کاروباری حضرات کی شہید بہشتی سے ملاقات

ترجمہ: محب رضا

2023-10-30


تہران میں ہونے والی ملاقاتوں سے پہلے میں نے جناب بہشتی سے کبھی باقاعدہ ملاقات نہیں کی تھی، لیکن ان سے ملاقات کا موضوع  1339 کے آس پاس، ریاستی اور صوبائی انجمنوں اور متحدہ اسلامی کمیونٹی کی تشکیل سے پہلے اٹھایا گیا تھا۔ ہمارے علاوہ کچھ اور تاجر بھی ان کے پاس پہنچے اور جناب بہشتی سے اسی طرح کے جلسات کرنے کے لیے بات چیت کی۔ انکے گروہ کا منگل کی رات جناب بہشتی سے جلسہ طے ہوا اور جمعہ کی صبح ہمارے گروہ کا۔ اس طرح کاروباری حضرات کے دو گروہ ان سے رابطے میں آ گئے۔ دونوں گروپوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ یعنی ہم فکر افراد، جدا گروہوں کی صورت ان سے مل رہے تھے۔

تہران کے بازار کے تاجر ایک دوسرے سے گہری شناسائی رکھتے تھے۔ بازار کے احاطے رابطے کی جگہ تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بازاروں میں لوگوں کی دکانیں جدا جدا اور بعض اوقات ایک دوسرے سے بہت دور تھیں۔ اس وجہ سے ان گروہوں کا آپس میں رابطہ اور جلسات میں اکٹھے شرکت بہت مشکل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دو مختلف گروہ الگ الگ آقا بہشتی کے پاس گئے۔ جیسے میں نے کہا کہ جدائی کی وجہ جغرافیائی فاصلہ، کاروبار کی نوعیت اور مختلف تجارتی میدان تھے، ورنہ فکری طور پر خیالات مشترک تھے۔ پڑوسی دکاندار کوشش کرتے تھے کہ اپنے کام کے علاوہ کی مصروفیات، اپنے پڑوسی دوستوں کے ساتھ ملکر ترتیب دیں۔

ہماری ملاقاتوں کا ماحول ایک مکمل منظم مجلس جیسا تھا۔ اجلاسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ساواک بھی پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئی۔ اس وجہ سے ہمیں ملاقاتیں اس طرح سے منعقد کرنا تھیں کہ مامور جاسوسوں کو شک نہ ہو۔ طے پایا کہ جلسوں کی ظاہری شکل ایسی ہونی چاہیے جس میں روایتی مذہبی جھلک زیادہ نمایاں ہو۔ حکومتی جاسوسوں کو دھوکہ دینے کے لیے، جناب بہشتی اصول کافی کی کتاب ساتھ لاتے تھے تاکہ یہ ظاہری شکل برقرار رہے۔

بعض اوقات احادیث بیان کی جاتیں اور وہ ان پر گفتگو بھی کرتے۔ لیکن ان احادیث سے بحث، اس وقت کے سماجی اور سیاسی مسائل کی طرف مڑ جاتی کہ افراد کو معاشرتی مسائل اور مشکلات کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ کاروباری حضرات کے ذہنوں میں بہت سے سوالات تھے، لیکن اب سے پہلے تک ان کا کوئی جواب نہیں مل پایا تھا۔

ایک ہفتہ گزرا گیا اور جناب بہشتی اور میری، اچھی علیک سلیک ہو گئی۔ وہاں ہم نے تقریباً ایک تنظیم کی شکل اختیار کر لی۔ اسی فکر کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ایک دن مرحوم بہشتی نے ہم سے کھل کر سوال کیا۔ یہ ملاقات ہمارے گروہ کی آقا بہشتی کے ساتھ سب سے فیصلہ کن ملاقات تھی۔ انہوں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کیا کہ کیا آپ اسلامی حکومت چاہتے ہیں؟ سب لوگ اپنے ذہن میں حکومت کے خلاف مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیے جلسوں میں آتے تھے، لیکن کسی نے اس سے پہلے ایسا موضوع نہیں اٹھایا تھا۔ بازاریوں کو مقابلے اور جدوجہد کا اندازہ تھا، لیکن شاید اس قسم کے موضوع کے لیے درکار آمادگی نہیں رکھتے تھے۔ آقا بہشتی نے اچانک یہ بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر آپ معاشرے میں اسلامی حکومت چاہتے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

