تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – بائیسویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: ضمیر رضوی

2020-5-10


کچھ دن تک میں یہ لذیذ کھانا کھاتے رہنے سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ ایک دن میں نے ایک فوجی سے پوچھا کہ اس کھانے کا راز کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا: "سچ تو یہ ہے کہ یہ کھانا ہماری بریگیڈ کی پہلی ریجمنٹ کی جانب سے تحفے کے طور پر بریگیڈ کمانڈر کو بھیجا جاتا ہے۔"  میں نے کہا: "کون سی پہلی ریجمنٹ؟ کیا یہ ریجمنٹ عراقی فوج کا حصہ نہیں ہے؟"

اس نے جواب میں کہا: "کیوں نہیں ایسا ہی ہے لیکن ان کے پاس کچھ مقامی بھیڑیں ہیں جو انھوں نے غنیمت کے طور پر قبضے میں لے لی ہیں۔" میں نے کہا: " سمجھ گیا۔"

گویا میجر جنرل "حسن" نے مظلوم دیہاتیوں کے مصیبت زده دیہاتوں سے فرار ہونے کے بعد ان کی بھیڑیں لوٹ لی تھیں۔ اگلے دن میں نے اس فوجی سے کہا کہ اب مزید میرے لیے یہ کھانا نہ لائے، اور اس لیے تاکہ وہ اس بات سے بدگمان نہ ہو میں نے کہا: "یہ کھانا بریگیڈ کمانڈر کے لیے خاص تحفہ ہے اور اگر میں اس کے علم میں لائے بغیر یہ کھانا کھاؤں تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے لیے کوئی مشکل کھڑی کر دے۔"

ایک ہفتے بعد لیفٹیننٹ کرنل اسٹاف کا بغداد  کے سیاسی جواز  کے ادارے میں تبادلہ ہوگیا اور ان کی جگہ بیسویں بریگیڈ کے کمانڈر کرنل اسٹاف "عبدالمنعم سلیمان" نے کمانڈ کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس افسر کا تعلق موصل سے تھا اور وہ ملٹری اکیڈمی میں پڑھایا کرتا تھا۔ موصل کے افسران اکثر تجربہ کار، ہنرمند اور فوج میں خدمت انجام دینے میں دلچسپی رکھنے والے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہائی رینک افسران سے لے کر فوجی سپاہی تک ان کی خاص رعایت کی جاتی ہے۔ چونکہ میں بھی موصل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تھا اس لیے مجھے بھی اس خاص عنایت اور حمایت سے فائده ہوا۔ اس کے باوجود کہ میری نظر میں یہ بالکل منفی اور نا خوشگوار رجحان ہے لیکن پھر بھی میں نے ان حالات میں اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔ بریگیڈ کے ارکان افسران اور کمانڈر مجھے احترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور خود کرنل اسٹاف "عبدالمنعم" بھی ڈاکٹروں کے بہت زیادہ احترام کے قائل تھے۔

ان حالات میں میرا کافی اچھا گزارا ہو رہا تھا لیکن توپ خانوں کے حملوں نے ہماری زندگی کو ایک ناقابل تحمل جهنم میں تبدیل کر دیا تھا۔  میں نے صرف اپنی خندق اور آپریشنل اور کمانڈنگ خندقوں کی حدود میں (جن کے درمیان 50 میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا) اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

