ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح 41 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-7-20


یہ خدا کی مہربانی تھی کہ میں ملتان میں رک گئی کیونکہ سیمینار شروع ہونے سے پہلے ہی خانہ فرہنگ میں چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھیں کہ ہمیں سیمینار کے بعد شہر کوئٹہ، جوصوبہ  بلوچستان کا مرکزی شہر ہے، بھیج دیا جائے گا۔ کوئٹہ ،ملتان سے زیادہ پسماندہ اور ملتان سے زیادہ خطرناک تھا۔ میں سوچتی ہوں اگر علی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیتی اور تہران چلی جاتی تو یہاں جو کچھ ہوتا اس کی ہمیں کوئی خبر نہ ہوتی اور بس تہران سے آتے ہی ہمیں کوئٹہ بھیج دیا جاتا ۔ اس پر ملتان کے لوگ کیا سوچتے  کہ کیسا خانہ فرہنگ ہے جس کا انچارج روز تبدیل ہوتا ہے۔ ہماری غیر موجودگی میں جب تمام فائلوں کی جانچ پڑتال ہوتی تو اور لوگوں سے علی کے کام کے بارےمیں باز پرس ہوتی اور اس کے بعد جب ہم کوئٹہ جاتے تو لوگ یہی سمجھتے کہ یہ تبادلہ ایک خطا کار افسر کا  تبادلہ ہے جو اس کے جرم کی سزا ہے نہ کہ اسے یہاں سے دوسری  جگہ کسی اہم  ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے بھیجا جارہا ہے۔ خدا کا شکر اس کی نوبت ہی آئی ۔

اس تمام ماجرے میں مجھے علی کی زحمتوں  کا ذرا خیال نہ آیا ۔ فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ کچھ نالائقوں کی وجہ سے ایران اور شیعوں کا دامن داغدار نہ ہوجائے۔  کوئٹہ تبادلے کا قضیہ بھی اس واقعہ کے ساتھ مٹی میں مل گیا۔ ہر چند کوئٹہ جانا اور بے جا تہمتوں سے بچ جانا بھی ہمارے لئے فائدہ مند تھا اور وہاں کام کا دباو بھی کم ہوتا اور شاید علی بھی دہشت گردانہ حملے  سے بچ جاتا لیکن پاکستان کے فرقہ پسندوں کے دلوں میں شیعوں اور نظام ولایت سے بدگمانی اپنے عروج پر پہنچ جاتی اور عوام کے ذہن میں ایران اور ایرانی شیعوں کے کچھ اور ہی معنی پیدا ہوجاتے۔ اس ٹیلی فونی مکالمے کے بعد تمام حالات اپنی پہلی والی حالت پر پلٹ گئے اور اب علی کا نائب  شکست خوردہ ، سرگشتہ اور افسردہ ، سر جھکائے خانہ فرہنگ میں ٹہلتا رہتا تھا اور کی چال سے بھی مردنی ٹپکتی تھی۔ اس دن کے بعد علی روز دو بار فون کرتا تھا اور حالات معلوم کرتا تھاوہ ہمارے لئے اور خانہ فرہنگ کے لئے بہت پریشان تھا۔

-اب کوئی مشکل تو نہیں؟ کوئی اور واقعہ تو پیش نہیں آیا؟

اپنے ہر فون پر وہ یہی سوالات دہراتا تھا۔ میں اس کو اطمینان دلاتی کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے اور دستور کے مطابق چل رہا ہے اور خدا کا شکر ہے اب کوئی مشکل نہیں ہے۔

بچوں کو خوشی کے مارے نیند نہ آرہی تھی کیونکہ علی واپس آرہا تھا میرا حال بھی بچوں جیسا تھا کیونکہ جب تک میں اس کو دیکھ نہ لیتی مجھے چین نہ آنا تھا۔ جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز گونجی بچے دروازے کی جانب دوڑ پڑے ۔ خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو تھے اور گلے میں پھندا پڑ گیا کچھ بول نہ سکی صرف علی اور بچوں کو دیکھتی رہی۔ بچے علی کے گرد حلقہ کئے تھے۔ میں علی کو ایک بار پھر دیکھ کر کس قدر خوش تھی۔ ہمیشہ کی طرح آتے ہی علی نے اٹیچی کھولی اور سب اس کے گرد آ گئے۔ وہ فہیمہ کے لئے ایک کالی چادر لایا تھا یہ اس کی پہلی چادر تھی جس کو دیکھ کر مجھے اپنا وقت یاد آ گیا۔ فہیمہ نے چادر اوڑھی اور باپ کے سامنے گھومنے لگی پھر علی کی گود میں بیٹھ گئی اب وہ گود سے نہ ہٹتی تھی اور علی کو پیار کئے جاتی تھی۔ علی نے لڑکوں کو ان کے کھلونے دئیے اور میرے لئے تحفہ میں اللہ کا گلوبند لایا تھا سونے کا، جس کو اس نے خود میری گردن  میں پہنایا۔ میں نے اعتراض کیا۔

