ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، تیئیسواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2022-10-21
بالآخر ہمیں صادقیہ[1] میں گھر میسر آگیا۔ شفٹنگ کے دن دونوں باپ بیٹی نے آفت کھڑی کر دی۔ فہیمہ نے تو اتنی شرارتیں کیں کہ آخر کار زمین پر گر اپنے ہاتھ پر چوٹ لگا لی۔ ابھی علی کی امی ، ہلدی اور انڈے کے مرہم کا لیپ اس کے ہاتھ پر کر رہی تھیں کہ علی لنگڑاتے ہوئے چلے آئے۔ کیا ہوا کہ گھر آتے ہوئے بس سے اتر رہے تھے گھڈے میں پیر پڑا اور مڑ گیا سو موچ آ گئی ہے۔ لو جی اب ان کی بھی مرہم پٹی ۔۔۔ کاموں کا ایک انبار اور بچا کون میں اکیلی، وہ تو خدا کا شکر اس بار بھی میرے بھائی کام کے لئے آ گئے۔ علی بیٹھے بیٹھے حکم چلائے جاتا تھا۔ یہاں لاو، وہاں رکھو، ایسا کرو، ویسا کرو وغیرہ۔ میرے بھائی اس سے کہتے:
آپ کا اقبال بلند ہو بڑے مزے آرہے ہیں۔۔ بس حکم چلاتے رہو گے؟
ہمارا یہ گھر آدھی منزل پر مشتمل چھوٹا سا گھر تھا ۔ اس میں ایک دلکش ٹیرس تھا بچوں کو اس گھر کا یہ ٹیرس بہت بھا گیا تھا۔ دوپہر میں بچے ٹیرس پر ہی کھیلتے کھیلتے سو جاتے۔ یہ ٹیرس ہمارے اس گھر کے لئے ایک صحن جیسا تھا۔
میں ٹیرس پرپانی کا چھڑکاو کر رہی تھی کان گھر کی گھنٹی پر لگائے ہوئے تھے۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو دماغ معطر کر رہی تھی علی کے گھر آنے کا وقت قریب تھا۔ گھنٹی بجی میں نے آب پاش ایک کنارے رکھا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی کیونکہ دروازہ مجھے کھولنا تھا اور بقول علی ، اس طرح اس کی تھکن دور کرنی تھی۔
چائے کی پیالی میں نے اس کے سامنے رکھ دی جب بھی وہ مجھ سے دفتری کاموں کے بارے میں گفتگو کرتا میں سمجھ جاتی کہ اس کو پھر سے سفر درپیش ہے اور وہ اس کے لئے مقدمہ باندھ رہا ہے۔ باتوں باتوں میں جونہی افغانستان کا نام آیامیں اس کو گھورنے لگی۔ وہ سنبھل سنبھل کر حرف بہ حرف بات کر رہا تھا۔ اس بار اس کی ذمہ داری ثقافتی مراکز کے قیام کے لئے تحقیق و جستجو تھی۔ اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر وہاں مذہبی اور اسلامی ثقافتی امور کی انجام دہی ضروری تھی خصوصا جب کہ برطانیہ اور سعودی عرب وہاں پر N.G.Os چلا رہے تھے تو اس کام کی اہمیت اور ضرورت میں چنداں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ یکدم سب کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا اس لئے کچھ دیر خاموش رہ کر پھر گویا ہوا
-وہاں سے ایران فون کرنے کی سہولت میسر نہیں اور راستے کبھی تو چھ چھ مہینے بند پڑے رہتے ہیں۔ میں نے قند اٹھائی تاکہ چائے پی سکوں۔ اس کا یہ سفر بقیہ سفروں سے مختلف نظر آتا تھا ۔ یون تو ہندوستان سے واپس آنے کے بعد سے اب تک وہ مسلسل دوروں پر ہی تھا کبھی افریقہ کبھی پاکستان، ترکمانستان، بنگلا دیش وغیرہ غرض جہاں کہیں شیعہ دینی مدارس تھے علی ایک بار وہاں ضرور گیا مگر آج اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ اس کا یہ سفر بہت ہی خاص ہے۔
