شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2022-7-2
انقلاب کے بعد کچھ عرصہ گھر سے باہر نہیں نکلا۔ تقریبا بیس دن گذر گئے تب جا کر ریڈیو نے اعلان کیا کہ نیروھای رائل گارڈز دن آٹھ بجے صبح بری افواج کے ہیڈ کوارٹر میں پہنچ جائیں۔ وہ رات نہایت خوشی میں بسر ہوئی اور میں علی الصبح اپنے کپڑے استری کرکے اور بوٹ پالش کرکے لویزان پہنچ گیا۔ اس بات سے بے خبر کے میں اپنے ہی پیروں پر چل کر شکار کے جال کی جانب بڑھ رہا ہوں۔
پوری بٹالین سے بس چند ایک افراد ہی وہاں پہنچے تھے۔ حکم ملتے ہی ہم نے میدان میں اسمبلی کے لئے صفیں بنائیں۔ ناگہان صورتحال تبدیل ہوگئی اور دو جنگی جیپیں میدان میں داخل ہوئیں جن میں سوار سادہ لباس نامعلوم افراد نے اترتے ہی تیزی کے ساتھ چاروں طرف سے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ ان لوگوں نے فلسطینی چفیے سے اپنے منہ چھپائے ہوئے تھے انکے ساتھی نگہبانی کے ٹاورز پر بھی چڑھ گئے تھے جن کے ہاتھوں میں جی تھری گنیں موجود تھیں۔ انہوں نے جی تھری کا رخ ہماری طرف کیا ہوا تھا۔ ہم لوگ حیرت سے اپنی اپنی جگہ جم کر رہ گئے تھے۔ مشخص تھا کہ کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔ اس طرف ہم لوگ حیران و پریشان خوف اور وحشت کے عالم میں ایک خشک لکڑی میں تبدیل ہوچکے تھے، لیکن دوسری طرف پشت پردہ کچھ ایسے حالات تھے جن سے ہم بے خبر تھے اور جن کا ہماری سرنوشت پر بہت اہم اثر مرتب ہونا تھا۔ گویا اسی لمحے کسی ایسے شخص کے توسط سے جس کے بارے میں ہمیں کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھا، یہ خبر آیت اللہ طالقانی تک پہنچی اور اس شریف اور پارسا عالم دین نے نہایت تیزی سے اقدامات کرنا شروع ک۴ے اور ہمیں قیدی بنانے والوں کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ یہ کام کریں گے تو شریعت کی رو سے قاتل تصور کئے جائیں گے اور انکے اور عادی مجرموں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا اور اس کام کا اسلامی انقلاب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ "جاویدان گارڈز" یعنی وہی نیشنل گارڈز شاہ کے وفادار فوجی ہین اور ان کا وجود اسلامی انقلاب کے لئے خطرناک ہے۔ بہرحال آیت اللہ طالقانی نے امام خمینی رح کو فون کیا اور انہیں اس بات کی خبر دی۔ امام خمینی رح نے صراحت کے ساتھ حکم دیا کہ نیشنل گارڈز کے اہلکار بھی دوسرے فوجیوں کی طرح آزاد ہین اور ان میں سے بس ان فوجیوں کو انقلابی عدالتوں کے حوالے کیا جائے جو عوام کے کریک ڈاون اور قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔ ہم تین گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور جب آزاد کیا گیا تو میں نے محسوس کیا کہ پیاس کی شدت سے مرے جا رہا ہوں۔ وحشت اور پریشانی کی وجہ سے بدن خشک ہوچکا تھا اور ان تین جہنمی گھنٹون کے بعد میری حالت اس شخص جیسی تھی جو کئی دن سے کسی صحرا میں بھٹکتا پھر رہا ہو اور پیاس کی شدت اس پر گالب ہو۔ عجیب یہ تھا کہ اس دن آزاد ہونے کے بعد میں نے تقریبا دس لیتر پانی پیا تھا لیکن پھر بھی پیاس لگ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میرے بدن کے سارے خلیے جھلس چکے ہیں اور بدن میں موجود پانی بکارات بن کر اُڑ گیا ہے۔ اتنا زیادہ پیاسا تھا۔
میں سیدھا گھر پہنچا۔ ٹیکسی سے اترا تو دیکھا میری اہلیہ اپنے بچوں اور والدہ کے ہمراہ گلی کے کونے پر کھڑی ہیں اور ٹُکٹکی باندھے سڑک کو تک رہی ہیں۔ نہیں معلوم کہاں سے انہیں یہ خبر مل گئی تھی کہ لویزان میں نیشنل گارڈز کو قتل کیا جا رہا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ مسکراتا ہوا ہشاش بشاش نظر آؤں۔ مجھے دیکھتے ہی تینوں نے رونا شروع کردیا اور مجھے گھیرے میں لے لیا۔ درحقیقت میں ایک ایسا انسان تھا جو کسی اور دنیا سے آیا ہوا تھا۔
منبع: گلدوست، حسین، سرباز شهر ممنوعه، مستند روایی از خاطرات ستوان دوم (افسر گارد جاویدان) مرحوم نجفقلی اسکندری، تهران، انتشارات روایت فتح، 1400، ص 75 - 77.
صارفین کی تعداد: 3711