کیا ضروری تھا میرے لئے سونا خریدنا؟

میں سوچتی تھی اب ہمیں بچت کرنی چاہئے تاکہ ایران واپس جائیں تو اس ۱۶ سالہ مشکل دور گذارنے کے بعد اب  ہم وہاں اپنے لئے ایک گھر خرید سکیں سو اس قسم کے تحفے تحائف میرے لئے فضول خرچی کے زمرے میں آتے تھے۔ علی نے گلوبند کا لاک لگایا اور کہا

-جو  زحمتیں آپ یہاں اٹھا رہی ہیں اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔

میں اعتراض کرتی رہی اور وہ سنی ان سنی کرتا رہااور بہت اشتیاق سے گلوبند کو دیکھتا رہا جو اب میرے سینے پر جگمگا رہا تھا اور اس کی تعریفیں کرتا رہا۔

تمام چیزیں اپنی حالت پر پلٹ آئیں تھی مگر گذشتہ واقعہ کی تلخیاں اب بھی  مجھے آزردہ کئے ہوئیں تھیں۔ لوگوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا اب میرے لئے عذاب ہو چکا تھا لوگوں کی نظریں مجھے چبھتی تھیں۔ میں سوچتی تھی کہ لوگوں کی نظر اور خیالات اب ہمارے بارےمیں بدل چکے ہیں اور وہ ایران اور انقلاب کے بارے میں کچھ اور ہی خیالات رکھتے ہیں لیکن علی میری طرح نہ تھا، اس واقعہ سے علی بھی آزردہ خاطر تھا مگر وہ اپنی پریشانی کو ظاہر نہ کرتا تھا  اس نے اپنا ایک مقصد چن لیا تھا اور اب اسی مقصد کے لئے تگ و دو میں لگا ہوا تھا وہ پہلے سے زیادہ محنت سے کام کرنے لگا اور ایسا لگتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہوا ہو۔

تہران میں علی کو کہا گیا تھا کہ آپ کی زوجہ ادارہ کے کاموں میں کیوں دخالت کرتی ہیں؟ یہ الفاظ میرے لئے بہت سخت تھے یہی وہ مرحلہ تھا جب میں نے اپنا اور علی کا فرق محسوس کیا۔ میں نے اس معاملہ میں جھگڑا کیا مگر علی کیسی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ اس واقعہ سے گذر گیا۔ اس  بار میں نے اپنی برداشت اوروجود کی ظرفیت کے خالی ہونے کا مشاہدہ کیا۔ ان الفاظ سے تو کیا علی اس سے زیادہ سخت الفاظ اور چیخ پکار سے بھی پریشان نہ ہوتا  اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہتا۔ میں نے اس واقعہ کے بعد اور تہران والوں کی بے پر کی باتوں کی وجہ سے ، اب ادارہ کے تمام کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔

میں نے اپنے کاموں کی تنخواہ کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا مگر ان باتوں کے بعد میں سوچنے لگی کہ میں نے اپنے گھر اور بچوں کا کتنا وقت دفتری امور کھپایا ہے تو میرا غصہ اور بڑھ گیا۔ میں نے ہمیشہ علی کا ہاتھ بٹانے کے لئے کام کیا تھا اور پیسوں کا خیال بھی میرے ذہن سے نہ گذرا تھا۔ علی کو خود اپنی تنخواہ کی کوئی فکر نہ ہوتی تھی چہ جائیکہ میری تنخواہ کا سوچتا۔ میرا دل علی کی محنتوں کے بدلے میں ملنے صلے پر کباب ہوچکا تھا اور ان کی تند روئی اور بد گفتاری، ادارہ کے معاملات میں میری دخل اندازی وہ بھی ان کے زعم کے مطابق، نے میرے اندر تلخی بھر دی تھی۔ میں نے تمام کام ترک کردئیے نہ ترجمہ کرتی نہ ڈبنگ نہ سیمینار نہ ہی کلاسیں۔ میں نے ارادہ کرلیا تھا صرف اپنے گھر کے کام کروں گی اور اپنا وقت اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر صرف کروں گی۔

