جناب غلام علی مہربان جہرمی کی ڈائری سے اقتباس

"جنگ بندی کا اعلامیہ، اس کی قبولی اور جنگ کا خاتمہ"

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ

2022-8-25


جولائی 1988 کی بات ہے۔ میں آبادان میں محاذ پہ تھا اور جنگی حکمت عملی وضع کرنے والے افراد کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان افراد میں احمد ربیعی، شہریار چہارستاد، فرامرز ابراہیمی اور محمود رحمانیان شامل تھے۔ کلاس کے بعد دوپہر دو بجے والی خبروں نے ہمیں چونکا دیا۔ خبر یہ تھی کہ امام خمینی رح نے جنگ بندی قبول کر لی ہے۔ یہ خبر ہمارے لئے بہت تکلیف دہ تھی۔ سب ٹی وی ہی دیکھ رہے تھے۔ اس خبر سے سبھی کے دل بہت افسردہ ہوگئے بلکہ بہت سارے تو رو بھی رہے تھے۔ اب شاگردوں کے اس سوال  کا کہ "امام رح نے کیسے جنگ بندی قبول کر لی؟" میرے پاس کوئی جواب ہی نہین تھا سو، میں نے اپنی تمام کلاسیں کینسل کر دیں۔
میں وہاں سے اٹھا اور مورچے میں جاکر اسدی صاحب اور ید اللھی صاحب کے پاس جا یٹھا، وہ بھی رو رہے تھے لیکن حقیقت کا علم انہیں بھی نہ تھا۔ بہرحال ان کا اصرار یہ تھا کہ کسی صورت اس حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے بھی کہا: اگرچہ یہ سب بہت افسوس ناک ہے لیکن کوئی اس کی مخالفت نہیں کرے گا"۔ 
پارلیمنٹ کے تمام نمائندے اور نماز جمعہ کے خطباء حضرات محاذ جنگ پہ آے ہوئے تھے۔ کچھ تازہ دم فوجی دستے بھی پہونچ چکے تھے تا کہ مورچے خالی نہ رہیں۔ پارلیمنٹ کے ایک مولانا نمائندے، جن کا نام روحانی تھا اور شهیدان شہر کے نمائندے تھے، نے مجھ سے محاذ کی صورت حال پوچھی اور کہا: "جوان جنگ بندی کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟"۔ میں نے کچھ وضاحت کی اور باقی سارا دکھ درد روتے ہوئے بانٹ دیا، اور کہا: "پوچھنا تو ہمیں آپ سے چاہیے کہ کیا ہوا ہے؟ امام  تو اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے تھے اور پورا ایک سال جنگ بندی قبول نہیں کی۔ اب ایسا کیا ہوا کہ اسی جنگ بندی کو قبول کر لیا؟!"
آقاے روحانی نے دوسروں کی موجودگی میں میرے سوال کا جواب نہیں دیا، لیکن بعد میں ٹہلتے ہوئے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا: ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں سپاہ اور فوج کے تمام افسران بالا، مجلس خبرگان اور مجلس تشکیل ( کانسٹیٹیو اسمبلی)کے تمام تر اراکین کے سامنے امام کا خط پڑھا گیا جس میں امام نے جنگ بندی کو قبول کرنے کی وجوہات بیان کی تھیں، ان میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ تمام افواج کے مشترکہ سربراہ، نائب سربراہ اور سپاہ کے کمانڈر نے  جنگ کو جاری رکھنے کے لئے مجھ سے بھاری مقدار میں جنگی جہاز اور دیگر اسلحہ کا تقاضا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کو جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ جب یہی جنگ جاری نہیں رکھنا چاہتے تو پھر میں کیا کروں۔ میں مجبور ہو کر جنگ بندی قبول کر رہا ہوں۔" خط کا متن سن سب حاضرین رو پڑے اور اپنا رد عمل ظاہر کیا اور بولے کہ اس خط کا میڈیا پر آنا بالکل مفاد میں نہیں۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو کچھ افراد محض اسی بہانے کی تلاش میں ہیں اور جنگ میں ایران کی شکست کو عنوان بنا کر ہر طرف سے دباؤ ڈالیں گے اور پورے آٹھ سال کا جنگی خسارہ ایران سے مانگیں گے۔۔آخرکار طولانی گفتگو اور تبادلہ خیال کے بعد یہ طے پایا کہ سپاہ اور فوج کے عسکری سربراہ اور خود آقاے ہاشمی رفسنجانی، جو قائم مقام چیف آرمی سٹاف تھے، امام کی خدمت میں جا کر یہ عرض کریں کہ اس خط کو میڈیا سے نشر نہ کیا جائے کیونکہ یہ مفاد عامہ کے خلاف ہوگا، اور یہ کہ امام کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ سادہ الفاظ میں ایک اور خط تحریر کریں جس میں علت کو ذکر کئے بغیر جنگ بندی کی قبولیت کو ذکر کریں۔
اب ظاہر سی بات تھی کہ یہ خط لے کر قائم مقام چیف آرمی سٹاف کو ہی امام خمینی کہ خدمت میں جانا تھا۔ وہ گئے اور اصرار بسیار کے بعد امام اس شرط پہ ماننے کو تیار ہوے کہ اس خط کو قانونی حیثیت کے ساتھ ڈاکومنٹس آفس میں رکھوایا جائے۔ اور پھر انہوں نے ایک اور خط لکھا جسے میڈیا سے نشر کیا جانا تھا۔"
یہی بعد والا خط تھا جس میں امام نے جنگ بندی قبول کرنے کو زہر کا پیالہ پینے شباہت دی تھی اور پھر اسے میڈیا سے نشر کیا گیا۔ 
اس کے بعد لشکر المہدی عج کے کمانڈ آفس میں کئی میٹنگز ہوئیں اور یہ طے پایا کہ "جنگ بندی کے مقدمات فراہم کرنے والی ٹیم" کے عنوان سے ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو فائر بندی کا حکم لاگو ہونے کے بعد بھی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کو روک سکے اور مجھے اس ٹیم کا سپیکر بنایا گیا۔ اب چونکہ فوجی سیکشنز اور بٹالینز مختلف جگہوں پہ تھیں سو مجھے لشکر المہدی عج سے متعلق تمام بٹالینز سے ملاقات کے لیے مختلف جگہوں کا سفر کرنا تھا۔ تو اب جا کر میں پہلے ولایت فقیہ پر گفتگو کرتا اور بتاتا کہ ولی فقیہ کی پیروی ہم پر لازمی ہے۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جب کہیں جنگ لڑیں تب بھی ہم تیار رہیں اور جب جنگ سے روکیں تو تب بھی ہم اس حکم کو دل و جان سے قبول کرین۔ ہم نے ہر حال میں ہر حکم ماننا ہے۔ اور ابھی جب جنگ بندی کا حکم لاگو ہوجائے تو پھر کسی چڑیا کو بھی گولی نہی مار سکتے تاکہ دشمن کو یہ کہنے کا بہانہ نہ مل سکے کہ ہم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
میں مسلسل کئی دن مختلف چھاؤنیوں پہ جا کر یہ یہی گفتگو دہراتا رہا۔ کئی احباب ایسے سوالات کرتے جن کا شفاف جواب دینے سے مین قاصر تھا۔ یا مبہم جواب دیتا یا کہہ دیتا کہ " اسکی وجہ نہیں معلوم کیا ہو سکتی ہے، بس اتنا ہے کہ امام خمینی کے لئے یہ بات عیاں ہو چکی ہے اب جنگ کو جاری رکھنا انقلاب اسلامی کے مفاد میں نہیں ہے۔"



 
صارفین کی تعداد: 1114


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