ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، چھتیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-6-15


مہدی اب ۱۵ سال کا ہو چکا تھا وہ ڈرائیونگ سیکھنا چاہتا تھا اس لئے بعض اوقات وہ خانہ فرہنگ کے صحن میں حبیب کے ہمراہ گاڑی چلانے کی مشق کرتا علی بھی چند دن میں ایک بار گاڑی کی ٹنکی اپنے پیسوں سے بھروادیتا تاکہ اس کو یقین حاصل رہے کہ اس  نے خانہ فرہنگ سے کچھ اضافی وصول نہیں کیا ہے یا بیت المال کا پیسہ ذاتی استعمال میں نہیں لایا ہے۔ان تمام سختیوں کے باوجود علی اور بچوں کے تعلقات بے انتہاء خوشگوار تھے۔

شروع شروع میں ہم کچھ خریداری کے لئے باہر گئے تھے  اور تمام چیزیں بچوں کے لئے خریدیں تھیں مگر اس کے باوجود محمد منہ بسورے بیٹھا تھا۔ علی جتنا بھی ہنسی مذاق کرتا محمد کا منہ ٹھیک نہ ہوتا اور وہ کوئی بات کرنے پر تیار نہ تھا۔ علی نے ایک کنارے گاڑی روک دی اور محمد سے پوچھا۔

محمد ۔۔بابا کی جان۔۔ کیا ہوا؟ کیا چاہئے؟ کیوں ناراض ہو؟ کیا ہوا ہے واپس جانا ہے؟ کچھ اور خریدنا ہے یا کہیں گھومنا ہے؟

محمد اور زیادہ روہانسا ہوگیا مگر منہ سے کچھ نہ بولا ۔ میں نے بھی اس کو پچکارا مگر وہ خاموش رہا ۔ ناچار علی نے گاڑی اسٹارٹ کی اور خانہ فرہنگ کی جانب سفر شروع کیا علی زچ ہوگیا تھا

۔ آخر کیا نہیں خریدا جو اسقدر ناراض ہے ؟ اس بچہ کو آخر کیا چاہئے؟ میں کیا کروں کہ اس کا منہ ٹھیک ہو؟

کوئی بھی چیز علی کو بچوں کی ناراضی سے زیادہ پریشان نہ کرتی تھی۔ اس کو سب سے زیادہ رنج بچوں کے دل ٹوٹنے کا ہوتا تھا۔ جب  تک بچے ہنسی مذاق اور کھلکھلانا شروع نہ کردیتے اس کو چین نہ ملتا تھا۔

خانہ فرہنگ میں ایک بار ایک جلسہ تھا اور بچے گھر میں تھے۔ صبح سے رات بچے کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے تھے لہٰذا میں نے علی سے کہا تھا کہ اس میں رمز [1]  لگا دے تاکہ ہر وقت بچے کمپیوٹر پر نا لگے رہیں ۔ اس دن بھی محمد نے بارہا مجھ سے کہا کہ میں  رمز  بتا دوں مگر مجھے  رمز معلوم ہی نہیں تھا میں نے خود علی کو کہا تھا کہ مجھے رمز نہ بتانا کہ مبادا ان کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں۔ محمد مجھ سے نظریں بچا کر عین جلسہ کے درمیان پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ علی اس کے ساتھ ابھی گھر چلے اور رمز ہٹا  کر کمپیوٹر آن کرے۔ علی نے بہتیرا سمجھایا مگر محمد وہیں کھڑا رہا یہاں تک کہ علی کو جلسہ چھوڑ کر گھر آنا پڑا راستے میں راہداری میں علی نے شاید محمد کو ہلکا سا تھپڑ بھی لگایا تھا بہت ہلکا سا مگر محمد اس پر ہی رو پڑا اور اس کی پیشانی پر کئی بل پڑ گئے اور وہ گھر آکر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ علی کے اس کام پر میں خوش تھی کیوں کہ بچے بڑے ہورہے تھے اور اب ان کو ادب سکھانا ضروری تھا۔

۔ یہی صحیح تھا ۔ کتنا کہا تھا بابا جلسہ میں ہیں پریشان مت کرنا ۔ بابا کے کام کے اوقات میں ان کے دفتر جاکر ان کام میں مخل مت ہوا کرو۔ ۔

تھوڑی دیر بعد علی بھی خجل خجل گھر میں داخل ہوا اور مجھے چپ رہنے کا اشارہ دیا اور خود محمد کو گود میں لے کر بیٹھ گیا۔

۔بیٹا میں نےکہا تھا ناں کہ ابھی جلسہ میں ہوں میرے پاس مہمان ہیں ضد کیوں کر رہے تھے۔ علی نے بہت ہی مہربانی اور پیار کے ساتھ اٹھ کر کمپیوٹر آن کیا اور کہا۔

آو اب کھیلو۔

میں ناراض سی ہو گئی ، مجھے اچھا نہ لگا کہ علی کمپیوٹر آن کرے کیونکہ میری دانست میں اس کا یہ کام اس ایک طمانچے کے اثر کو زائل کردیتا جو بچوں کی تربیت میں موثر ثابت ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف یہ بھی معلوم تھا کہ میں کچھ بولی تو علی پر کون سا اثر ہونا ہے۔ صرف علی ہی نہ تھا جو بچوں پر فریفتہ ہو بلکہ بچے بھی علی پر جان چھڑکتے تھے۔

 

[1] Password



 
صارفین کی تعداد: 694


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