ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 50 واں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-9-21
تلخ اور تیرہ و تاریک شب تھی کہ کٹنے کا نام ہی لیتی تھی۔ ہزار طرح کے خیالات ، غیر یقینیاں اور غم و غصہ میری روح تک سرایت کر چکے تھے۔ صبح تک کئی بار ایسا ہوا کہ میں واقعہ کو بھول جاتی تھی اورچادر سر پر ڈال کر علی کے دفتر کی جانب چل پڑتی۔ کمرے سے نکلتی تو مرد حضرات مجھے دیکھ کر ایک طرف ہو جاتے اور مہدی کو آگے کر دیتے وہ مجھے آگے نہ جانے دیتا تھا۔ دفتر کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا، میں گھر آتی اور پھر علی کے دفتر کے لئے مڑ جاتی۔ مہدی میرے لئے پریشان تھا۔ وہ میری حالت کی وجہ سے مجھے عورتوں کے حوالے کر گیا اور تاکید کی مجھے باہر نہ نکلنے دیں۔ باوجود اس کے میری آواز نہ نکلتی تھی میں نے اپنی تمام طاقت کو جمع کیا اور التجاء کرنے لگی کہ مجھے بس ایک بار جانے دو لیکن کوئی میری بات نہ سنتا تھا تو میں بے حال ہوکر ایک گوشےمیں گر جایا کرتی تھی۔ کچھ دیر بعد پھر اٹھتی اور چادر اوڑھ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتی۔ مجبور ہو کر عورتوں نے میری چادر ہی چھپا دی تاکہ میں باہر نہ نکل سکوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میرے پاس کون کون تھا اور وہ لوگ کیا کر رہے تھے مگر ان کی باتوں سے مجھے اتنا احساس ہواکہ وہ ہمارا سامان لپیٹ رہے تھے تاکہ ہمیں سفر کے لئے تیار کر سکیں۔ صبح تک یامجھے سکون کے انجیکشن لگائے جاتے رہے تاکہ میں سکون سے رہوں یا پھر میں التجاء کرتی رہی کہ مجھے علی کے دفتر جانے دو۔ سب لوگ اس واقعہ پر افسوس کر رہے تھے۔ خواب اور بیداری کے عالم میں میں نے سنا کہ کتاب خانے کے انچارج کو بھی شہید کیا گیا ہے میں آنکھیں بند کر کے ان کاچہرہ ذہن میں لانے کی کوشش کرنے لگی ۔ صبح خانہ فرہنگ سے رخصت ہونے سے کچھ پہلے میں نے دوبارہ علی کے دفتر میں جانے کی کوشش کی ۔ کچھ لوگ علی کے دفتر کے باہر کھڑے تھے پہلے تو انہوں نے مجھے نرم لہجےمیں روکنے کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ میں سننے کو تیار نہیں ہوں اور اپنی کہے جاتی ہوں تو مجبوراً ان کو سختی سے منع کرنا پڑا اور حکمیہ انداز اپنا پڑا تاکہ میں واپس پلٹ جاوں۔
-محترمہ آپ اپنے گھر جائیں اور سکون سے بیٹھیں۔ برائے مہربانی اب گھر سے نہ نکلئے گا۔
علی کا جنازہ لایا جاچکا تھا۔ تاکہ علی اور دیگر شہداء کی نماز جنازہ ادا کی جائے۔ ان کی نماز ساجد علی نقوی صاحب نے پڑھائی ۔ بہت عرصہ بعد میں نےاخبار میں پڑھا تھا کہ نماز جنازہ کے بعد ایک مولوی صاحب نے دہشت گردوں کے خلاف پر جوش تقریر کی تھی اور جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے کئےگئے تھے جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو خانہ فرہنگ پر حملے کے شک میں گرفتار کیا گیا تھا۔
