تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – اکیسویں قسط
مجتبیٰ الحسینی
مترجم: ضمیر رضوی
2020-4-18
15 جنوری 1981ء، شام کے وقت میں جفیر پہنچا اور معمول کے مطابق جو ڈیوٹی لیٹر میرا انتظار کر رہا تھا مجھے ملا۔ اگلے دن میں نے سامان سفر باندھا اور بریگیڈ کی "پ" بیس کیلئے روانہ ہوگیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں نماز ظہر کے وقت وہاں پہنچوں گا جب ایرانی فورسز کی گولہ باری رک جاتی ہے۔ میں مقررہ وقت پر بریگیڈ کے کیمپ پہنچا۔ میڈیکل ڈپٹی ڈائریکٹر "حجام" نے اپنی ہمیشہ کی مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ اس بار سب کچھ بدل چکا تھا اور کرنل اسٹاف "جواد اسد شیتنہ" کی بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی ہو چکی تھی اور وہ مہران میں آرمرڈ ڈویژن-12 کے کمانڈر بن گئے تھے اور ان کی جگہ کرنل اسٹاف "مزعل" نے بریگیڈ کی کمانڈ سنبھال لی تھی۔
صدام نے جنگ کے ابتدائی دور میں اپنی ایک تقریر کے دوران 20 ویں بریگیڈ اور اس کرد افسر "اسعد شیتنہ" کی تعریف کی۔ اسے اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری میں کی گئی کوششوں کی وجہ سے ایک تشویقی عہدہ اور صدام کے ہاتھ سے شجاعت کا میڈل دیا گیا۔ مذکورہ شخص نے فروری 1977ء میں ہونے والے قیام کی سرکوبی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس سال امام حسین علیہ السلام کے اربعین کے موقع پر امام کے کچھ زائرین نجف سے کربلا پیدل جا رہے تھے لیکن حکومت کی نوکر فورسز نے انہیں اس زیارت سے روک دیا اور اس ممانعت نے عوامی تحریک کی ایک لہر دوڑا دی۔ اسعد شیتنہ جو اس زمانے میں آرمرڈ بریگیڈ 6 کے تابع پیادہ مشینری ریجیمنٹ کا کمانڈر تھا، وه انقلابی زائرین کے قیام کی سرکوبی کے لئے شہر "مسیب" سے روانہ ہوا۔
میں نے بریگیڈ کے ٹھکانوں کے ایک مختصر دورے کے دوران 5 جنوری 1981ء کی لڑائی کی شدید بمباری کے آثار کا مشاہدہ کیا۔ میں اس ایمبولینس کے ملبے کے کنارے کھڑا ہوا جو کاتیوشا کا گولہ لگنے سے تباہ ہوگئی تھی۔ زمین اپنے شگافوں کی وجہ سے پھسل رہی تھی اور بارود کے کالے رنگ کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی۔ میں نے کچھ افسروں اور عہدہ داروں سے ملاقات کی، ناکامی اور ناراضگی کے آثار ان کے چہروں پر نظر آ رہے تھے۔
اگلے دن میں 57 میلی میٹر طیارہ شکن توپوں کے ٹھکانوں پر گیا۔ میں نے دوربین کے ذریعے اگلے مورچوں پر نگاہ ڈالی تو 5 جنوری کو گاؤں"دب حردان" کے نزدیک تباہ شدہ ایرانی ٹینکوں کا ملبہ دکھا۔ اس کے بعد میری ایک بغدادی نوجوان افسر، فرسٹ لیفٹیننٹ "عادل" سے ملاقات تھی۔ وه ایک خوش اخلاق انسان تھا اور فوجی آپریشنز انجام دینے کے لیے حد سے زیادہ رغبت دکھاتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ سیکنڈ کرنل اسٹاف"مزعل" نے 5 جنوری کےحملے میں شکست کھائی اور اس کے نتیجے میں میجر جنرل "عبدالقادر" جو بریگیڈ کا انٹیلی جنس آفیسر تھا، نے زبردستی بریگیڈ کی کمانڈ سنبھال لی اور ایرانی فورسز کے ہمارے ٹھکانوں پر ہونے والے حملے کو روکا۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ بعثیوں کی خصلت ہے کہ وه عام حالات میں بہادر اور خطرناک حالات میں ڈرپوک اور بزدل ہوتے ہیں۔