28 جنوری 1981، ایک بہت معتدل اور دھوپ والا دن تھا۔ دوپہر کے دو بجے میں اپنی خندق کے دروازے پر کھڑا تھا اور فرسٹ لیفٹیننٹ "عادل" سے گفتگو کر رہا تھا۔ ریسکیو خندق کا داخلی راستہ میرے سامنے تھا بات چیت کے دوران میں نے دیکھا کہ ریسکیو خندق کے داخلی راستے سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد میرا ڈرائیور "علی" آگ کے شعلوں سے جلتا ہوا نکلا، وہ چیختا چلاتا ہوا بھاگا، ہم اس کے پیچھے دوڑے جب وہ زمین پر گرا تو میں نے اپنے کمبل سے اس کے کپڑوں میں لگی ہوئی آگ کو بجھا دیا۔  پھر میں نے اسے ایک جیپ کے ذریعے گیارہویں فیلڈ میڈیکل یونٹ روانہ کردیا مجھے اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ آگ کے شعلوں میں سے اس کے نکلنے کا منظر میں نے سینما کی فلموں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھا تھا۔ یہ بیچارہ سگریٹ پیتے پیتے اپنے کپڑے پیٹرول سے صاف کر رہا تھا کہ اچانک پیٹرول میں آگ بھڑک اٹھی اور اس کے کپڑوں، روئی اور الکوحل اور دوائیوں سے بھری خندق سب میں آگ لگ گئی۔ خندق کے اندر سے گاڑھا دھواں اٹھ رہا تھا، یہ مسئلہ ہم سب کے لیے خطرے کا باعث تھا کیونکہ ہوسکتا تھا کہ ایرانی توپ خانوں کو پتہ چل جائے اور وہ ہمیں آسانی سے نشانہ بنائیں۔ اسی لیے میں نے انجینئرنگ یونٹ سے کہا کہ خندق کے داخلی راستے کومٹی سے ڈھک دیں۔ شام پانچ بجے تک ہم نے انتظار کیا، پھر ہم نے دوبارہ خندق کا دروازہ کھولا، ابھی تک آگ لگی ہوئی تھی فرسٹ لیفٹیننٹ "عادل" ایمبولینس کا آتش کش کیپسول (fire-extinguisher) لے کر خندق میں داخل ہوئے اور آگ پر قابو پالیا۔

اگلے دن صبح سارجنٹ "علی" کی جگہ ایک دوسرے ایمبولینس ڈرائیور کو ہمارے پاس بھیجا گیا۔ یہ ڈرائیور کم عمر تھا اور ظاہری طور پر اگلے مورچوں سے واقفیت نہیں رکھتا تھا۔ میں نے اس کا استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ان چیزوں کی یاد دہانی کرائی جن کی رعایت کرنا اس کے لیے ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے یونٹ سے درخواست کی کہ اس کی جگہ ایک گریڈڈ ایمبولینس ڈرائیور کو بھیجا جائے، کیونکہ ایمبولینس کی ڈرائیونگ ایک بہت اہم کام تھا۔

اگلے دن صبح دس بجے ہماری بریگیڈ کے کیمپ پر ایرانی ٹینکوں نے شدید گولہ باری کردی. وہ "دب حردان" گاؤں کے سامنے موجود تھے۔ پہلی ضرب انجینئرنگ یونٹ کو لگی اور ان کے دو فوجی "عبدالکریم" اور "عبدالحسین" جنہوں نے گزشتہ روز ریسکیو خندق کی آگ بجھانے میں مدد کی تھی اپنی خندق کے سامنے خاک و خون میں غلطاں ہو گئے۔

 کسی میں انہیں لانے کی جرأت نہیں تھی دس منٹ بعد انہیں لایا گیا مگر وہ دم توڑ چکے تھے۔ میں نے جوان ڈرائیور کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا وہ ریسکیو خندق سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ مجبور ہوکر میں اس کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ وہ خوف کی شدت سے کانپ رہا ہے میں نے اس سے کہا: " میرے ساتھ آؤ، ہمارے دو افراد شہید ہوگئے ہیں۔" اس نے کہا: "ڈاکٹر! میں نہیں آسکتا۔۔۔ گولہ باری بہت شدید ہے۔"

میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور میرے اصرار کرنے کے بعد وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ باہر نکلا اور ایمبولینس نکالی۔ جب ہم جسدوں کو ایمبولینس میں منتقل کر رہے تھے تو اسی دوران ہم سے چند قدم کے فاصلے پر تین مارٹر گولے آکر گرے، ہم نے فوراً اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا، ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن تین جھٹکوں سے ایمبولینس کی باڈی میں  شگاف پڑ گئے۔ ڈرائیور اپنی جگہ سے اٹھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا مگر اس میں ایمبولینس چلانے کی ہمت نہیں تھی۔ خوف کی شدت سے وہ اس طرح گیئر بدل رہا تھا کہ ایمبولینس کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے چلانے لگا۔ میں نے اس کے لئے گیئر تبدیل کیا اور اسے ایمبولینس چلانے کا حکم دیا۔ اس نے دیوانوں کی طرح تیز رفتار سے گاڑی چلائی۔ گویا اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اس حادثے سے صحیح سلامت بچ کر نکل پائے گا۔  جیسا کہ میں پہلے پیشن گوئی کر رہا تھا وہ پھر واپس نہیں آیا۔ میں اس انتظار میں تھا کہ نیا ڈرائیور بھیجا جائے۔

