ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 42 واں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-7-27
ملتان کے آخری ایام میں وہ بہت بدل گیا تھا۔ ایک انٹر کام تھا جس کے ذریعے ہمارا اور علی کا رابطہ قائم رہتا تھااگر ہمیں کوئی کام ہوتا اور علی کے پاس دفتر میں مہمان ہوتے تو ہم اسی انٹر کام کا سہارا لیا کرتے تھے ۔ علی خود جواب دے دیتا تھا یا پھر زہیر کو کہتا کہ وہ بات سن لے۔ اکثر علی رات کو گیارہ بارہ بجے جب سب بیرے اور باورچی جا چکے ہوتے تھے تو انٹر کام کرتا اور چائے مانگا کرتا تھا۔ ایک رات تقریبا ایک بجے ہونگے میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھی علی دبے پاوں گھر آیا مجھے خبر نہ ہوئی اس نے چائے نکالی اور جانے لگا تو میری نظر پڑی مجھے واقعی بہت برا سا لگا کہ مجھ سے کیوں نہ کہا۔
-تمہیں پتا ہے میں جاگ رہی ہوتی ہوں مجھ سے چائے کا کیوں نہیں کہا؟
-ارے بابا کیا ہو گیا ایک چائے ہی تو نکالی ہے میں نے سوچا تمہیں تکلیف نہ دوں۔
اس کے لفظ لفظ سے مظلومیت اور معصومیت عیاں تھی۔
وہ اپنے لئے بہت کم کپڑے خریدا کرتا تھا اور اپنی وضع قطع کو ہمیشہ سادہ رکھا کرتا تھا۔ ایک بار میں اس کے پیچھے پڑ گئی کہ بابا تم خانہ فرہنگ کے انچارج ہو اور تمہارا ظاہر تمہارا لباس تمہارے کام میں دخالت رکھتا ہے ، اس کو بہتر بناو اس بار وہ میرے دباو پر چند جوڑے خرید لایا اور مزاح کرنے لگا۔ ہر جوڑا پہن کر میرے سامنے کیٹ واک کرتا۔
دیکھوں خوبصورت لگ رہا ہوں ناں؟
میں بھی اس کی اس حرکت پر ہنس پڑی۔
علی۔۔۔۔۔ یعنی تم چاہتے ہو اتنے دن زندہ رہو کہ یہ سارے لباس پہن سکو؟
میں نے ہنسی ہنسی میں یہ بات کہہ دی اور ایک دم بوکھلا گئی کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا۔ درحقیقت مجھے خبر ہی نہیں تھی یہ الفاظ کس طرح میری زبان پر جاری ہوگئے۔ علی بھی ایک لمحہ کو ہکا بکا رہ گیا لیکن اگلے ہی لمحے کہنے لگا
کوئی بات نہیں میرے بعد مہدی ان کپڑوں کو پہن لے گا۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس وقت کی کہی گئی باتیں حقیقت کا روپ دھار لیں گی۔ اب سوچتی ہوں شاید یہ الفاظ خدا نے ہم سے کہلوائے تھے اور وہ ہمیں ذہنی طور پر ایک بڑے واقعے کے لئے تیار کر رہا تھا۔ یہ الفاظ ہم دونوں کے لئے مشق کے طور پر تھے تاکہ امتحان دے سکیں۔ اس کا کہا سچ ہوگیا اور اس کے لباس نئے کے نئے رکھے رہے اور مہدی نے ان کو زیب تن کیا۔
یوں تو ہر خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے اُنسیت ہوتی ہے مگر وہ گھرانے جو اجنبی دیار میں زندگی گذار رہے ہوں ان کے درمیان وابستگی انتہائی شدید ہو جاتی ہے۔ غریب الوطنی وہ بھی ملتان جیسے شہر کی غریب الوطنی ، جہاں ایک بھی ایرانی کیا گھر نہ تھاکہ ہم کہیں آ جا سکیں تو ایسے میں ہمارے گھر کے افراد کی باہمی وابستگی کی شدت حتمی تھی۔ ہمارے لئے ہماری ساری خوشی ایک دوسرے کے ساتھ ہونا تھا۔ ملتان میں خانہ فرہنگ سے باہر ہمارا رابطہ صرف ایک گردیزی خاندان سے تھا وہ بھی میل ملاپ اور دعوتوں والا نہیں بس اتنا تھا کہ گردیزی صاحب کی بیٹی عالیہ، خانہ فرہنگ کی کلاسوں میں شرکت کے لئے آتی تھی اور گردیزی صاحب اس کے ہمراہ ہوتے تھے۔ بلند قد، سانولی رنگت میری ہی ہم عمر ہوگی جیسے ہی ہمارے گھر آتی اردو میں بات کرنا شروع ہوجاتی اورمیں مسکراتے ہوئے اس کو فارسی میں جواب دیتی تاکہ وہ مجبوراً فارسی بولے اور جلد زبان پر عبور حاصل کر لے۔اس کے والد کو فوٹو گرافی کا شوق تھا اس کے لئے انہوں نے گھر کے ایک کمرے کو اسٹوڈیو بنایا ہوا تھا۔ ایک دن وہ ہمارا فیملی فوٹو بنانے ، کیمرہ اور اسٹینڈ لئے خانہ فرہنگ آگئے۔ بچے تصویر بنوانے کو دیوانے ہوئے جاتے تھے۔ مہدی دوڑا اور عینک لگائی، محمد نے نیلی چڈی پہنی تاکہ وہ خوبصورت لگے علی نے بھی نیا کوٹ پہنا گھر کی سب سے خوبصورت جگہ جو تصویر کے لئے بھی مناسب تھی وہ لکڑی کے طاقچے کے روبرو ہونا تھا۔ میں نے اور فہیمہ نے چادر اوڑھ لی اور ہم صوفہ پر بیٹھ گئے مہدی اور محمد ہمارے دائیں بائیں اور علی صوفے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ فلش پڑتے ہی میں خیالات کی وادی میں چلی گئی میں زمانے کی رفتار کو تھام لینا چاہتی تھی اور چاہتی تھی کہ ہم سب یونہی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے رہیں لیکن حقیقت میں سب کچھ بس اس فلش کی طرح ہی چمکا اور ختم ہوگیا۔
بچوں کے لئے تفریح کا واحد ذریعہ ان کا اسکول جانا تھا۔ بیچارے تعلیمی اور معاشرتی دونوں اعتباروں سے پسماندہ ہوتے جا رہے تھے۔ اسکول کے بعد ان کے لئے سب سے بڑی خوشی علی کے ساتھ مل بیٹھنا اور ہنسی مذاق کرنا تھا۔ علی جب اپنی مصروفیات کے درمیان میں دن کے وقت میں گھر آتا یا شام ڈھلے واپس آ کر ان کے ساتھ کھیل کود کرتا تو جیسے بچوں کو دونوں عالم کی خوشیاں نصیب ہو جاتیں۔بعض اوقات علی اپنے اس کام سے اپنی تھکن اور پریشانی کو مٹایا کرتا تھا۔ وہ دس منٹ کے لئے گھر آتا ہنسی مذاق کرتا اور واپس چلا جاتا۔ بچے اس کے اس ہنسی مذاق کے عاشق تھے۔وہ بچوں کے ہمراہ گھر میں دوڑ بھاگ کرتا وہ آگے آگے ہوتا بچے اس کے پیچھے پیچھے۔ گھر میں ایک غل برپا ہوتا اور میں ایک کنارے کھڑی یونہی احکامات صادر کر رہی ہوتی،
۔آرام سے بیٹھو، گر جاو گے، گھر کا سامان بکھر جائے گا وغیرہ۔۔۔
لیکن دل کی گہرائیوں سے میں بھی اس منظر کی عاشق تھی۔ملتان کے ڈیڑھ سالہ قیام میں ہم دو بار ہی بچوں کو پارک لے جاسکے ۔ وہ بھی حقیقی پارک نہیں بس ایک چھوٹی سی جگہ جہاں گھاس اور چند درخت لگا کر اس کو پارک کا نام دے دیا تھا ایسا نہیں تھا کہ وہاں جھولے وغیرہ بھی ہوں مگر ہمارے بچوں کے لئے یہ بھی ایک بڑی تفریح کا سامان ہوا کرتا تھا۔ ہم سب ایک ساتھ گھاس پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور بچے اس بات پر خوش ہوجاتے تھے کہ وہ دل بھر کر باپ کو دیکھ تو رہے ہیں۔
صارفین کی تعداد: 1066