فتح اللہ جعفری کی روایت

22 ستمبر 1980(31 شھریور1359)، مسلط کردہ جنگ کا آغاز

انتخاب: فریبہ الماسی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-5-29


دزفول کے علاقے میں عراقی بعث حکومت کی پہلی اہم کارروائی، ابوصلیبی خات کی بلندیوں پر واقع ریڈار کی تباہی تھی۔ 22 ستمبر 1980 کی صبح 4:16 پر دشمن نے ریڈار کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا؛ اس طرح، ریڈار 1980 کے موسم گرما کے آخری دن کے سورج کا مشاہدہ نہیں کر پایا، پھر اس کی تباہی کو یقینی بنانے کے لیے، اسی دن شام 6:40 پر، دشمن نے اپنے جنگی طیاروں سے دوسری بار اس پر بمباری کی تاکہ ان کے فوجی طیارے بغیر کسی رکاوٹ باآسانی  ہمارے ملک میں اندر تک گھس سکیں۔

ایران پر عراق کے حملے سے قبل، عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 نے اپنی آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور 42، میکنائزڈ بریگیڈ۔24، جاسوسی بٹالین النصر، آرٹلری اور کامبیٹ انجینیئرنگ بٹالین۔10 کے ساتھ عراق کے صوبۂ نیسان کے مرکز عمارہ سے ہماری سرحدوں کی جانب حرکت شروع کردی تھی۔ اس ڈویژن کو عراق کے صوبۂ نیسان کے رمیلہ پل سے گزر کر سرحدی علاقوں میں حملے کی تیاری کرنی تھی۔ ایران کے جنوبی علاقوں کی جاسوسی کی ذمہ داری ’النصر‘ بٹالین اور سرحدی چیک پوسٹوں پر قبضے کی ذمہ داری، آرمرڈ بریگیڈ۔17 کو دی گئی تھی۔ آرمرڈ ڈویژن۔10 اور میکنائزڈ ڈویژن۔1 کی حدود، چزابے کے شمال میں صفریہ کی فوجی چیک پوسٹ سے دہلران کے شمال میں چنگولہ تک پھیلی ہوئی تھیں اور یہ دو ڈویژنز عراقی کور۔3 کی کمان میں کام کر رہی تھیں۔

اسی لیے عراقی کور۔3 کا کمانڈر، میکنائزڈ ڈویژن۔1 کے بیس کیمپ میں پہنچا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملے کے لیے آخری میٹنگ ہوگئی۔ عراقی کور۔3 نے عراقی بعثی فوج کا ایران پر حملے کا وقت، ڈویژن کمانڈرز کو زبانی بتایا: 31 شہریور 1359 بمطابق 22 ستمبر 1980 کو دوپہر 12:30 بجے عراق نے ایران پر فضائی حملے کرکے باضابطہ طور پر ایرانی قوم سے جنگ کا آغاز کردیا۔ انفنٹری یونٹس کی حرکت اور پوری بین الاقوامی سرحد پر حملے کی تیاری کا وقت 22 ستمبر 1980 ٹھیک 12:45 اور بریگیڈز کے سرحدی اہداف کی جانب حرکت اور حملے کی تیاری کا وقت شام 4 بجے مقرر کیا گیا تھا۔

چنانچہ 22 ستمبر 1980 کو عراقی بعث فوج نے ڈویژنز۔10 اور 1 کی حدود میں صفریہ سے چنگولہ تک فوج کو تیار کیا اور 23 ستمبر 1980(1 مہر 1359) کی صبح 5 بجے سے اپنے حملے کا آغاز کردیا۔ ربوط سرحدی چیک پوسٹ پہلی فوجی چیک پوسٹ تھی جس پر صبح 5:30 بجے قبضہ ہوا تھا اور اس کے تمام اہکاروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ پھر اسی دن عراقی آرمرڈ بریگیڈ۔17 نے دریائے دویرج کے مشرق میں واقع ’چم سری‘ سرحدی چیک پوسٹ پر ایرانی فورسز کی کسی  مزاحمت کے بغیر ہی قبضہ کرلیا۔ چزابے اور چنگولہ تک کی ساری سرحدی چیک پوسٹیں جو عسکری طور پر خوزستان کے کنٹرول میں تھیں، جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی بعثی حملہ آوروں کے قبضے میں چلی گئیں، سرحدی چیک پوسٹیں جیسے سوبلہ، صفریہ، رشیدیہ، طاؤسیہ، دویرج، فکہ، یبیس، سمیدہ، پیچ انگیزہ، چم ہندی، ربوط، چم سری، بجلیہ، نہرعنبر، شرہانی اور بیات بھی دشمن کے قبضے میں چلی گئیں۔

