اعظم السادات سجادی معصومی کا واقعہ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-8-12


خیابان حاج باشی کے آخر میں واقع اسکول، فرحناز پہلوی میں تعلیم کے ایام میرے لئے بڑے سخت تھے۔ اپنے لمبے کوٹ اور اسکارف کی وجہ سے میرا لباس باقی طالب علموں سے علیحدہ نظر آتا تھا۔ شاید اسی لئے میں اس اسکول میں تنہائی کا شکار تھی۔ میری کوئی دوست نہ تھی۔ مستزاد یہ کہ نا صرف اساتید مجھ پر توجہ نہیں دیتے تھے بلکہ ان کا مجھ سے برتاؤ خاصہ تند تھا۔ مجھے کلاس کے بالکل آخر میں بٹھا دیا جاتا تھا اور درس کے دوران سوالات کے لئے میرا نام کبھی پکارا ہی نہ جاتا تھا۔ حتی کہ کوئی میری جانب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود بھی میں پردے کی مکمل پابندی کرتی تھی۔ مڈل اسکول  شاید میں واحد طالبہ تھی  جو حجاب کی اس قدر پابند تھی اور مدرسہ میں بھی اپنا کوٹ زیب تن رکھتی تھی۔ میں اور خانم زہرا نور بہشت ، ہم دونوں مکمل پردہ کیا کرتے تھے۔ مدرسہ کے قانون کے مطابق ہمیں مرون رنگ  کا بلاوز پہننا تھا اور  سر پر پاپیون ( تتلی کی شکل کی ایک بو جو اکثر ہوٹلز کے ویٹرز اپنے گلے میں باندھتے ہیں) باندھنا تھا۔ ہمارے گھر والوں نے اس لباس کی جگہ ایک نیلے رنگ کا لمبا سا اسکارف بنا دیا تھا  اور ہرے رنگ کا  ڈھیلا ڈھالا سا ایک کوٹ تھا میں یہ لباس پہن کر اسکول جایا کرتی تھی۔  پہلی بار جب گئی تو  پرنسپل نے مجھے صدا دی: سجادی۔۔۔ یہ کیا پہن کر آگئی ہو؟  تم طالب علم ہو یا جوکر؟ میں بلاوز نہ پہنے کی وجہ سے کئی بار اساتید کے عتاب کا شکار ہوئی مار بھی پڑی۔  میرے پردے کی شکایت کے لئے کئی ایک بار میرے والدین کو بھی اسکول میں بلا کر تنبیہ کی گئی۔ میرے والد پرنسپل کہا کرتے تھے کہ میرے پاس پیسے نہیں کہ میں لباس خرید سکوں اسی لئے اگر یہ لباس پھٹ پھٹا گیا تو  مجبورا مجھے اپنی بیٹی کو بوری پہنانی پڑے گی۔ اب لباس کی وجہ سے تو وہ میری بچی کو اسکول سے بے دخل نہیں کر سکتے۔

ایک دن پرنسپل کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے قطعی حکم صادر کر دیا کہ اگر کل سے پاپیون نہ لگایا تو اسکول آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد مجھے بے انتہا برا بھلا کہا اور دھمکیاں دے  کر مجھے کلاس سے باہر نکال دیا اور کہا اپنے باپ سے کہنا کل مدرسہ ضرور آئے۔  میں گھر پہنچی تو اپنی والدہ کو دیکھ کر ان سے لپٹ کر رو پڑی اور بتایا کہ پرنسپل نے کہا کہ  اگر یہی لباس پہننا ہے تو کل اپنے باپ کو لے کر آنا۔

میرے والد کے پاس ایک سائیکل تھی اسی پر اپنے سارے انجام دیا کرتے تھے ۔ اگلے روز والد صاحب نے مجھے اسی سائیکل پر بٹھایا اور اسکول جا پہنچے۔ مدرسہ پہنچ کر پوچھا کس نے تمہاری توہین کی ہے؟ میں نے پرنسپل کی جانب اشارہ کردیا۔ پرنسپل نے انتہائی حقارت سے میرے والد سے کہا کہ اپنی بیٹی کو قم بھیج دو تاکہ حرم میں کام کرے۔ میرے والد کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا: اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھو۔ تم برے پھنسے تو  حضرت زہرا علیہا السلام کی قسم میری بیٹی تو یہ یونیفارم نہیں بدلے گی مگر اب میں ایسا کام کروں گا کہ لوگ اس مدرسہ کو ہی آگ لگا دیں گے۔