تمام جلسوں میں اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ ایک مسلمان شخص کیا ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ لیکن یہاں انکا یہ سوال تھا کہ اس معاشرتی صورتحال میں اور اس کرپشن، لوٹ مار، جبر اور اسلام کے خلاف ایسی چیزوں کے ہوتے ہوئے، جو معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں، ان بے ضابطگیوں سے کیسے لڑا جا سکتا ہے؟ کیا تبدیلی اور اصلاح کے ذریعے ممکن ہے یا انقلاب کے ذریعے؟

انہوں نے ایسا سوال اٹھایا اور چاہا کہ ہر کوئی اس پر اپنی رائے دے۔ مختلف آراء کا اظہار کیا گیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ انقلاب سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتفاق سے اس نظریہ کے حامیوں میں سے ایک ہمارے دوست جناب بہادران بھی تھے جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی حکومت، صرف انقلاب کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی ہے۔ یہ ایک جوشیلا آئیڈیا تھا. دوسری طرف، کچھ افراد نے کہا کہ بتدریج تبدیلی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جو کاروباری حضرات کے روایتی طریقے کار سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔

آقا بہشتی نے اس مسئلے پر مزید بات کی۔ ان کی گفتگو نے ہماری سیاسی فکر کو مزید سمت فراہم کی۔ جناب بہشتی نے انقلاب کا ذکر کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ انقلاب سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے کچھ مقدمات درکار ہیں۔ انقلابی جدوجہد کے لیے شاید آپ کو سخت زندگی گزارنے اور طویل عرصے تک مشکلات برداشت کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ آکر کہیں انقلاب، لوگ گھروں سے باہر نکل آئیں اور تاریخ کا صفحہ پلٹ جائے۔ اس کے بعد، انہوں نے مختصراً دیگر طریقوں کی طرف اشارہ کیا۔ شاید اس زمانے میں، لازم حالات نہ ہونے کی وجہ سے، جناب بہشتی کے ذہن میں انقلاب کا نظریہ قابل عمل نہ تھا۔ وہ ایک معاشرتی اور دنیا دیکھے ہوئے عالم دین تھے۔ اس طرح کے تجربے نے مرحوم بہشتی کو سکھایا تھا کہ انہیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ پھر جناب بہشتی نے مزید کہا: "تبدیلی لانے کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مدارس اور ثقافتی مراکزکے قیام اور ثقافتی کاموں اور شعور کو بلند کرنے کے ذریعے عوام میں لازم مقدمہ پیدا کیا جائے۔ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے قرض حسنہ کے مراکز اور اس طرح کے دیگر خیراتی کاموں جیسے میڈیکل کلینکوں کی تعمیر نیز شعور کو فروغ دینا، تبدیلی پیدا کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔"

آقا بہشتی کا اعتقاد تھا کہ یہ طریقہ لوگوں کو آہستہ آہستہ سیاسی نظام تبدیل کرنے کے لیے آمادہ کرے گا۔ میں بھی ان کی اس رائے سے متفق تھا۔ اسی دن، کچھ اور لوگ بھی تھے جو کہتے تھے کہ تبدیلی کے ساتھ مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے. جیسے جناب بہشتی کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگوں کی ذہنیت ابھی انقلاب کے لیے تیار نہیں ہے۔ البتہ اس وقت قیادت بھی ویسی نہیں تھی جو بعد میں ظاہر ہوئی اور امام خمینی نے ابھی تک عوامی سطح پر قیام کا اعلان نہیں کیا تھا۔

اس جلسے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو جناب بہشتی کے خلاف رائے رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نے کہا تھا کہ انقلابی طریقہ سے آگے بڑھنا ضروری ہے۔ ابھی بڑھیں اور کام ختم کریں، لیکن ان خیالات کے حامی کئی لوگوں کو بعد میں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا اور اس وقت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

آقا بہشتی نے ہمیشہ کوشش کی کہ  اپنے سامعین کو سوچنے پر مجبور کریں۔ مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ لوگوں کو تعلیم دینا اور سماج کی معلومات کی سطح کو بلند کرنا بہت موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی ایک بہت ہی محدود تعداد نے سخت الفاظ بھی بولے اور ان کا خیال تھا کہ جدوجہد کو مسلح ہونا چاہیے۔ ان کا ہدف معاشرہ کی اصلاح اور ان کا طریقہ انقلابی تھا۔ لیکن جناب بہشتی معاشرے کی تبدیلی کے ذریعے اصلاح کی طرف زیادہ مائل تھے۔

 

منبع: پنجره‌ای به گذشته: خاطرات علاءالدین میرمحمد صادقی، تدوین بهراد مهرجو، متین غفاریان، تهران، کارآفرین، 1391، ص 64 - 67.

 

 



 
صارفین کی تعداد: 589


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