اپنی باری کا انتظار کریں
ترجمہ: محب رضا
2023-11-5
آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد، شاہ نے سوچا کہ علماء اپنی ہم آہنگی کھو بیٹھے ہیں اور شکست کھا چکے ہیں۔
اس خاطر، اس وقت کے وزیر اعظم اسد اللہ علم نے اسلام اور علماء کے خلاف اپنی پہلی چال چلی اور سرکاری بورڈ کے اجلاس میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی منظوری دے دی۔ یہی مسئلہ قم میں حرکت اور جدوجہد کے آغاز کا باعث بنا۔
ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کی دفعات میں سے ایک دفعہ، قرآن کی قسم کھانے کے بارے میں تھی۔ جس کو اس بل میں آسمانی کتاب سے تبدیل کر دیا گیا تھا اور خدشہ تھا کہ ایک دن وہ کہیں گے: کتاب اقدس جو کہ بہائیوں کی کتاب ہے، آسمانی کتاب ہے۔
ایسے میں قم کے صف اول کے علماء نے، حوزہ علمیہ قم کے بانی اور اپنے استاد کے فرزند، آیت اللہ شیخ مرتضی حائری کے گھر جمع ہو کر اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجے کے طور پر، ان میں سے ہر ایک نے شاہ کو الگ الگ ایک ٹیلیگرام لکھا. ان میں سے امام کا ٹیلی گرام سب سے زیادہ سخت تھا۔ لیکن ان ٹیلیگراموں کے جواب میں، چند دن کی تاخیر کے بعد شاہ نے اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا اور ساری ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈال کر اس کام کا ذمہ دار اسے ٹہرا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام کے ٹیلی گرام کے سخت متن کی وجہ سے شاہ نے امام کے ٹیلی گرام کا جواب تک نہیں دیا۔ اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے مراجع کرام کو جناب،حجت الاسلام وغیرہ کے لقب سے مخاطب کیا اور تیار نہیں تھا کہ انہیں "آیت اللہ" کے خطاب سے مخاطب کرے۔ اسکے ٹیلی گرام کے متن کے بیچ ایک توہین آمیز جملہ بھی موجود تھا۔ آیت اللہ گلپائیگانی نے بعد میں منبر سے شاہ کو جواب دیا تھا اور کہا تھا: "ہم شاہ اور تمام ریاستی عہدہ داروں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہمارا فرض عوام کی رہنمائی کرنا ہے!"
یہ آیت اللہ گلپائیگانی کا جواب تھا، دیگر مراجع نے بھی مختلف مواقع پر خطاب کیا، لیکن سب سے شدید تقریر، روز عاشورا،امام خمینی کا خطاب تھا، جس میں انہوں نے کہا: "اے شاہ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں...!"
مجموعی طور پر، شاہ کے جواب نے مراجع کو مطمئن کر دیا۔لہذا علم کا مقابلہ کرنا آسان ہو گیا۔ علماء نے ایک بار پھر علم کو ٹیلی گرام بھیجا اور امام کا ٹیلی گرام ایک بار پھر سب سے سخت تھا۔
اس کے بعد مراجع کرام نے بڑے پیمانے پر حکومت کو ٹیلیگرام بھیجے لیکن حکومت نے جواب دینے میں تاخیر کی۔
تقریباً دس دن گزر چکے تھے۔ انہی دنوں میں آیت اللہ گلپائیگانی کے گھر گیا۔ کچھ تاجر بھی وہاں موجود تھے اور حکومت پر اعتراض کر رہے تھے کہ وہ ٹیلی گرام کا جواب دینے میں سستی کیوں برت رہی ہے۔ آیت اللہ گلپائیگانی نے بھی کہا کہ آپ گورنر، پولیس کے سربراہ اور ساواک کے سربراہ کو فون کریں اور ان سے کہیں کہ لوگوں کو جواب دیں۔
آیت اللہ گلپائیگانی کی درخواست کے بعد؛ قم ساواک کا سربراہ بدیعی، قم کے گورنر فروغی کے ساتھ اور قم پولیس کا نائب کرنل رضائی؛ عوام کو جواب دینے کے لیے آیت اللہ گلپائیگانی کے گھر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ بازار کے لوگ صحن میں کھڑے تھے اور کچھ علماء اور شہر کے عہدیدار کمرے کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ عوام اور تاجروں نے ایک بار پھر اپنے بیانات اور شکایات کا اظہار کیا اور پوچھا کہ حکومت کیوں نظر انداز کر رہی ہے؟
