دعائے توسل کی محفل میں کیا ہوا؟ 1

ترجمہ: محب رضا

2023-11-20


13 آبان 1343 کو جب امام خمینی کو گرفتار کرکے ترکی جلاوطن کر دیا گیا تو آہستہ آہستہ طلباء، بالخصوص قم کے طلباء نے کچھ ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں شروع کیں، جس میں عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ان سرگرمیں میں ایک پروگرام حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ضریح مبارک کے ساتھ موجود مسجد میں دعائیہ محفل بھی تھی۔ اس پروگرام کے منتظمین، دعا کی تلاوت کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ امام کی یاد اور انکا نام لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رہے۔ جب یہ خبر ہم تک پہنچی تو ہم اور ہمارے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مشہد میں بھی اسی طرح کا پروگرام شروع کریں گے۔ اس دلچسپی اور فیصلے کے عمل درآمد میں کچھ وقت لگا کیونکہ مشہد میں اس طرح کی سرگرمی کا ماحول مہیا نہیں تھا، اس کی دو وجوہات تھیں؛ پہلی، مشہد کے مدارس میں دو مشہور علماء کی موجودگی، اثر و رسوخ اور خاص تفکر و نقطہ نظر اور انکا امام کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کا سامنا کرنے کا انداز اور دوسری، مشہد میں ساواک کا وسیع غلبہ، گہرا نفوذ اور اثر و رسوخ۔ مشہد میں سیکیورٹی کا یہ ادارہ بہت طاقتور تھا اور شاید میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ملک بھر کے سب سے مضبوط اور خطرناک ترین سیکیورٹی اداروں میں سے ایک تھا۔ ان عوامل نے ملکر مشہد کو سکوت اور ٹہراوَ کی ایک کیفیت میں ڈال رکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب مجھے گرفتار کیا گیا تو جناب ربانی شیرازی نے جناب اخوی سے کہا: ’’جب میں نے سنا کہ فلاں کو گرفتار کیا گیا ہے، تو مجھے بہت خوشی ہوئی"۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میری گرفتاری مشہد کی سیاسی فضا کو ہلا دے!

1344 کے موسم گرما میں، جناب ربانی شیرازی مشہد میں تھے، اور ہماری کوشش، اسی دعا کے پروگرام اور امام کے ذکر کو برپا کرنے کی تھی۔ ہم نے ان کے سامنے یہ موضوع اٹھایا۔ مرحوم واقعی ایک شجاع انسان تھے۔ سچ کہوں تو ان کے دل خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ ایک مقابلہ کرنے والے، تجربہ کار شخص تھے۔ جناب قمی کے گھر کے بالمقابل ساواک کا اڈا تھا جہاں سے وہ ہر چیز کنٹرول کرتے تھے۔ یہ اس بات کا علم رکھتے ہوئے بھی کافی وقت ادھر ہی رہے اور طلاب اور غیر طلاب سے نشستیں کرتے رہے! اس زمانے میں حالات بہت مشکل تھے، اور امام کا ذکر کرنا واقعی ہمت کا کام تھا، البتہ اسکی اہمیت اور قدر بھی تھی۔

بہرحال، ہم نے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور انہوں نے ہماری تائید اور حوصلہ افزائی کی اور خود آگے بڑھے۔ مشہد اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے قم کے کچھ طلباء بھی، جو زیارت کے لیے مشہد آئے ہوئے تھے، ہمارے ہمراہ تھے۔ درحقیقت، انہوں نے پروگرام کا آغاز قم میں حاصل کیے گئے اپنے تجربے سے کیا اور خود بھی اس دعائیہ پروگرام میں شرکت کی تاکہ مشہد کے مدارس کے طلباء کی حوصلہ افزائی بھی ہو، ان کا خوف دور ہو جائے اور وہ اس دعائیہ پروگرام میں شرکت کر سکیں۔ الحمدللہ انہوں نے ایک حد تک شرکت بھی کی۔ میں اور  کچھ دیگر دوست، انتظامی ٹیم کے طور پر کام کر رہے تھےاور ہم مختلف معاونتی امور انجام دیتے رہے۔ میں اپنی گرفتاری سے پہلے کی رات کے علاوہ ہر رات اس محفل میں شریک رہا۔

 

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 181 - 186.



 
صارفین کی تعداد: 492


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