امریکہ میں نماز جمعہ کا قیام

ترجمہ: محب رضا

2023-11-14


فطری طور پر، امریکہ [۴۰ کی دہائی] میں، میری پہلی سرگرمی اور سیاسی و مذہبی شرکت، اسلامک اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن میں تھی۔ میری ابتدائی ملاقاتیں ڈاکٹر مہدی بہادرنژاد اور ڈاکٹر حسن مرشد سے ہوئیں اور پھر انہوں نے ایک جلسے میں مجھے انجمن کے دیگر اراکین سے متعارف کروایا۔ اس زمانے میں طلباء کی اسلامی انجمن، امریکہ اور کینیڈا میں چند مخصوص اور باقاعدہ سرگرمیاں انجام دیتی تھی، جن میں سے اہم ترین سرگرمی نماز جمعہ کا انعقاد تھا۔ کیونکہ اس دور میں مسلمان طلباء کی اکثریت عرب ممالک سے تھی اور یہ عموماً سنی مذہب تھے، اس لئے یہ دوست اپنے مذہبی عقائد کے مطابق نماز جمعہ ادا کرنے کے پابند تھے۔ چنانچہ ایک جاذب اور اہم سرگرمی یونیورسٹی کی ایک عمارت میں نماز جمعہ کا انعقاد تھا، جسے "UNION" کہا جاتا تھا۔

یہ عمارت طلبہ کی سرگرمیوں کے لیے وقف تھی اور اس میں طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مختلف سہولیات موجود تھیں۔ وہاں ہر فرد یا گروہ اپنے ذوق کے مطابق کوئی بھی غیر نصابی سرگرمی انجام دے سکتا تھا۔ ادھر کھیل، موسیقی اور رقص سے لے کر سائنسی، سماجی اور مذہبی پروگرام تک منعقد ہوتے تھے۔ ہم مسلمان طلباء بھی اپنی مذہبی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لئے انہی سہولیات کو استعمال کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک ہال تھا جہاں ہر ہفتے جمعہ کی نماز ادا کی جاتی تھی۔

انجمن کے دستور کے مطابق، ہر جمعہ کو ممبران میں سے ایک ممبر کی ذمہ داری تھی کہ نماز جمعہ کا انتظام کرے اور جمعہ کا خطبہ دے۔ ان خطبات میں مختلف مسائل پر گفتگو کی جاتی تھی۔ کچھ اپنے ملک کے مسائل پر بات کرتے تھے اور کچھ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے۔ میں جتنا عرصہ وہاں رہا، میری باری دو یا تین بار آئی۔ ان مواقع پر، میں نے کوشش کی کہ مسلمان طلباء کو ایران کے مسائل اور ایرانی مزاحمت کاروں کے سیاسی-مذہبی خیالات سے روشناس کرواوَں۔

نماز جمعہ کے اولین خطبہ میں میرا سب سے پہلا موضوع اسلامی حکومت کے بارے میں تھا۔ یہ موضوع اگلے ہفتے "اسلامی حکومت کیوں؟" کے عنوان سے دوبارہ زیر بحث آیا۔ ان دنوں،اسلامی حکومت کا موضوع، سب سے زیادہ بحث ہونے والا موضوع تھا اور یہ مسلمان طلباء بالخصوص اخوان المسلمون اور حزب التحریر کے طلباء میں عام تھا۔ حتیٰ یہ دیگر افراد کے لیے بھی بہت دلچسپ تھا، کیونکہ وہ بھی اسلامی حکومت کے بارے میں متجسس تھے۔ اس طرح کے مسائل کی بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آہستہ آہستہ قریبی فکری روابط پیدا کرسکیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوسکیں۔

 

منبع: شصت سال ایستادگی و خدمت خاطرات مهندس محمد توسلی، تهران، نشر کویر، 1398، ص 90

 

 



 
صارفین کی تعداد: 567


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