اس کا سفری منصوبہ اس بار افغانستان کے شیعہ اکثریتی صوبوں بالخصوص بامیان میں ثقافتی مراکز کا قیام ، اور مساجد اور اسکولوں کی تاسیس پر مشتمل تھا۔افغانستان کے لئے کوئی براہ راست ہوائی جہاز نہ تھا اس لئے تاجکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہونا تھایہ سب سوچ کر دل بیٹھا جاتا تھا۔ بچوں کے کھیلنے کی آواز ٹیرس سے آرہی تھی اور یہاں علی باتیں کر رہا تھا ۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ میں کوئی بات ہی نہیں کررہی تو وہ بھی خاموش ہو گیا۔ میں قند کے ٹکڑے کو انگلیوں میں گھما رہی تھی اس نے چائے کی پیالی اٹھائی تو میں بھی سر اوپر اٹھایا اور چائے کے دھویں کے اس پار اس کی جانب دیکھاتو میرا دل پھر سے بیٹھ گیا۔
-میں چاہتا ہوں میرے جانے سے پہلے تم مجھے معاف کردو۔ تم نے میرے ساتھ زندگی میں بہت سختیاں سہی ہیں۔
میں عجب مشکل میں تھی کہ کیا جواب دوں۔اس کا طرز گفتار دل دہلائے دیتا تھا۔ میں نے قند کو طشتری کے کنارے پر رکھا اور بھیگی پلکیں اور اداس دل لئے باورچی خانے چلی گئی۔ افغانستان میں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اور سفر بھی بہت سخت تھا اس لئے میرا دل نہیں تھا کہ علی جائے مگر چار و ناچار اسی رات اس کی اٹیچی باندھی اس طرح کہ بدفکریوں نے ذہن میں ڈیرے جمائے ہوئے تھے اور میں علی کے کپڑے تہہ کر رہی تھی۔ صبح کو علی نے بہت آرام سے بچوں کو پیار کیا اور قرآن کے نیچے سے نکل کر دھیمی آواز میں مجھے خدا حافظ کہا کہ کہیں بچے بیدار نہ ہو جائیں۔ میں دروازہ بند کر کے قرآن سینے سے لگائے ، اشک افشاں، علی کی باتوں اور اس کے معافی طلب کرنے کو یاد کر رہی تھی۔ اس کا یہ معافی مانگنا میرے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا تھا۔ سچ کہتے ہیں جب تک کوئی آپ کے پاس ہو اس کی قدر معلوم نہیں ہوتی اور آپ اس سے اپنی وابستگی کا اندازہ نہیں کر سکتے دور جانے پر ہی اس کا احساس ہوتا ہے۔ پریشانی اور اضطراب سے سانس رکا جاتا تھا اب علی نہیں تھا مجھے معلوم ہوا کہ پچھلے چند سالوں میں ، میں اس کی کس قدر عادی ہو چکی تھی اور وہ میرے کتنا نزدیک تھا۔ ہر رات فکروں اوراپریشانیوں کے ساتھ سوتی اور صبح اضطراب اور گھٹن کے مارے آنکھ کھلتی۔
میں مقدور بھر کوشش کرتی تھی کہ منفی سوچوں اور فکروں کو خود سے دور رکھوں ، اپنی پریشانی اور خوف کو بچوں سے چھپائے رکھوں اس کے لئے میں انہیں لے کر کبھی پارک چلی جاتی کبھی سینما چلی جاتی تو کبھی بچوں کی پھپھیوں کو اپنے گھر بلا لیتی تاکہ گھر میں رونق لگی رہے۔ علی کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب اپنے گھر والوں کے ساتھ اکثر ہمارے گھر آجاتے تھے ، بچے بھی ان سے مانوس ہوگئے تھے اس لئے اچھا وقت گذرجاتا تھا۔
