طیب اور حاج اسماعیل کو سزائے موت دیئے جانے پر ردعمل
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2021-11-21
ساواک نے طیب حاج رضائی اور حاج اسماعیل رضائی کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کے ایک دن بعد اپنی ۳ نومبر ۱۹۶۳ کی رپورٹ مین لکھا:
حوزہ علمیہ قم نے ان دو افراد کو سزائے موت دیئے جانے کی خبر سنتے ہی دو اقدامات انجام دینے کے بارے میں گور و فکر کرنا شروع کی جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱: درس کی چھٹی کی جائے
۲: مجلس ترحیم منعقد کی جائے
ان دو موضوعات پر سب سے پہلے آیت اللہ شریعتمداری سے سوالات کئے گئے، لیکن مذکورہ شخصیت نے صراحت سے جواب نہین دیا یہاں تک کہ گذشتہ شب سید محمد صادق شریعتمداری کو فون کرکے سوال کیا کہ مرکز کی سورتحال کیسی ہے؟ لوگوں نے تشییع جنازہ کی ہے یا نہیں؟ ہم درس کی چھٹی کریں یا نہیں؟ انہوں نے سوالات کے جواب میں کہا کہ عوام میں ہیجان پایا جاتا ہے ، تشییع جنازہ ایک اچھا عمل ہے اور آپ لوگ کسی صورت بھی درس کی چھٹی نہ کریں، اگر سب لوگ اقدام کرتے ہیں تو آپ اکثریت کا ساتھ دیں۔ آج طراز اول کے تمام علما نے صلاح مشورے کے بعد درس کی چھٹی کی ہے اور اسوقت بھی درس معطل ہیں۔
ایک اور رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ:
حاصل شدہ اطلاعات کے مطابق قم میں آج آیات شریعتمداری، نجفی اور گلپائگانی درس دینے نہیں آئے اور اسکی وجہ طیب اور حاج اسماعیل کو سزائے موت دیا جانا تھا۔ اسی کے ساتھ شریعتمداری کی تجویز پر سید احمد زنجانی کے گھر میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی تاکہ دوسرے افراد کو اس بات پر آمادہ کیا جاسکے کہ ان دو مقتولین کے لئے مجلس ترحیم منعقد کی جائے۔
قیام 15 خرداد به روایت اسناد ساواک، ج 4، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1380، ص 190.
[2]. همان، ص 191.
صارفین کی تعداد: 2675








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
لبنان کے شیعوں کی سپریم اسلامی کونسل کے اراکین کا ایران کا سفر
اس وقت امام خمینی نے مذکورہ وفد سے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ سب سے قیمتی تحفہ جو آپ لوگ، ہمارے اور انقلاب کے لیے لائے ہیں وہ ڈاکٹر چمران ہے، اس ملاقات کے بعد امام خمینی نے ڈاکٹر چمران کو لبنان واپس جانے کی اجازت نہیں دی"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

