ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، انتالیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-7-6


نوروز  ۱۳۷۵ [1]آخری عید تھی جس میں علی ہمارے ساتھ تھا اور اس نے خود ہمیں عیدی دی۔ نوٹوں کو قرآن سے نکال کر ایک کو پیار کرتا جاتا اور نئے سال کی مبارک باد دیتا اور دعا دیتا جاتا۔ عید نوروز صرف ہمارے گھرمیں ہی نہ تھی بلکہ خانہ فرہنگ  میں بھی علی نے اس عید کی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ تمام ملازمین جمع ہوگئے تھے اور علی نے سب کو عیدی دی اور چائے ، مٹھائی سے سب کی ضیافت کی۔ علی کے ساتھ گذارے ہوئے ۱۶ سالوں میں کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ علی نے کوئی خوشی منائی ہو اور دوسروں کو اس میں شریک نہ کیا ہو۔

عید کے بعد محترم جنتی صاحب ملتان کے سفر پر آئے۔ وہ اس زمانے میں ادارہ ثقافت و مواصلات کے اہم منصب  دار تھے میری ان سے صرف ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی۔ اس لئے ان کے کاموں کے بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں۔ ایک رات علی مجھے ان سے ملانے لے گیا میں وہ رات نہیں بھول سکتی،  ہم ابھی سیڑھیوں تک پہنچے ہی تھے علی میرے سامنے آگیا اور مجھ سے التجاء کرنے لگا:

-مریم، جنتی صاحب سے ان سختیوں اور پریشانیوں کا ذکر مت کرنا۔

میں نے کہا: بہت بہتر

دوچا سیڑھیاں چڑھی ہونگی کہ پھر وہ میرےسامنے آیا اور کہا

-ایک لفظ بھی شکایت کا نہ کہنا ۔ یہاں کی زحمتوں  اور تکالیف پر اعتراض مت کرنا

میں نے کہا

-بہتر ہے ۔ مجھے خود اچھا نہیں لگتا کہ پہلی ملاقات میں ہی گلے شکوےلے کر بیٹھ جاوں۔

دروازے کے قریب پہنچ کر پھر تاکید کی۔

-میں کہہ رہا ہوں ایک حرف بھی شکایت کا زبان پر نا آئے۔

-ارے بابا میں وعدہ کرتی ہوں لو قسم کحاتی ہوں کہ کچھ نہ بولوں گی اب سکون سے رہو۔

میں زچ ہوگئی تھی۔

بچوں کی نظریں بھی علی کے دہن پر تھیں اور  وہ بغور علی کی ہدایات کو سن رہے تھے۔میرا بھی شکوے شکایت کا کوئی ارادہ ہی نہ تھا مگر علی نے جو مجھے کئی بار روتے تڑپتے دیکھا تھا تو اس کو ڈر تھا کہ میں کہیں جذبات کی رو میں بہہ نہ جاوں اور درد دل جنتی صاحب سے بیان کر ڈالوں۔

جنتی صاحب ہم سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ملے اور حال احوال پوچھا۔

-کوئی پریشانی تو نہیں؟ کوئی مشکل ہے تو بلا جھجھک کہئے۔

میں نے پوری کوشش کی بغیر مِن مِن کئے محکم جواب دوں۔

-نہیں جناب یہاں ہمیں کوئی پریشانی نہیں سب بہت اچھا ہے۔

انہوں نے اسکول اور بچوں کی پڑھائی کا پوچھا تو میں نے اطمینان اور رضامندی کا اظہار کیا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگئے اور مسکراتے ہوئے ہمیں دعائیں دینے لگے۔ملاقات کے اختتام پر انہوں نے ہمیں در نجف کی دو انگوٹھیاں دیں ایک میرے لئے ایک علی کے لئے ۔

۱۳۷۵[2] کی سردیوں میں خانہ فرہنگ میں  ادبیات فارسیکے حوالے سے ایک سمینار  منعقد ہوا۔ ایران سے فارسی زبان  کے ایک ماہر استاد کو ملتان بھیجا گیاوہ زبان فارسی کے اہم اصول ہمیں سکھاتے تھے اور جو کلاسیں فارسی زبان کے جاری تھیں وہ ان کے اختتامیہ میں بھی شریک ہوتے تھے۔ روزانہ صبح سے شام تک سیمینار جاری رہتا تھا۔ علی اپنے کاموں میں مصروف ہوتا تھا اس لئے اس کی جگہ مجھے سیمینا رمیں شرکت کرنی پڑتی ۔ سہ پہر کو جب اس کے پاس کام کچھ کم ہوتا تو وہ خود سیمینار کا جائزہ لینے چلا آتا۔