تین ہفتہ بعد ہی علی واپس آگیا۔ مگر یہ تین ہفتہ تین سال سے بھی زیادہ بھاری لگتے تھے۔ اس کی آمد پر نے از راہ طنز و مزاح اس سے کہا:
-تم تو آخری سلام کر گئے تھے پھر واپس کیوں آگئے؟ تم تو کہتے تھے کہ اب نہ آو گے
مالک مکان نے جب علی کو دیکھا تو از راہ مزاح لب کشا ہوئے:
-بھائی تم گھر سے نہ جایا کرو۔ تمہارے قدم برآمد ہوتے ہی ایک منی بس بھر کر مہمان تمہارے گھر آ گئے تھے۔
سچ ہی کہتے تھے ہر روز صبح ہی صبح کوئی نہ کوئی ہمارے گھر مہمان ہوتا اور رات گئے تک ہمارے ساتھ رہتا۔ علی کے واپس آنے پر مجھے معلوم ہوا کہ علی کا سفر واقعی کتنا سخت تھا اس کا بخار اور متلی ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔ وہ بے انتہار کمزور ہوگیا تھارنگت بھی پیلی پڑ گئی تھی۔ روز ڈاکٹر روز ڈرپ مگر لا حاصل۔ اس کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ افغانستان میں مزار شریف سے ۲۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شہر درہ صوف کے سفر پر گیا تھا۔ اس سفر میں ان کے پاس ایک پرانی جیپ تھی جو گرد مٹی سے اٹے راستوں پر سفر کر رہی تھی اور یہ لوگ سفر میں کئی بار مشکلات میں پھنسےکبھی کیچڑ میں گرے تو کبھی جیپ پنکچر کبھی صحرائے بے آب و گیاہ میں کھڑے ہیں تو کبھی کہیں۔ ایک دن آدھی رات کے بعد یہ لوگ ایک پانی کے جوہڑ تک پہنچےتو پیاس کے مارے پانی پر ٹوٹ پڑے چند گھونٹ پانی سے تو حلق میں تہہ بہ تہہ جمی مٹی نگلی اس کے بعد معلوم ہوا کہ پانی انتہائی بدبودار اور بد ذائقہ ہے بالکل بھی پینے کے قابل نہیں ہے لیکن ناچار اسی کو پیا ، پیاس بجھائی اور پھر سے سفر کا آغاز کیا۔ اگلے دن بیمار پڑ گئے اور ایک ہفتہ تک کسی کام کے قابل نہ رہے ایک ہفتہ بعد جب طبیعت کچھ سنبھلی تو کام دوبارہ شروع کیا۔
اس گھر میں غیر ملکی مہمانوں کا بھی تانتا بندھا رہتا تھا۔ علی ، ادارہ کے ان مہمانوں کو جنہیں زیادہ دن ایران میں قیام نہ کرنا ہوتا تھا گھر لے آتا تھا تا کہ صرف ایک آدھ رات کے لئے ہوٹل کا خرچہ نہ کرنا پڑے۔ میں ان مہمانوں کو کھانا دیتی رات میں ان کے کپڑے وغیرہ دھوتی ان کے سونے کے بستر لگاتی اور صبح علی کے ہمراہ ان کو رخصت کر دیتی یہی ہماری زندگی تھی۔ علی اور ہماری نجی زندگی بہت زیادہ رنگین نہیں تھی اگر میں یہ کوشش کرتی کہ علی کی اجتماعی اور نجی زندگی میں کسی قسم کی حد بندی ایجاد کروں تو علی کبھی اپنے کاموں میں کامیاب نہ ہو پاتا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے اور بچوں نے اور خود علی نے بھی اس سب کو زندگی کا جز لاینفک سمجھ کر قبول کرلیا تھا یہاں تک کہ اب مجھے ایسی مہمان داریوں کی عادت ہو گئی تھی بلکہ یہ مہمان نوازیاں اچھی لگنے لگی تھیں۔
[1] تہران کے ایک علاقے کا نام
صارفین کی تعداد: 1756