میں، اس شدید صدمہ، بھوک، پیاس، بے خوابی اور سکون کے انجیکشنز کے زیر اثر تھی اس لئے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوسکی اور بیچارہ مہدی تنہا ہی نماز میں شریک ہوا۔ نامعلوم کس وقت ہمیں گاڑی میں سوار کیا گیا تاکہ ہم ہوائی اڈے کی جانب جائیں۔ علی کی تشیع و تدفین، تہران میں نماز جمعہ کے بعد ہونی تھی۔ جانے سے پہلے میں ایک بار پھر علی کے دفتر کی طرف بڑھی اور پھر سے التجاء التماس اور منتیں کرنے لگی کہ مجھے ایک بار علی کے دفتر میں جانے دو۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں کیا چاہتی ہوں لہٰذا کچھ سمجھا کر کچھ ڈانٹ ڈپٹ کر مجھے دفتر سے دور کر دیا گیا۔ محمد میری چادر سے لپٹا ہوا تھا اور مجھے چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔
ہم گاڑی میں سوار ہورہے تھے تو صحافیوں نے ہمیں گھیر لیا اور سوالات کرنے لگے۔ میں بے حال تھی مگر میں نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا تاکہ محکم اور مضبوط لہجے میں جواب دے سکوں اور دشمن کو خوش ہونے کا موقع نہ دوں۔
-امام خمینی کے بقول۔۔۔ ہمیں مار ڈالو، ہماری ملت بیدار سے بیدار تر ہوتی جائے گی۔ پہلے سے زیادہ زندہ و پائندہ۔
میں نے بس یہ کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ زہیر دوڑتا ہوا آیا اور معافی تلافی کرنے لگا۔
-محترمہ ہمیں معاف کر دیجئے گا۔
میرے گلے میں پھندے پڑ گئے ۔
-زہیر رحیمی صاحب کو تم سے خاص اُنسیت تھی، جب بھی تم زندانیوں کے لئے کھانا لے کر جاتے تھے وہ تمہاری واپسی تک مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے تھے۔
میں یہ سب کچھ کہہ رہی تھی اور سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ ہمیں ایک بار پھر انٹرویو کے لئے گاڑی سے اتار دیا گیا۔ مجھ میں کسی بھی کام کی حتیٰ بات کرنے کی بھی ہمت نہ تھی ایسا لگتا تھا کہ مجھ میں جان نہیں ہےمگر میں نے خود سے کہا کہ مجھے مضبوط رہنا ہے۔مجھے یاد نہیں کہ کیا سوال کئے گئے بس اتنا یاد ہے کہ ذہن کو مرکوز کر کے میں نے جواب دیا تھا۔
-ہمیں رحیمی صاحب کے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ہمیں خبر تھی کہ کچھ شر پسند عناصر اس قبیح عمل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کام میں امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ رحیمی صاحب روز و شب انتھک محنت کرتے تھےاور اتنی محنت پر اگر میں اعتراض کرتی تو جواب دیتے
" جولوگ ایران میں کام کر رہے میں ان سے کئی گنا زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہوں اگر ۲۴ گھنٹے بھی کام کروں تو اس تنخواہ کو حلال کرنا مشکل ہے"۔
شاید اسی لئے وہ اپنے خون سے اپنی تنخواہ کی مد میں لیا گیا ایک ایک پیسہ حلال کر گئے۔
میں نے اپنی سی کوشش کہ مضبوط رہو جمی رہوں مگر جن لوگوں نے اس انٹرویو کو دیکھا ان کا کہنا تھا
-انٹرویو کے دروان ایسا لگتا تھا کہ تم گر پڑو گی۔ تمہارا چہرہ بے رنگ تھا اور تم لڑکھڑا رہی تھیں۔