والد صاحب کے جھگڑنے کے بعد مجھے کلاس میں بھیج دیا گیا اور اس کے بعد  اسکول کے اسٹاف کو میرے لباس پر اعتراض کرنے کی جرأت تو نہ رہی مگر وہ مجھے تنگ کرنے کے بہانے تلاشتے رہتے تھے۔  کھیل کود کی گھنٹی بجتی تھی تو ہمیں ٹریک  سوٹ (کھیل کا لباس) اور  جوگرز (کھیل کے لئے مخصوص جوتے) پہننے ہوتے تھے۔ میں  ٹریک سوٹ اپنے مانتو کے اوپر پہن لیتی تھی تو وہ مجھ سے جھگڑتے تھے اور مجھے کہا جاتا تھا کہ تم آخر کس جہنم سے آئی ہو؟ اپنا حلیہ دیکھا ہے کبھی ؟ 

ہمارے اسکول کے ڈپٹی صاحب مرد تھے ان کے ہاتھ  میں ہر وقت ایک ڈنڈا رہتا تھا۔ انہوں کئی بار مجھے تنبیہ کی اور کئی مجھے سزا کے طور  پر مجھے اپنے ہاتھ اوپر کر کے ایک پیر پر کھڑا ہونا پڑا۔  اس طرح کہ میرے ہاتھ سن ہو جایا کرتے  تھے۔

امتحانی کاپی پر مجھے ہمیشہ اپنا پورا نام لکھنا ہوتا تھا۔ اساتید مذاق اڑا کر کہا کرتے تھے کہ  ایک ٹرک کے برابر کا تمہارا نام رکھ دیا ہے تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ صرف اعظم سجادی لکھ دو۔ میں یہ واقعہ اپنے گھر والوں کو بتانے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی۔مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ واقعات گھر والوں کو بتائے تو مجھے اسکول جانے سے منع کر دیں دے۔

اسکول میں ایک اسسٹنٹ خاتون بھی تھیں جو لنگڑا کر چلا کرتی تھیں۔  ان کے پاس ایک سبز رنگ کی کار تھی ۔ جب ہاف ٹائم ہوتا تو مذہبی گھرانے کی بچیوں کو تنگ کرنے کے لئے کہتیں کہ فلاں فلاں چلو یہ بالٹی اٹھاو اور میری گاڑی دھوو۔  تقریبا روز ہی وہ میرا پکارا کرتی تھی ۔ اپنی گاڑی کو مدرسہ کے صحن کے بیچوں بیچ لا کھڑا کرتی  تاکہ دھوپ میں گرم بھی ہوجائے اور اس ہونے والے انعکاس نور سے ہمیں تکلیف ہو۔ اگر ہم دھونے سے انکار کرتے تو ہماری پٹائی ہوجاتی تھی۔

ایک دن میں ان کی گاڑی دھو رہی تھی کہ  خانم فتاحی نے دیکھ لیا خانم فتاحی  ہماری پی ٹی  کی استاد تھیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ سجادی یہ تم کیا کر رہی ہو؟ میں نے کہا اسسٹنٹ صاحبہ نے کہا کہ ان کی گاڑی دھووں۔ انہیں کہا کہ فوم کو بالٹی میں ڈالو اور   دفتر میں آؤ۔ خانم سجادی بچوں کی شخصیت کے معاملہ میں بہت حساس تھیں اور وہ کسی  بچوں کی شخصیت سے کھیلنے کی اجازت نہ دیا کرتی تھیں۔ گفتگو میں بھی ان کو ملکہ حاصل تھا وہ  پرنسپل سے کہنے لگیں: خانم  طلیسچی! کیا اس اسکول کے بچے گاڑیاں دھونے والے ہیں؟  اگر اب دوبارہ یہ کام کیا گیا تو میں بورڈ میں شکایت کردوں گی۔

تمام ہی اساتید ہم مذہبی گھرانوں کے بچوں کو امتحانات میں کم نمبر دیا کرتے تھے۔ میرے گھر والوں کو  اس کی خبر نہ تھی کہ  اسکول والوں نے اپنے اہداف پہلے سے متعین کئے ہوئے ہیں۔ گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید میں ہی سوالوں کے درست جواب نہیں دیتی ۔ میرے والدین تو بیچارے تھے ہی غیر تعلیم یافتہ۔ وہ سمجھتے تھے کہ پڑھائی یعنی کاپی میں لکھنا اور کتاب کھول کر پڑھنا سو وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ بیٹا کتاب کیوں نہیں  کھولتیں اپنا ہوم ورک کیوں نہیں کرتیں یہ وہ مقام تھا جہاں پر میں اپنے والدین کو اسکول کے رویہ کی کسی قسم کی توضیح نہ دے سکتی تھی۔[1]

 

 

 

 

 

 


[1] انٹرویو اور تدوین:  حاجی زادہ، مریم، مشہدی میقاتی، سارہ، لوگوں کے بیانات کے مطابق اراک میں اسلامی انقلاب، جلد ۳ صفحہ ۱۴۱ ناشر: اندیشہ صادق، قم۔ ۲۰۱۸



 
صارفین کی تعداد: 684


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