یہ وہ وقت تھا جب قم کا گورنر فروغی اپنی جگہ سے بلند ہوا اور بولا: حضرات، آپ کو جلدی کیوں ہے؟ ہمارے اس ملک میں تین سو سے زیادہ شہر ہیں۔ ہمارے کئی صوبائی مراکز ہیں، جن سب کو حکومت سے کام ہوتا ہے، آپ کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اس نے لوگوں کا دھیان بانٹنے کے لیے کہا: "حکومت بہت سے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، جن میں قم کے عوام کے گھروں کی سیوریج کا کام بھی شامل ہے، یہ درست ہے کہ کچھ دیر ہو گئی ہے، لیکن موقع ملتے ہی وہ علماء کے ٹیلی گراموں کا جواب بھی دیں گے۔" میں نے،جو اس محفل میں موجود تھا، جب یہ ڈرامہ دیکھا تو مجھ سے آرام سے بیٹھا نہیں گیا اور چاہا کہ اس کا جواب دوں، اسی لیے میں آیت اللہ گلپائیگانی کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: جناب کیا آپ مجھے ان سوالات کے جواب دینے کی اجازت دیں گے؟
انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
میں اپنی جگہ سے بلند ہو کر کمرے کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ سب میری باتیں سنیں۔
پھر میں بلند آواز میں بولا: "میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ چند جملوں میں جناب کو جواب دوں۔ آپ میں سے کسی کو اس میں شک نہیں ہے کہ اس ملک کے علماء نے ہمیشہ تمام معاملات میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت، جب جعفر پیشہ وری نے آذربائیجان کو ایران سے الگ کر کے اسے ایک آزاد ملک کے طور پر متعارف کرانا چاہا اور طاقتوں نے اس علاقے پر قبضہ جما لیا تھا، حتی ایرانی فوج بھی اس خلاف ورزی پر کچھ نہیں کر پا رہی تھی تو یہ علماء ہی تھے جو آپ کی مدد کو پہنچے تھے۔ جیسا کہ آذربائیجان مملکت ایران کا سر ہے۔ اگر یہ علماء نہ ہوتے تو وہ ملک کا سر ضرور کاٹ دیتے! ملک کا شاہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آذربائیجان کو علماء نے بچایا، فوج نے نہیں! اور اب آپ کہتے ہیں کہ ایران کے کچھ شہر اور کچھ صوبے ہیں اور حکومت مصروف ہے؟! میں آپ حضرات سے اور اس معاملے کے ذمہ داروں سے ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر شہر کے کسی حصے میں آگ لگ جائے ہو اور کوئی فون کر کے بتائے کہ شہر کے فلاں حصے میں آگ لگ گئی ہے اور پورا شہر آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے تو کیا درست ہے کہ بلدیہ کہے کہ ہمارے اہلکار فلاں جگہ کی صفائی کرنے میں مصروف ہیں؟! یا یہ کہ وہ پہلے آکر اس آگ کو بجھائیں گے؟! یہ آگ اب بھڑک اور جل رہی ہے، یہ لوگ آئیں ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہمیں جواب کیوں نہیں دیتے! یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت مصروف ہے؟! تو کیا یہاں پانی کا مسئلہ زیر بحث تھا، کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں ہم قم میں پائپ لگانے والے ہیں؟!
یہ احتجاج کی پہلی آواز تھی جو حکومتی کارکردگی کے خلاف اٹھی۔ اگرچہ مراجع ہمیشہ تمام معاملات میں پیش پیش رہتے تھے، لیکن اس دن تک کسی نے اتنا کھل کر بات نہیں کی تھی۔ ان باتوں کے بعد آہستہ آہستہ شور مچنا شروع ہو گیا اور انہوں نے بھی ہماری بات مان لی اور کہا: " بہتر ہے! ہم قبول کرتے ہیں"۔
منبع: آل طه: سرگذشت و خاطرات، تدوین غلامرضا شریعتیمهر «کرباسچی»، تهران، چاپ و نشر عروج، 1397، ص 3
صارفین کی تعداد: 1038