میں ایک زندہ لاش بنی ہوئی تھی۔ صرف محمد کے ننھے ننھے ہاتھوں کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ وہ چادر پکڑے مجھ سے لپٹا ہوا تھا۔ ہمارے گرد لوگوں کا ایک اژدہام تھا اور کیمروں کی بھرمار۔ میں مسلسل خود کو تلقین کر رہی تھی مجھے کمزور نہیں پڑنا کسی کو احساس نہ ہو کہ میں مر چکی ہوں مجھے بے ہوش نہیں ہونا۔۔۔ ہمارے راستے میں کچھ سیڑھیاں بھی آتی تھیں میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی تاکہ توازن برقرار رکھ سکوں۔
ہم دوبارہ سوار ہو گئے اور ہوائی اڈے پر ہمیں ایک جنگی جہاز میں بٹھا دیا گیا جس میں کرسیاں نہ تھیں۔ جہاز میں ، میں تھی، بچے تھے اور علی کا جنازہ۔ جمشیدی صاحب اور چند دیگر افراد بھی تھے جن کے بارےمیں اب مجھے یاد نہیں کہ میں ان کو جانتی تھی یا نہیں۔ میرا دماغ طرح طرح کے خیالات سے مملو تھا ، آنکھیں خشک ہوگئیں تھیں اور گلا ، اب بالکل ہی بند ہو گیا تھا۔
ہمارے لئے کھانا لایا گیا تھا میں نے سوچا بچے بھوکے ہونگے کھانا ان کو دیا وہ باپ کے جنازے کے پاس بیٹھے تھے سو ان کے حلق سے ایک لقمہ بھی نہ اترتا تھا۔ محمد مجھ سے کہنے لگا۔
-آپ بھی تو کھائیں۔
نہیں معلوم میں کب بے ہوش ہوگئی۔میں نے بہت مشکل سے پپوٹوں کو کھولاتاریکی میں صر ف علی کا تابوت نظر پڑا۔ ہم آسمان اور زمین کے درمیان تھے ۔ ایران سےدور گذارے ہوئے تمام سالوں کی غربت میرے رگ و پے میں اترنا شروع ہوگئی۔ تنہائی کا تو احساس ہی جان لیوا ہوتا ہے تو سوچئے جو واقعی تنہا ہو گیا ہو اس کا کیا حال ہوگا۔اب علی نہیں تھا جو میں اس کے شانہ بشانہ زندگی کے سرد و گرم گذارتی، اب علی نہیں تھا جو میرا پشت پناہ بنتا، میرے دل میں وسوسے پید انہ ہونے دیتا۔ وہ بہت پر سکون میرے روبرو تابوت میں سو رہا تھا۔ بہت گہری نیند شاید ایسی ہی گہری نیند جس کے لئے میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ علی کو بھی کچھ دن کے لئے سکون سے سونا میسر آجائے۔ وہ جب بھی رات کو گھر آتا تھا تو بچے اس کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے آج بھی سب اس کے ارد گرد بیٹھے تھے مگر نہ کوئی ہنسی مذاق تھا نہ کسی قسم کی دوڑ بھاگ ۔علی کسی سے کوئی بات ہی نہ کر رہا تھا، کوئی شورشرابہ نہ تھا۔ بچوں کا غمزدہ اور سوگوار ہوکر باپ کے تابوت کو تکے جانا مجھے شعلوں پر گھسیٹ رہا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچے ذرہ برابر غمگین ہوں مگر ان حالات میں میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ حتیٰ مجھ میں بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا میں بھی کبھی بچوں کو تکتی اور کبھی علی کے تابوت کو۔ مہدی، جہاز کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوا تھا جانے کس نقطہ کی جانب اس کا دھیان تھا اس خیال کہیں مرکوز تھا وہ ایک رات میں ہی پندرہ سالہ تازہ بالغ نو جوان سے ایک گھرانے کے سرپرست میں تبدیل ہوگیا تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ علی کے بعد اس گھر کی ساری ذمہ داری اب اس کے کندھوں پر ہے۔ اب اس ۱۵ سالہ نوجوان کے لئے کچھ بھی رات جیسا نہ تھا۔ فہیمہ کی آنکھیں سوج گئیں تھیں اور رو رو کر ان کے گرد حلقے پڑ گئے تھے اس نے اپنے آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کئےاور چادر کے کنارے کو اپنے پیروں پر ڈالا اور بالکل ایسے ہی پردہ کرکے بیٹھ گئی جیسا اس کا باپ چاہتا تھا۔ میری چادر کا ایک کونہ اب بھی محمد کے ہاتھ میں تھا اور وہ ڈر کے مارے میری چادر نہ چھوڑتا تھا۔ اشکوں کے سیاہ نشانات نے اس کے سفید گالوں کو میلا کر دیا تھا۔اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھا جیسے التجاء کر رہا ہو کہ میں پریشان نہ ہوں۔ غم و اندوہ نے میرے دل میں آشیانہ بنا لیا تھا۔ مجھ میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کو دلاسہ ہی دے سکوں اس کو یقین دلا سکوں کہ اب میں بہتر ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ بہت وقت ہو گیا ہے میں نے علی کو نہیں دیکھا۔ میرا دل کے لئے ہولنے لگا ۔ میں اس کے ساتھ ہونے کے خیالوں میں کھو گئی۔
وہ ہوتا تو بچے اس کے کندھے پر چڑھ جاتے اور وہ ان کے ساتھ خوب کھیلتا۔ فہیمہ کے آنسو پونچھتا ، مہدی کو سینے سے لگاتا اور اس کے کان میں سرگوشی میں کچھ کہتا جس کے بعد مہدی کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھتا وہ محمد کے ساتھ دوڑتا بھاگتا اور ہمارے گرد چکر لگاتا۔ مجھ پر ایک طولانی نظر ڈالتا اور میں شرما جاتی۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہتا کہ سب کچھ میرے حوالے کردو میں سب ٹھیک کردونگا۔ میرے بازو پکڑ کر مجھے اٹھاتا اور سب سے باتیں کرتا اور سب ہنسنے مسکرانے لگتے۔ مگر اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ ہو چکا تھا اب یہ سب کچھ ایک تابوت میں بند تھا جو ہمارے سامنے رکھا تھا۔ اب علی ہم میں نہیں تھا۔ میرے پاوں سن ہوگئے تھےبے حس و حرکت ایسا لگتا تھا میرے پیروں سے منوں وزن لٹکا دیا گیا ہے اور میں انہیں ہلا نہیں سکتی۔ میں نے خود کو گھسیٹتے ہوئے تابوت تک پہنچایاجیسے ابھی ابھی خواب سے چونکی ہوں۔ میرا دل علی سے جدا ہونےکو تیار نہ تھامیں نے تابوت سے گتے کو ہٹایا اور علی کے تابوت کے کنارے گر گئی ،بچے بھی تابوت کے گرد جمع ہوگئے۔ اچانک میں نے علی سے درد دل بیان کرنا شروع کردیا اور اسکی منتیں کرنے لگی۔
-اٹھو۔ سب تمہارا پتہ مجھ سے پوچھیں گے۔ میں کیا جواب دونگی؟
میں نے مجلس پڑھنا شروع کر دی اور آنسووں کا دریا پھر سے بہہ نکلنا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے علی کے بغیر کہیں جانا پڑ رہا تھا۔ میں چاہا کہ تابوت کوآغوش میں لے لوں مگر نہ کرسکی۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کہ ہوائی جہاز سے باہر نکلوں، ہوائی جہاز کے اسٹور کا دروازہ کھلا اور کچھ لوگ علی کو لینے کے لئے اندر داخل ہوگئے ۔ ایک شخص نے آتے ہی پوچھا علی کہاں ہے؟؟؟ میں نے تابوت کو پیٹنا شروع کردیا۔