اسی دن، رات میں سیکنڈ کرنل اسٹاف "مزعل" نے مجھے اپنی خندق میں بلایا، وه گرہنی کے زخم(درد اثنا عشر) کی تکلیف، سانس کی تنگی، اور اسی طرح بے خوابی کی وجہ سے بہت زیادہ بے چین تھا۔ کچھ ملاقاتوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک فوجی کمپنی(ہر کمپنی میں 120 فوجی ہوتے ہیں) کی کمانڈ کے لائق بھی نہیں ہے۔ وہ سکون کی دوائیں استعمال کیے بغیر سو نہیں پاتا تھا۔
کچھ دنوں بعد میری ہیوی آرٹلری بٹالین 36 کے کمانڈر، کرنل "عبدالکریم مشیعان" سے جان پہچان ہوئی، وه بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھے۔ جب بھی میں ان سے ملتا تھا تو وہ موجودہ حالات اور جنگ سے متعلق اپنی ناراضگی اور پریشانی کو نہیں چھپاتے تھے۔ اس بات سے کہ وه ایک لیفٹیننٹ کرنل سے آرڈرز لیتے تھے شدید تکلیف میں تھے۔ اگرچہ یہ بات فوج کے قانون کے خلاف ہے لیکن بعثی وہی کرتے ہیں جو ان کے فائدے میں ہوتا ہے۔ کمانڈر، بریگیڈ کے ارکان اور اعلی افسروں سے ملاقات کے دوران مجھے احساس ہوا کہ وہ لوگ جنگ اور تصادم سے بیزار ہیں، اور اس کے باوجود کہ وه لوگ جنگ کی حقیقت سے واقف تھے، اپنی دلی خواہش کے خلاف یا مادی برتری کے لالچ میں یا دہشتگرد نظام کے خوف سے جنگ میں شرکت کر رہے تھے۔
اس مرتبہ انجینئرنگ کمپنی نے میرے لئے ایک مضبوط اور پائیدار خندق بنائی تھی۔ ہمارے ٹھکانوں پر ٹینکوں کی گولہ باری جاری تھی۔ کافی دیر ہوگئی تھی کہ 175 ملی میٹر ہیوی توپخانہ فائرنگ نہیں کر رہا تھا۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا: "اس کا گولہ بارود ختم ہوچکا ہے۔"
اگلے مورچوں پر موجود ایرانی، مارٹر گولوں اور اینٹی ٹینک "ٹاؤ" میزائلز سے لیس تھے اور اسی چیز نے ہماری آرمرڈ فورسز کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں خندق کے دروازے پر کھڑا تھا، میں نے اپنے آپ سے پوچھا: " یہ میزائلز ٹینک کا کیا کر سکتے ہیں؟" اتنے میں مجھ سے 800 میٹر کے فاصلے پر ایک ٹینک کو میزائل آکر لگا اور ایک نیلے رنگ کا شعلہ دکھائی دیا جو جلد ہی پیلے رنگ میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے فوراً بعد دھماکے کی آواز کے ساتھ دھویں اور آگ کا ایک غلیظ غبار بلند ہوا۔ فوراً ہی ایرانیوں نے توپخانے کی مسلسل فائرنگ کے ذریعے اس ٹینک اور اس کے آس پاس ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ہماری فورسز اس کی آگ بجھانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ ٹینک لوہے کے ٹکڑے بلکہ کباڑ میں تبدیل ہوگیا۔ دس منٹ بعد اس ٹینک کے ڈرائیور کو میرے پاس لایا گیا، اس کا سر اور بدن جل چکا تھا اور ایک ٹانگ بھی کٹ چکی تھی۔ ٹھیک اسی وقت ہمارے اڈوں پر بھی فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں نے مجبوراً اسے خندق کے کنارے کھڑے آرمرڈ پرسنل کیریئر میں ڈال دیا اور خود ٹینکوں کی پاس چھپ گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس جو ایمبولینس تھی وہ ایک زخمی کو لے کر محاذ کے پیچھے گئی ہوئی تھی۔ حالات بہت خراب تھے۔ ایک شخص جس کا سر اور چہرہ جلا ہوا تھا اور ایک ٹانگ بھی کٹی ہوئی تھی بےرحم فائرنگ کے دوران عاجزی کے ساتھ ہم سے مدد کی درخواست کر رہا تھا۔ میں اکیلا تھا۔ میں اس کے لیے کیا کر سکتا تھا؟ اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل جاتا؟ اس صورت میں میرا مرنا یقینی تھا۔ اسی طرح بغیر کچھ کیے اپنی پناہ گاہ میں رکا رہتا؟ وہ کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں دیکھتا اور درد بھری آواز میں کہتا: " میری مدد کرو میرے بیوی بچے ہیں۔"