میں ابھی اس مسئلے میں الجھی  ہوئی تھی کہ  اسلام آباد سے ایک شخص مالی امور کا جائزہ لینے اور حساب کتاب دیکھنے آ گیا۔ علی کے لئے کوئی مسئلہ بھی مالی مسئلہ کی مانند اہمیت کا حامل نہ تھا وہ ایک ایک روپیے کا حساب لکھ کر رکھتا تھا۔ خانہ فرہنگ میں کوئی خرچہ نہ کیا جاتا مگر یہ کہ علی اس کی رسید کو فائل کرتا تھا۔ جب بھی وہ ثقافتی امور کے لئے ملنی والی رقم کو کفایت شعاری کے سبب خرچ کے بعد بچا لیا کرتا تھا تو بقیہ رقم سے یتیموں اور فقراء کے لئے کھانا بنواتا تھا اور اس کی رسید بھی اپنے پاس رکھتا تھا لیکن اتنی احتیاط کے بعد بھی مالی بد عنوانی کا الزام بے چارے کے حصے میں  آیا۔ علی نے تمام فائلیں اور ثبوت ایک الگ کمرے میں رکھ دیئے اور وہ کمرا ان صاحب کی تحویل میں دے دیا۔ تقریباً ایک ماہ سر کھپانے کے بعد اور دقت نظری کے بعد وہ صاحب حیرت زدہ ہو کر فرمانے لگے۔

-حتیٰ کہ ایک روپے کی بھی خرد برد نہیں تو پھر یہ لوگ کیا بکواس  کر رہے ہیں؟

ایک درس ہے جو میں نے علی کے زندگی سے حاصل کیا ہےوہ یہ

 ''ضروری نہیں انسان بڑے بڑے کام انجام دینے کی فکر میں لگا رہے۔ وہ وظائف جو اس کی گردن پر ہیں اگر ان کو درست طریقے  سے انجام سے تو بڑے عظیم کام خود اس کے سامنے آجاتے ہیں اور پہلے سے کی گئی مشق کے طفیل ان کو انجام دینے کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےاور انسان زینہ بہ زینہ ترقی کرنے لگتا ہے'

اس درس کا عملی نمونہ میں نے علی کی زندگی میں پایا بلکہ یوں کہوں کہ میں اس کی عینی شاہد ہوں۔

اب میں نے مہمانوں کے لئے کھانا بنانا بھی چھوڑ دیا تھاصرف اپنے گھر اور ملازمین کے لئے کھانا بنایا کرتی تھی۔ رمضان المبارک میں افطار کا وقت تھا اور مجھ میں کام کی ہمت نہ تھی سو میں نے جو کچھ گھر میں پڑا تھا سب گرم کیا اور افطار کے لئے چن دیا۔ علی کا ہمیشہ کا کہنا تھا جو اپنے لئے بناوں ملازمین کے لئے بھی بناوں وہ کھائیں تو ٹھیک ورنہ ہمراہ لے جائیں گے۔  اس دن علی دیر تک دفتر میں رہا اور عین افطار کے وقت آیا جو کچھ تھا اس کو میں نے تقسیم کر دیا تھا علی کے حصہ میں کھچڑی آئی تھی۔ میں انتظار میں تھی کہ علی کچھ پوچھے اور میں جواب میں توپ کا دہانہ اس کی طرف کر دوں۔اپنی رکابی میں چمچہ ڈالتے ہوئے علی نے کہا

-حبیب کو کھانا دے دیا؟

 میں پھٹ پڑی

-مطلب کیا ہے؟ میں باورچی ہوں؟  ایسا کروں خانہ فرہنگ کے باورچی اور بیروں کو نکال دو میں باورچی خانہ سنبھال لیتی ہوں تم لوگوں کے لئے چائے پانی کا انتظام کر دیا کروں گی۔

علی نے مجھے دیکھا اور چمچہ نیچے رکھا رکابی میں کھانے کو سنوارا اور کہا

-مجھے اشتہا نہیں تم لوگ کھاو میں نہیں کھاوں گا۔

اٹھا اور جاکر زہیر کے دفتر کی گھنٹی بجائی اور  کہا

-یہ لو یہ کھانا حبیب کو دے دو اگر کم ہو کہنا کہ آج کھانا کم تھا اور اس کو پیسے دے دینا باہر سے خرید کر کھا لے۔

یہ کہا اور پلٹ آیا اور میرے تمام غصہ کے جواب میں مسکرا کرکہا

-تم لوگ کھاو مجھے ویسے بھی بھوک نہیں۔

ہمارے گلے سے کب لقمہ اترتا تھا سب نے اپنی اپنی رکابی سے تھوڑا تھوڑا کھانا  نکال کر ایک آدمی کا کھانا مہیا کیا اور یوں ہم سے نے افطار کیا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا کہ میں نے افطار صرف اپنے گھر کے لئے تیار کیا ہو۔ آج جب سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے علی اپنے تکامل کی منازل طے کر رہا تھا اور میں اس سے بے خبر تھی۔  وہ بلند پرواز میں تھا اور میں جان نہ سکی۔ بالخصوص اس ڈیڑھ سال میں جو ہم نے ملتان میں گذارے علی کی معنوی ترقی اور اخلاقی برتری میں بے انتہا شدت تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 626


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