-علی اٹھو۔ اٹھو اور لوگوں کے سوالوں کے خود جواب دو۔
نہ میں کسی کو دیکھ رہی تھی نہ کسی کی بات سن رہی تھی لگتا تھا میں اس دنیا میں ہوں ہی نہیں۔ لیکن جب کسی کی بات سے واقعی میرے دل پر چوٹ پڑتی تو میں ہوش میں آتی اور اطراف کی خبر لیتی۔ بہت عرصہ بعد علی کے چچا نے مجھے بتایا۔
-جب میں نے تمہیں اور بچوں کو دیکھا کہ کیسی مظلومیت سے تابوت سے لپٹے ہوئے ہو تو میرا جگر کٹ گیا۔
ہمیں زبردستی علی کے تابوت سے جدا کیا گیا تھا۔ میرا دل اس سے جدا نہ ہوتا تھا میں جانتی تھی کہ یہ میرے اور اس کے آخری مشترکہ لمحات ہیں اس لئے لوگ زبردستی کرنے پر مجبور ہو گئے تاکہ میں تابوت چھوڑ دوں۔ علی کو سامان منتقل کرنے کی جگہ سے باہر لایاگیا اور ہمیں سیڑھیوں سے۔ سب لوگ علی کے پاس چلے گئے کوئی ہمارے پاس نہ تھا کہ بچوں کی ہی دل جوئی کرلیتا میں تو بے حال تھی۔ میری نظر رشتہ داروں پر پڑی تو میرے دل کے داغ تازہ ہوگئے اور میں پھر سے رو رو کر بین کرنے لگی
-سید کو مار ڈالا۔۔۔۔ اولادِ پیمبر کو قتل کر دیا۔۔۔۔
میں مرثیہ خوانی کرتی جاتی تھی اور اشک بہاتی جاتی تھی ۔ خواتین نے مجھے گلے لگا کر پرسہ دینا اور دلاسے دینا شروع کر دیا۔ میرے حلق سے بمشکل آواز نکلتی تھی وہ بھی اپنے نالہ و شیون کی تکرار کے لئے باقی کس نے کیا کہا مجھے کچھ خبر نہیں۔
-ہائے میں تجھ پر قربان۔۔۔ میں تیرے غم میں مر جاوں گی۔
یہ الفاظ سنے تو میں کچھ متوجہ ہوئی۔ علی کی ممانی نے جب میرے گلے لگ کر یہ مجھ سے کہا تو میں اپنے آپ میں آئی اور نہ جانے کیوں ان الفاظ سے مجھے عجیب سا اطمینان نصیب ہوا۔ جب تک میرا سر ان کے کندھے پر تھا میرا ڈر خوف اور مستقبل کے وسوسے میرے دل سے دور ہوگئے تھے۔
اس دن کے واقعات بھی مٹے مٹے سے ذہن کے گوشوں میں ہیں۔ میں علی کی ممانی سے لپٹ کر خوب روئی تھی۔ میری چادر کا بند ٹوٹ گیا تھا اور مجھے اپنے پردے کا خیال بھی تھا کہ کہیں میں بے پردہ نہ ہوجاوں۔ ہوائی اڈے کے ہجوم میں محمد کا ہاتھ میری چادر سے الگ ہوگیا ۔ وہ کسی کو بھی نہ جانتا تھاوہ ایک کونے میں کھڑا سب لوگوں کو دیکھ رہا تھا ۔ میری بہن نے اس کو دیکھا کہ وہ سیڑھیوں پر بیٹھا سسکیاں لے رہا ہے۔ میری بہن نے اس کو آواز دی تو پہلے تو اس نے تعجب سے دیکھا مگر جب پہچانا کہ اس کی خالہ ہے دوڑ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ مہدی اور فہیمہ تو بڑے تھے مگر محمد ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اس وقت میرا بچوں کو اپنے پاس جمع کرکے اپنے پروں تلے ان کے آرام کا بندوبست نہ کر سکنا میرے روح کو بیزار کئے ہوئے تھا۔ آج بھی اس کا سوچتی ہوں تو بچوں کی بے بسی میرے سامنے مجسم ہوجاتی ہے اور میرے آنسو نہیں تھمتے۔
صارفین کی تعداد: 859