19 فروری 1981ء  ہماری بریگیڈ کا کیمپ  اہواز-خرم شہر ہائی وے کے مغرب میں واقع میکنائزڈ بریگیڈ 48 کے کیمپ کی جگہ منتقل کر دیا گیا۔  یہاں یہ بتاتا چلوں کہ بریگیڈ 48 ہماری آمد سے پہلے ہی اپنا اڈا چھوڑ چکی تھی اور آبادان آپریشنل ایریا روانہ کی جا چکی تھی۔ ہمارے نئے کیمپ میں صاف ستھری اور مضبوط خندقیں تھیں جو ایک دوسرے کے قریب تھیں۔ ہمارے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے اور دور دور گاؤں تھے جو رہائشیوں سے خالی تھے۔ ان میں سے سب سے نزدیک گاؤں میں آٹھ مٹی کے گھر تھے اس سرسبز علاقے میں ایک خاص خوبصورتی اور تازگی تھی۔ لالہ کے پھولوں نے اسے ایک خاص تازگی بخشی ہوئی تھی. خوزستان میں عام طور پر بہار جلدی آ جاتی ہے اور بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

تتلیوں اور پرندوں کی پرواز نے ہماری ایک سی زندگی کو ایک خاص جوش بخشا۔ مینائیں اپنے شور کے ذریعے چاہتی تھیں کہ ہماری زندگی کو نئے رنگ بخشیں کیونکہ ہم رقت آمیز اور موت کے مناظر دیکھ دیکھ کر اکتا چکے تھے۔ خوش قسمتی سے موسم بہار کے حالات اور گولہ باری کے خاتمے سے ہماری حالت کچھ بہتر ہوگئی تھی۔  کبھی ہم دیکھتے تھے کہ ایک تازہ کھلنے والا پھول ہزاروں کھردرے کانٹوں کے بیچ سے جلوہ گر ہورہا ہے۔ درحقیقت محبت اور خوبصورتی کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب انسان، بدصورتی، ناراضگیوں اور دشمنیوں سے روبرو ہو۔

میڈیکل اسسٹنٹ اور ڈرائیور کی درخواست پر میں نے کیمپ کے جنوب میں واقع دورترین خندق کا انتخاب کیا تاکہ ان افسروں اور کمانڈروں سے دور رہ سکوں جو ہر چھوٹی بڑی چیز پر اعتراض کر رہے تھے۔ میری سرگرمیوں کی حد موبائل میڈیکل یونٹ سے لے کر کمانڈ کے خصوصی کیمپ اور آپریشنل افسروں کی خندق تک تھی موبائل میڈیکل یونٹ میں، میں زیادہ تر مطالعے، ریڈیو پروگرام سننے اور کبھی کبھار مینا کا شکار کرنے میں مشغول رہتا۔  مجھے روزانہ تین مرتبہ آپریشنل افسران کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے کمانڈ کیمپ جانا پڑتا تھا۔ وہاں میری ملاقات "دیالہ" کے رہائشی سیکنڈ کرنل اسٹاف "عبدالکریم حمود" سے ہوئی۔ اس نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے شادی کی تھی اور وہ ڈاکٹروں کے خاص احترام کا قائل تھا دن کے وقت کمانڈ کیمپ جانا تو آسان کام تھا لیکن رات کے وقت اپنی خندق تک واپس آنا میرے لیے مشقت والا کام تھا کیونکہ میں راستہ بھٹک جاتا تھا لیکن اس ٹیلیفون کیبل کی موجودگی کا پتہ لگنے کے بعد جو میرے خندق کے قریب تک پھیلی ہوئی تھی میں نے اس مسئلہ پر قابو پالیا۔

جاری ہے۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2731


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت

میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی. میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تھوڑا پیچھے جا کر بیٹھ جائیں اور مجھے آپ کی پیروں کی آواز سے پتہ چلنا چاہیے کہ آپ لوگ کہاں ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