قصہ عظیم الشان مظاہروں کا

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-3-8


پہلے جو تخمینہ لگایا گیا تھا وہ یہ تھا: عید فطر کے موقع پر تقریبا دو لاکھ افراد نے مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ کیا اب چار شوال کو ہونی والے مظاہروں میں اتنی تعداد ہوگی کہ اُس مظاہرے کی کیفیت برقرار رہے؟ یہ ان لوگوں کے سوالات تھے جو اپنے آپ کو بہت زیادہ آگاہ سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ معاشرے کی نبض انکے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن تجربہ یہ بتا رہا تھا کہ جب جب مذہبی طاقتور عوامل ناکارہ ہوئے ہیں تخمینے بھی غلط ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ تقریبا ایک میلین افراد نے دوسری دفعہ مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ اس دن دوست احباب یہ چاہ رہے تھے کہ میں پیچ شمیران کے علاقے میں باجماعت ظہر کی نماز پڑھوں۔ میں نے نماز پڑھی۔ کہنے لگے: اب مظاہروں کو جہت دینے کی ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ بعض علما حضرات کے ساتھ چلنا شروع کیا۔ میرا خیال تھا کہ عوام کو آزادی اسکوائر کی جانب لے جایا جائے۔ پیچ شمیران سے آزادی اسکوائر تک کا فاصلہ کافی زیادہ تھا۔ بعض افراد بڑبڑانے لگ گئے۔ کہنے لگے: لوگ تھک چکے ہیں یا تھکنے والے ہیں۔ میں نے کہا: بالآخر ہمیں چلنا ہوگا تاکہ مظاہرے جاری رہ سکیں، ہم غروب تک وہاں پہنچ جائیں گے۔ وہاں پہنچ کر تقریر کے مقدمات فراہم کئے گئے۔ ہم نے ایسے ہی چلتے چلتے ٹرکوں کو دیکھا جو مسلح جتھوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دو روز قبل ہی کہا گیا تھا کہ حکمران جمعرات کو فائرنگ اور حملہ کے لئے تیار ہے۔ ہم نے ان دھمکیوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔ خواتین نے، ان بہادر بہنوں نے اس دن معرکہ سر کیا تھا۔ اس دن مظاہروں میں بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ آزادی اسکوائر پہنچ گئے وہاں ہر جگہ سے زیادہ فوجی انتظامات کئے گئے تھے اور یہ خواتین اسی عالم میں مٹھیاں بھینچے ہوئے نعرے لگا رہی تھیں۔ انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ انقلاب۔ اسلامی انقلاب۔ اسی طرح مظاہرے جاری تھے۔ بعض اوقات جھڑپیں ہوتیں۔ قومی تنظیموں نے مظاہروں کے انتظامات کی میٹنگ میں یہ کہہ دیا تھا کہ اس کے انتظامات ہمارے ہی ہاتھوں میں رہیں تو اچھا ہے، چونکہ آپ لوگ کسی گروہ یا کسی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں۔ عوام کا بھی کسی خاص گروہ سے تعلق نہیں ہے۔تو اس کے انتظامات ہمارے پاس ہی رہنے دیں۔ لیکن جوانوں کا جواب یہ تھا کہ ان دوستوں کو کہہ دیں: یہ لوگ بھی عوام کے ایک جز کے عنوان سے تشریف لے آئیں۔ ہم کسی تنظیم کا حصہ نہ ہونے اور اس کام کا تجربہ نہ ہونے کے باجود اس بات کی اہلیت رکھتے ہیں کہ ایک مظاہرے کے انتظامات چلا سکیں۔ آپ اس کا غم نہ کھائیں۔ ایک ایک کر کے عظیم الشان مظاہرے منعقد ہوتے رہے یہاں تک کہ استعمار کا ایجنٹ ملک چھوڑ کر بھاگ گیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 1659


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