ان حالات میں سیاسی جوازی افسر کا ٹیلی فون مسلسل بج رہا تھا۔ اس شخص نے جو اپنی وطن پرستی اور بہادری پر فخر کرتا تھا، خوف کی شدت سے زمین کے اندر پناہ لی ہوئی تھی، کوئی نہیں تھا جو ٹیلی فون اٹھائے۔ میں نے خدا پر توکل کیا اور اپنے آپ کو گھٹنوں کے بل اس زخمی شخص کی جانب لے گیا اور ساتھ ہی ساتھ میں نے مدد کی درخواست کی۔ کوئی بھی میری مدد کے لئے نہیں دوڑا سوائے فوجی سپاہی "متی" کے جو بریگیڈ کمانڈر کا خاص خدمت گزار تھا۔ اس شدید فائرنگ میں اس فوجی کی مدد کے ساتھ زخمی کا علاج کرکے ہم نے اسے آرمرڈ پرسنل کیریئر کے نیچے منتقل کر دیا۔ آدھے گھنٹے بعد ایمبولینس پہنچی اور اس زخمی کو گیارہویں موبائل میڈیکل یونٹ منتقل کردیا گیا۔
اگرچہ خوزستان کی سردی اتنی تکلیف ده نہیں تھی لیکن اس کی راتیں لمبی تھیں۔ ان دنوں میڈیکل ڈپٹی ڈائریکٹر "حجام" میرے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ اس کی ہستی، کچھ کتابیں اور میگزینز میری تنہائی کے لمحوں کے بہترین ساتھی شمار ہوتے تھے۔ ایمرجنسی کی خندق میں ایمبولینس کا ڈرائیور سارجنٹ "علی" آرام کر رہا تھا۔ وہ ایک سادہ لوح انسان اور "عمارہ" کا رہنے والا تھا۔ وہ چائے اور سگریٹ پینے سے سیر نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ہی فکروں میں کھویا رہتا۔ چونکہ وہ دن میں کئی مرتبہ کھانا کھاتا تھا، تو مجھے رات کے ایک وقت کے کھانے کے طور پر شیره خرما(کھجور کا شیره) اور ارده(تلوں کا پیسٹ) کے علاوه کچھ نہیں ملتا تھا۔
سردیوں کی ایک رات، انجینئرنگ کمپنی کے کمانڈر، کیپٹن "حازم" کو ہمارے پاس لایا گیا۔ وہ ممنوعہ علاقے اور اگلے مورچوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ میں نے لالٹین کی روشنی میں اس کا معائنہ کیا، مجھے پتہ چلا کہ گولی اس کے سردیوں کے موٹے کپڑے اور نوٹوں سے بھرے بٹوے سے ہوتی ہوئی اس کے سینے کے بائیں حصے میں لگی ہے۔ خوش قسمتی سے گولی نے صرف اس کی کھال اور پٹھوں کو ہی چیرا تھا، چونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ گولی اس کے دل میں لگی ہے وہ پوری طرح ہمت ہار بیٹھا تھا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ گھاؤ سطحی ہے گہرا نہیں ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے جسم سے زیادہ اس کی روح کو نقصان پہنچا تھا۔ اس کے غیر اخلاقی کاموں خاص طور پر شہوت انگیز میگزینز کے مطالعے کی یاد دہانی کے بعد میں نے اسے بصرہ کے ملٹری ہسپتال روانہ کر دیا۔
ان دنوں افسروں کے باورچی خانے میں دو قسم کے کھانوں نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ یہ بات مشہور ہے کہ عراقی فوج کے افسروں اورعہدیداروں کے لیے الگ الگ کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن میں پہلی بار افسروں کے لیے مخصوص دو قسم کے کھانوں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ بریگیڈ کمانڈر اور آپریشنز آفیسرز کیلئے لذیذ کھانا اور دوسرے افسروں کے لیے عام کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ مجھے اس حقیقت کا پتہ اس وقت چلا جب افسروں کے باورچی خانے کا ایک فوجی میرے لیے لذیذ کھانا لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا:" کھانا بہت مزیدار تھا!" اس نے کہا: "جی ایسا ہی ہے، میں بریگیڈ کمانڈر کے خاص کھانے میں سے آپ کے لئے لایا تھا۔"
جاری ہے ۔۔۔
صارفین کی تعداد: 2781