرد ہمیشہ بینچ اور میز پر ہی بیٹھا ر ہے اور دوسرا نیچے فرش پر لہذا روزانہ ترتیب کو بدلا جاتا تاکہ تمام شاگردوں میں مساوات قائم رہ سکے۔ آغا شیانی گرچہ ہمارے استاد تھے مگر پڑھانے کے علاوہ مدرسے کے دیگر امور جیسے مدیریت دفتری امور بھی وہ خود ہی انجام دیتے تھے اسکے علاوہ آغا عبد الرحمن ولد بیگی جو میرے بہنوئی تھے اس ادارے کے مختلف امور میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے جن میں قابل ذکر کام سردیوں کے سرد دنوں میں کلاس کو گرم رکھنا اور بیٹھنے اور پڑھنے کے قابل بنانا وغیرہ تھا۔
آغا عبد الرحمان ولدبیگی نے کلاس کے ایک کونے میں آتش دان اورچمنی بنادی تھی ۔ہمارے کلاس میں آنے سے پہلے وہاس آتش دان میں لکڑیاں ڈال کر آگ جلا دیتے تاکہ ہمارے آنے سے پہلے کلاس گرم ہو جائے۔
کمرے کی مٹی اور بھو سے کی بنی دیوار اور لکڑی کی چھت اس آتش دان کے دھویں کی و جہ سے سیاہ ہو چکیں تھیں اس پر رنگ کروانا تو دور کی بات کلاس میں روشنی کا بھی کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔
میں بہت شوق سے سبق پڑھتا تھا مگر اس بات سے نالاں تھا کہ میرے ہم جماعت عمرمیں مجھ سے کچھ سال بڑے ہیں، اسی وجہ سے دل میں حسرت تھی کہ کاش کوئی موقع ہاتھ آئے کہ میں ان سے الگ ہو سکوں ۔ اگلے تعلیمی سال کے سمسٹر کے بعد آغا شیانی کی تجویز پر ان چالیس شاگردوں میں سے مجھے اور میرے ایک اور ہم جماعتی محمد ولد بیگی کو پروموٹ کر کے تیسری جماعت میں بھیج دیا گیا اور دوسری جماعت سے ہمیں پروموٹ کر دیا گیا یہ اس وجہ سے تھا کہ ہم دونوں پڑھائی میں کافی سنجیدہ تھے ہمارا اسطرح اگلی کلاس کو چھوڑ کر تیسری جماعت میں آنا باقی دوسرے شاگردوں کے شوق کو بڑھانے کا سبب بنا ۔
ہماری یہ کلاس گاؤں کی مسجد کے حوض کے ساتھ ہی تھی ، حوض میں آنے والا پانی نہر سے آتا تھا جسکے ساتھ ہی کچھ لیٹرین ( ٹوائلیٹ) کچھ بنیادی ضروریات کے ساتھ بنا دیئے گئے تھے ۔ یہ نہر کا پائی لیٹرین کے نیچے سے گزرتا تھا اسطرح رفع حاجت کے بعد لوٹے سے طہارت کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی تھی ۔ ہم سارے شاگرد بھی مسجد میں آنے والے نمازیوں کے ساتھ انہی کی طرح اس لیٹرین کو استعمال کرتے تھے۔
ہم تمام شاگردوں کی مالی حیثیت تقریباً ایک جیسی ہی تھی پوری جماعت میں شاید ایک دو ہی طالب علم تھے جن کے پاس کو ئلےکی پینسل کے علاوہ لال رنگ کی پینسل بھی جیبوں میں موجود ہوتی تھی ۔ باقی سب کا حال ایک جیسا ہی تھا۔ وہی ایک عام پینسل ، وہی ایک کاپی (نوٹ بک) جسکے صفحات پیلے ہوتے تھے ان پیلےصفحات پر بھوسے کی باریک ڈنڈیاں خاصی نمایاں ہوتی تھیں ہم یہی دو چیزیں لے کر کلاس لینے آتے تھے۔ ہمارے استاد کو ہماری مالی حالت کا بخوبی اندازہ تھا لہذا وہ کبھی بھی ہم پر سختی نہیں کرتے تھے،ہمیں ٹوکتے نہیں تھے اور زیادہ مشق و لکھائی کے سوالات بھی ہمیں نہیں دیتے تھے جن کی وجہ سے ہمیں زیادہ صفحات کو استعمال کرنا پڑے ہم بھی لکھائی کے وقت بہت توجہ دیتے تھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی لفظ غلط ہو جائے اور ہمیں مٹانے کیلئے ربر کی ضرورت پڑے جو ہمارے پاس نہیں ہوتی تھی ۔ ہم چھوٹا چھوٹا اور قریب قریب لکھتے تھے تاکہ ہماری کاپی (نوٹ بک) دیر سے ختم ہو اور لکھتے وقت خیال رکھتے تھے ہماری پینسل کی نوک نہ ٹوٹے کیونکہ نوک ٹوٹنے کی صورت میں ہمارے استاد آغا شیانی چاقو کے ذریعے ہماری پینسل کو تراشتے تھے اور اسکے لئے انہیں پہلے چاقو کو تیز کرنا پڑتا تھا ۔ ہم نے ابتدائی پورے سال میں صرف پینسل سے ہی کام کیا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا سردیوں میں ہم میں سے کسی کی کاپی کے تمام صفحات ختم ہو جاتے اگر ایسا ہو جاتا تھا تو بڑا وقت لگتا تھادوسری کاپی کے آنے میں کہ پہلے پیسے جمع ہوتے پھر گاوں میں سے کوئی ایک بندہ کاپی خریدنے کے لئے پاوہ جاتا اور لے کر آتا اس عمل میں بعض اوقات ایک سے ڈیڑھ ہفتہ لگ جاتا تھا اور اس ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں پھران شاگردوں کے پاس نہ کوئی پینسل ہوتی نہ کوئی کاپی ( نوٹ بک) اور اس پورے عرصے میں مجبور ہوتے تھے کہ اپنے ہم جماعتوں کےہاتھوں کو دیکھیں اور بیٹھ کر ان لکھتے ہوئے ہاتھوں کو تکتے رہیں !
آغا حسین عبدی نوریاب کے ایک رہائشی اور لکڑ ہارے تھے ان کا پیشہ بلوط کی خشک لکڑیوں کو پہاڑ ودشت سے چن کر لانا تھا وہ ہر ایک دن کے بعد، گاؤں سے پاوہ جاتے تھے تاکہ اپنی لکڑیوں کو فروخت کر سکیں، معمولاً وہ خاندان جن کا پاوہ جانا بہت کم ہوتا تھا وہ انہی آغا حسین کو پیسے دے دتیے تھے تاکہ وہ پاوہ سےو اپسی پر ان کے بچوں کیلئے لکھنے پڑھنے کا سامان خرید کر لیتے آئیں۔ مگر وہ بے چارے بھی بعض اوقات تو بھول ہی جاتے اور کبھی ان کو دکان ہی نہ ملتی جہاں سے وہ پینسل اور کا پیاں خرید پاتے اور وہ خالی ہاتھ ہی نوریاب واپس پلٹ آتے۔ ایسی صورت میں ہم ان دو دنوں کے منتظر رہتے کہ جب وہ دوبارہ دو دن بعد پاوہ جائیں گے تو لے کر آئیں گے اور ان تمام دنوں میں ہم بغیر کاپی اور پینسل کے اسکول جاتے۔
صارفین کی تعداد: 945