حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2022-7-1
1987 کا حج مکہ مکرمہ کی تاریخ میں خونی حج کے طور پہ درج ہے۔ یہ واقعہ امام خمینی رح کے نمائندے کی تقریر کے بعد، مشرکین سے بیزاری کی مناسبت سے پر جوش و خروش ریلی نکلنے کے دوران پیش آیا۔ عام طور پر مغرب کے نزدیک یہ حاجی روانہ ہوتے اور جہاں مغرب کی اذان ہوتی وہیں کی مسجد میں نماز جماعت ادا کرتے۔اور یہ ہر سال کا معمول تھا۔اس بار جب روانہ ہوئے تو کچھ دوست میرے ( یعنی حجت الاسلام والمسلمین سید جواد پیشوائی) ساتھ تھے۔ راستے میں ہم نے کیا دیکھا کہ حجت الاسلام غیاث واعظ، مرحوم الحاج آقائی صاحب، جو مسجد سید الشہدا (ع) کے خادم تھے، اور دیگر احباب پل کے نیچے سے کچھ زخمیوں کو اٹھا کر لا رہے ہیں۔ آگے کے لوگ پیچھے کی جانب اور پیچھے والے آگے جانے پر مصر تھے۔ ایک دھکم پیل تھی۔ اوپر سے شدید گرمی اور لو، ہم لوگ اس بھیڑ میں ہی پھنس گئے۔ فائرنگ کی آواز آرہی تھی۔ آنسو گیس کی وجہ سے کئی حاجی مرد و خواتین زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے جو یا حسین یافاطمہ اور یا علی پکار رہے تھے۔ بس مجھے تو یہ لگا کہ میری زندگی کا آج آخری دن ہے۔ شہادتین اور استغفار میری زبان پہ جاری تھا۔ اور ساتھ ہی اپنے شہید بیٹے مصطفی کو یاد کررہا تھا۔اور بس پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔جب ہوش آیا تو خود کو شہدا اور زخمیوں میں پایا۔ رات کا وقت تھا اور ہوا قدرے بھتر تھی۔ خود کو زندہ پاکر خوشی کا احساس ہوا۔ جب اٹھا تو محسوس ہوا کہ سر پہ عمامہ ہے اور نہ پاؤں میں جوتے۔بس بدن پہ جبہ تھا اور کمر پر بیلٹ والٹ بندھا تھا۔ سامنے کیا دیکھا کچھ پولیس والے اور کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد لمبے لمبے ڈنڈوں سے ایرانیوں کو مار رہے ہین۔ میں تیزی سے وہاں سے نکلا اور فلسطینیوں کی قیامگاہ کی طرف بھاگا کیونکہ وہ ایرانیوں کو پناہ دینے تھے۔
معابدہ چوک کے پاس ایک پولیس والے نے میرے سر پہ اس زور سے ڈنڈا مارا کہ میں بے ہوش ہو کر گر گیا۔ کچھ ایرانی مجھے تھام کر فلسطینیوں کی قیامگاہ میں لے آئے۔ وہاں پر سب ایرانی مرد و خواتین تھے۔ کسی ایک نے میرے چہرے پہ پانی ڈالا جس سے طبیعت کافی سنبھل گئی۔ اب آنکھ کھلی تو کیا دیکھا کہ وہیں پر میری ہمشیرہ اور بھانجا بھی موجود ہین۔ ہمشیرہ تو مجھے دیکھتے ہی بے ہوش گئیں۔ یہ منظر روز عاشورا و شام غریباں کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایرانیوں کی مدد سے بعثہ کمیٹی اور ہلال احمر کے افراد ہمارے مدد کو پہونچ گئے۔ ( خدا ان ایرانیوں کو جہاں بھی ہوں اپنی امان میں رکھے۔)
زخمیوں کو معابدہ چوک تک لاکر وہاں سے ایمبولینس گاڑیوں میں بٹھا کر ڈسپنسری روانہ کیا گیا۔ اور کچھ تو ایرانیوں کو ان کے کارواں سے ملانے میں بھی مدد کررہے تھے۔
ہم ایمبولینس کے منتظر تھے۔ اتنے میں میری نگاہ جناب آقا عبادی، جو تہران میں ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ کے تربیتی امور کے انچارج تھے، پر پڑی۔ جو اپنے ہی افراد کی مدد سے زخمیوں کو سنبھال رہے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے ہی رو پڑے۔ میں نے کہا روئیے مت۔ مجھے ہسپتال پہنچایئے۔ باری باری ترتیب سے زخمیوں کو ایمبولینس گاڑیوں میں بٹھایا جارہا تھا۔ ایک دوست نے کہا کہ پہلے آقا پیشوائی کو سوار کرائیں۔ کیونکہ یہ ہمارے استاد اور امام خمینی رح کے نمائندے ہین۔ بہرحال مجھے بنا کسی باری کے ایمبولینس مین بٹھا کر ایرانی ہلال احمر ڈسپنسری روانہ کیا گیا۔ وہاں زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ مجھے بے ہوش کیے بغیر چند ٹانکے بھی لگے اور ڈرپ بھی لگی۔ کاش ٹانکے نہ لگاتے۔ کیونکہ درد بہت زیادہ تھا۔ پھر ہم وہاں سے جناب حسن عابدی کے کارواں کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے کارواں کا روحانی و عالم میں ہی تھا۔ سب زائرین نے روتے ہوئے استقبال کیا۔ بہر حال اعمال بجا لانے کے بعد جب میں تہران پہنچا تو دوست و رشتہ دار سبھی ملنے آرہے تھے، جن میں شہید بزرگوار مسعود جلیلی کے والدین بھی تشریف لائے تھے، شھید میری کلاسز میں شرکت کرتے تھے، شہید کی والدہ کہنے لگیں کہ میں اس سانحہ کی رات ہی سمجھ گئی کہ آپ زخمی ہوے ہیں۔ دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں۔ بس اللہ نےمجھے اور دیگر ساتھیوں کو انکو کی مدر کے لیے بھیج دیا۔ ہم نے کوشش کی تا کہ ان کو اس راستے سے ہٹا دیں"۔
اس وقت اس جملے کو میں نے بالکل درست پایا کہ "شہدا ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔"
اللہ کا شکر ہے کہ ان کلاسوں کی برکت سے جن میں میں بے لوث شرکت کرتا تھا، اللہ نے میری جان بخشی کا سبب بنایا۔ ایسی نیکیوں کا صلہ اللہ یوں ہی دیتاہے۔
نیکی کر دریا میں ڈال۔ کیونکہ ایسی نیکی کا بدلہ اللہ انتہائی مشکل وقت میں دیتا ہے۔
صارفین کی تعداد: 3900