اسی سیمینار کے ساتھ ایکسیمینار'' سفیران فرہنگی'' کے عنوان سے تہران میں بھی رکھا گیا تھا اور علی کو اس میں شرکت کے لئے جانا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اس کے ساتھ تہران جاوں مگر جانے کیوں میرا دل جانے کو تیار نہ تھا۔ اگر میں چلی جاتی تو ملتان کے سیمینار کو کون دیکھتا؟ یہاں کے امور سنبھالنے والا کوئی نہ تھا اگر ہم دونوں چلے جاتے تو ہماری محنتوں پر پانی پھر جاتا۔ یہ میری نظر تھی۔ ہر چند تہران والے ہمارے جگہ کسی کو عارضی جانشین بنا کر بھیج رہے تھے مگر میرا دل جانے پر کسی طور راضی نہ تھا۔ علی بھی شش و پنج کا شکار تھا۔ وہ تنہا جانے پر اور ہمیں اکیلا چھوڑنے پر راضی نہیں تھا۔ اس کے جانب سے مسلسل اصرار تھا اور میری جانب سے مسلسل انکار۔

-میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی میرا یہاں رہنا ضروری ہے۔ مجھے نہیں معلوم کیوں مگر میرا دل یہی کہتا ہے کہ میرا یہاں ہونا ضروری ہے تم جاو اب ضد نہ کرو۔ میں نے کہا

-میں تہران جاوں گا تو سب مجھ سے پوچھیں گے مریم اور بچے کہاں ہیں تو میں کیا جواب دونگا؟ اگر تم جانے پر تیار ہو تو میں ابھی بھی انتظام کر لوں گا ۔ علی نے کہا۔

مجھے خود معلوم نہیں کہ کیا احساس تھا ، وہ اشتیاق اور ذوق جو ہمیشہ ایران جانے کے لئے میرے اندر تھا وہ کہاں کھو گیا تھا۔میری چھٹی حس مجھے روکے جارہی تھی لہٰذا  میں راضی نہ ہوئی اور علی کو تنہا ہی  عازم ایران ہونا پڑا۔ اس کے جانے سے ایک دن قبل ہی اس کا عارضی نائب، ایران سے ملتان پہنچ گیا۔

علی کو تہران گئے دو تین روز ہی ہوئے ہونگے  اور اتنے ہی دن اس کے نائب کو ملتان آئے ہوئے کہ میں نے ایسی چیزوں کا مشاہدہ کیا جن سے پہلے کبھی ہمارا واسطہ نہ پڑا تھا اور ان سے چشم پوشی ممکن نہ تھی۔ خانہ فرہنگ کا دروازہ کھلا  رہنے لگا تھا مجھے حیرت تھی کہ امن و امان کی اتنی خراب صورتحال میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس سے پہلے خانہ فرہنگ کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا اور جو بھی خانہ فرہنگ میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا اس کو پہلے سے اجازت حاصل کرنی پڑتی تھی ۔ رحیم داد کسی کو بھی پہلے وقت لئے بغیر اندر آنے نہ دیتا تھا اب وہ خود اس بات پر حیران تھا کہ دروازہ کھلا رکھنے کا حکم کیوں صادر کیا گیا ہے۔ جس کی جب مرضی ہوتی بغیر تفتیش کے خانہ فرہنگ میں داخل ہوجاتا۔ علی کے دفتر کا دروازہ بھی اب کھلا رہتا اور تمام فائلیں میزوں پر بکھری پڑیں تھیں۔ خانہ فرہنگ میں رش لگا ہوا تھا تمام ملازمین ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔ میں نے زہیر سے پوچھاکہ یہ سب کیا ہے تو اس نے بتایا کہ علی کا نائب دراصل علی کے کاموں کی جانچ پڑتال کرنے پر مامور ہے اور خانہ فرہنگ کے ملازمین سے پوچھ گچھ کر رہا ہے۔ اس کے ہر ہر کام ، اس کی ہر ہر آمد و رفت کے بارے میں اور بالخصوص مالی امور کے بارے میں تفتیش کر رہا ہے۔  میں حد درجہ پریشان ہوگئی اور سوچنے لگی جب یہاں یہ عالم ہے تو بے چارے علی پر تہران میں کیا قیامت ڈھائی جا رہی ہوگی؟ اس کے آخری فون کو ایک رات کا وقت گذر چکا تھااس لئے میں اور بھی پریشان تھی کہ اب تک اس نے فون کیوں نہیں کیا؟ میں سخت پریشانی میں مرغ ِ بسمل کی مانند تڑپتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی زیر لب یہ دعا کر رہی تھی۔۔

-اے خدا۔۔ جو چیز بھی اسلام اور انقلاب کے لئے سود مند ہے اس کو رو بہ عمل کردے چاہے اس میں ہمیں مسل کر رکھ دیا جائے پروا نہیں۔

 

[1] ۲۰ مارچ ۱۹۹۶

[2] دسمبر  ۱۹۹۶



 
صارفین کی تعداد: 1103


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خمینی کا بیٹا کہاں ہے!

میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