اگرچہ دویرج سے گزرنے میں دشمن کو ڈر تھا اور اسے احتیاط کرنی پڑی لیکن عراقی بعث فوج نے چم سری کی سرحدی چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد دریائے دویرج کے مشرقی بلند مقامات پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ عراقی کامبیٹ بٹالین۔10 نے تیرنے والے پل اور اگلے مورچے تیار کیے تھے تاکہ دہلران روڈ تک پہنچنے میں کسی مشکل کی صورت میں آرمرڈ ترکیب کو عمل میں لایا جاسکے، اسی لیے انہیں وہاں سے گزرنے میں تاخیر ہوئی۔ عراقی فوج جو 24 ستمبر کو دویرج کے مشرق میں گاؤں علی نعیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، اس نے چم سری پل اور علی نعیر گاؤں پر قبضے کے بعد 25 ستمبر کو اپنے جاسوسی بٹالین النصر اور آرمرڈ بریگیڈ۔17 کو جادہ دہلران تک پھیلا دیا۔ اس کے علاوہ چم ہندی، چم سری پلوں کو جوڑنا اور دہلران روڈ سے چیخواب تک کنٹرول حاصل کرنا، بعث فوج کی بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔

دہلران سے دزفول جانے کا مرکزی راستہ بند ہوچکا تھا اور دہلران کے جنوب کے سارے گاؤں کو بعثی حملہ آورں نے گھیر لیا تھا۔ چوتھے دن آبنائے عین خوش سے گزرنے کے لیے پتک سے چم ہندی گاؤں تک دشمن نے علاقوں کو قبضے میں لینا اور روڈ کے دائیں جانب آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور بائیں جانب آرمرڈ بریگیڈ۔42 کو تعینات کرنا  شروع کردیا۔ میکنائزد بریگیڈ۔24 الرٹ تھی اور انہوں نے آبنائے عین خوش کو پیراگلائڈنگ آپریشن کرتے ہوئے قبضے میں لے لیا۔ اس طرح دزفول کی بریگیڈ۔2 اپنے کچھ ٹینکس چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور اس کامیابی کے ساتھ دشمن، آبنائے عین خوش اور دشت عباس گاؤں سے گزر کر امام زادہ عباس(ع) اور دچہ گاؤں تک پہنچ گیا۔

عراقی میکنائزڈ ڈویژن۔1 نے فکہ اور اس آبنائے کو پار کرلیا جس کے شمال میں دریائے دویرج اور بلند پہاڑیاں تھیں اور جنوب میں فکہ کی ریتیلی پہاڑیاں، اور یہ ڈویژن تینہ گاؤں کے دامنۂ کوہ اور آبنائے برقازی تک پہنچ گئی۔ لہٰذا، اسی دن عراقی ڈویژن۔10 کے یونٹس دشت عباس، دامنۂ شاوریہ، اور شیخ قیوم سے لے کر دریائے چیخواب کے جنوب، مین روڈ کے شمال اور جنوب اور آبنائے ابو غریب تک پھیل گئے۔ اس پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے، 27 ستمبر(5 مہر) کی صبح 10:20 پر علی گرہ زد اور بلتا پہاڑیوں پر قبضے کے بعد عراقی ڈویژن۔10 قہوہ خانہ سہ راہے کی جانب بڑھی اور شام 04:15 پر جُفینہ کے دامنہ کوہ اور دشت کوت گوپان پر قبضے کے ساتھ قہوہ خانے سہ راہے پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ قہوہ خانے سہ راہے پر دشمن کی موجودگی کی وجہ سے پچھلے علاقے میں سائٹ اور ریڈار کے پچھلے علاقے کو بند کردیا تھا؛ اسی لیے شیراز کی آرمرڈ بریگیڈ۔37، آبنائے اور سائٹ کے علاقے سے پیچھے ہٹ گئی تھی، اس دوران ساٹھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 10 چیفٹین ٹینکس اور پانچ 155mm توپیں دشمن کے ہاتھ لگ گئی تھیں۔ شام 04:40 پر عراقی کور۔3 کا کمانڈر مقبوضہ ایوان کرخے کے علاقے اور غنائم جنگ کا جائزہ لینے، قہوہ خانہ سہ راہے آیا اور آپریشن کو آگے بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کے بعد آرمرڈ ڈویژن۔10 کے کمانڈر ہشام صباح فخری اور میکنائزڈ ڈویژن۔1 کے کمانڈر کو شاباشی دی۔ اس نے کمانڈ اسٹک ہاتھ میں لیے مغرورانہ انداز میں شیراز کی آرمرڈ بریگیڈ۔37 سے غنیمت آئے چیفٹین ٹینکوں کا جائزہ لیا اور فخر اور غرور کے ساتھ ٹینکوں کے المونیئم کے مڈگارڈز پر کئی بار اپنی کمانڈ اسٹک ماری۔

دشمن نے نادری پل اور دریائے کرخہ کے مغربی گاؤں زاغہ، صالح مشطط، سرخہ نادری، صالح فلیح، صالح داؤد، اور حسین آباد پہنچنے کے لیے رات کے وقت اپنی حرکت کو جاری رکھا۔

28 ستمبر 1980(6 مہر 1359) کو ایرانی فوج کی آرمرڈ بریگیڈ۔2 نے نادری پل کو پار کیا اور دریائے کرخہ کے مشرقی حصے میں پسپائی اختیار کرلی اور آخر میں دشمن نے دریائے کرخہ کے مغربی حصے پر قبضہ کرلیا۔ 29 ستمبر(7 مہر) کی صبح، عراقی میکنائزڈ بریگیڈ۔17 نے سائٹ روڈ سے رفائیہ کی جانب حرکت کی تاکہ وہ گاؤں بیت مسکین، زعن، مالحہ، دریائے کرخہ کے گرد و نواح اور شوش کے سامنے کے علاقے پر قبضہ کرسکے اور سائٹ پر کنٹرول سنبھالی میکنائرڈ ڈویژن۔1 سے ملحق ہوسکے۔ عراقی فوج کے اس اقدام سے گاؤں مالحہ، زعن اور بیت مسکین پر قبضے کے علاوہ انہیں 8 چیفٹین ٹینکس بھی غنیمت میں ملے۔ اس طرح عراقی میکنائزڈ بریگیڈ۔14، انقلاب کی کامیابی سے بیس سال قبل، امریکیوں کی بنائی سائٹ اور ریڈار کی تنصیبات تک پہنچ گئی۔ اگرچہ بعث حکومت نے اپنے طیاروں سے فضائی حملہ کرکے پہلے ہی دن ریڈار پر بمباری کردی تھی، لیکن ان کا ایک اہم مقصد اس جگہ کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ بعثی حملہ آور 6 دن کے اندر فکہ اور شرہانی کے سرحدی علاقے سے دریائے کرخہ کے مغربی کنارے تک پہنچ گئے تھے اور انہوں نے شہر دزفول، شوش اور دزفول۔شوش۔اہواز روڈ پر بمباری کردی تھی۔

29 ستمبر(7مہر) کی صبح، عراقی ٹینکوں نے شہر موسیان کو گھیر لیا اور اس سرحدی شہر پر بھی دشمن نے قبضہ کرلیا۔ پھر دشمن نے شہر دہلران پر قبضہ کرتے ہوئے دہلران کے دروازوں تک آگے بڑھنے کی تیاری کی، چنانچہ 7 اکتوبر1980(15 مہر1359) کو عراقی آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور 19 کی میکنائزڈ بٹالین۔6 اور ٹینک بٹالین حماد شہاب نے موسیان اور دہلران کے شہروں پر قبضہ کرکے ان دونوں شہروں کی سہولیات اور تنصیبات کو تباہ کردیا۔

سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس نے پہلے دن سرحدی علاقوں میں بیات، سمیدہ، ربوط اور پیچ انگیزہ کی فوجی چیک پوسٹوں تک دشمن کی پیش قدمی کی تصدیق کردی تھی۔ اگلے دن 24ستمبر(2 مہر) کی صبح اس علاقے میں دشمن کی پیش قدمی کے دوران سپاہ پاسداران فورسز کے جواد ضیائی شہید ہوگئے تھے۔

24 ستمبر(2 مہر) کو سپاہ کی فورسز نے گلف بیس کو مہران اور دہلران کے علاقے میں ایک وسیع محاذ کے ساتھ دشمن کی پیش قدمی اور شہر مہران پر دشمن کے قبضے کے بارے میں تفصیلی معلومات بھیجیں۔ سائٹ۔5 کی فورسز کی خبر اور جینڈرمیری بیس سے رابطے پر دزفول کی جینڈر میری کمپنی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا: ’’عراقی، سائٹ تک پہنچ چکے ہیں؛ ہم سائٹ کا علاقہ خالی کرکے دزفول جارہے ہیں۔‘‘ ایلام کی جینڈرمیری ریجمنٹ نے بھی رپورٹ دی: ’’سمیدہ اور پیچ انگیزہ کی چیک پوسٹوں کا موسیان کمپنی سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور فکہ، موسیان اور دہلران کے علاقے دشمن کے قبضے میں ہیں۔‘‘

موسیان کمپنی کی رپورٹس بتا رہی تھیں کہ پوری سرحد پر دشمن کے مقابل کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی اور حملہ آور دشمن نے بہت آسانی سے تمام سرحدی چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے ملک کے کئی شہروں تک پیش قدمی کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ، چیک پوسٹ کے فوجی اہلکار بھی بعثی حملہ آوروں کے قبضے میں تھے۔ عراقی کور۔3 نے آپریشن کے دوسرے مرحلے میں، نادری پل، دریائے کرخہ کے کنارے اور شہر دہلران تک پیش قدمی اور آخری شہر دہلران کا محاصرہ کرکے اپنے اہداف کو مکمل کرلیا۔ دشمن جو اپنے اہداف کو مکمل سمجھ رہا تھا اس نے 13 اکتوبر(21 مہر) کی صبح 06:30 پر دوسری بار اپنی میکنائزڈ بریگیڈ۔24 کی بٹالین۔1 سے شہر دہلران پر حملہ کیا اور اس شہر پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح دشمن نے 22 اکتوبر 1980(30 مہر 1359) تک دزفول، شوش اور ریڈار کے علاقے میں عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 کی موجودگی اور برقازہ کی پہاڑیوں پر ان کی میکنائرڈ ڈویژن۔1 کے مستقر ہونے سے جنوبی محاذ کا قبضے کا عمل مکمل کرلیا۔

ایلام کے اس وقت کے گورنر اصغر ابراہیمی اور اس صوبے کے اس وقت کے سپاہ کے کمانڈر محمد کریمی، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دہلران پر قبضہ ہوتے دیکھا تھا، انہوں نے دہلران کے قبضے کے متعلق اپنی رپورٹس پر عدم توجہ پر گلہ کرتے ہوئے ایک رپورٹ پیش کی کہ اس شہر کے دفاع کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور عراقی فوج کی فورسز دہلران میں داخل ہوگئیں۔ یہ فورسز شہر میں نہیں رہیں اور نہ ہی انہیں رہنا تھا کیونکہ شمال میں مہران اور اس کے راستوں سے جنوب میں ایک کلومیٹر تک کا سارا علاقہ پوری طرح ان کی فوج کے قبضے میں تھا۔

دشمن کو نیست و نابود کرنے اور مقبوضہ علاقوں کو واپس حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی فورسز نے 15 اکتوبر 1980(23 مہر 1359) کو پہلا آپریشن کیا۔ اس آپریشن میں ایرانی حمزہ ڈویژن۔21 نے عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 پر حملہ کیا جو دریائے کرخہ کے مغرب میں نادری پل سے شروع ہوا، لیکن علاقے پر قبضہ ہونے کی وجہ سے اس آپریشن میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ نادری پل کے آپریشن کے حوالے سے دشمن کچھ یوں کہتا ہے: ’’15۔10۔1980 کی لڑائی ایک بڑی لڑائی تھی جس میں آرمرڈ ڈویژن۔10 نے شرکت کی اور دشمن(ایران) نے اپنی تمام فورسز کو میدان میں اتارا لیکن ہماری(عراقی) یونٹس کی بہادری و استقامت اور میکنائزڈ بریگیڈ۔24، آرمرڈ بریگیڈ۔42 اور 17 کے درمیان ہم آہنگی اور توپخانے کی مدد کے ساتھ میلان اینٹی ٹینک میزائلوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ٹیکٹکل بیس کے کام کا معیار بھی ایک بہت اہم عامل تھا کہ ہمارے اگلے مورچوں تک دشمن کے ٹینکس اور پرسنل کیریئر پہنچ جانے کے باوجود ہماری یونٹس کے اپنی جگہ پر باقی رہنے اور کامیابی کا باعث بنا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں، دشمن(ایران) کے 80 ٹینکس تباہ ہوئے اور 500 سے زیادہ افراد مارے گئے جس کا تہران کے حکام نے بھی اعتراف کیا ہے۔ 15 اکتوبر 1980 کے دن کی عظیم لڑائی دوپہر 03:30 بجے ختم ہوئی اور اگلے علاقے میں ڈویژن کمانڈر کی موجودگی اور میکنائزڈ بریگیڈ۔24 کے ٹیکٹکل بیس کے تعاون نے ہماری کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے فارسی دشمن اور اس کے یونٹس ہمارے یونٹس کی بہادری و استقامت کے سامنے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح جل گئے‘‘(رپورٹ۔ حسن باقری۔ گلف)

فکہ، ایلام اور خوزستان کی جغرافیائی حد ہے؛ لہٰذا سمیدہ، پیچ انگیز، ربوط، چم سری، چم ہندی کی چیک پوسٹیں اور موسیان اور دہلران کے شہر جو صوبہ ایلام کا حصہ ہیں، عراقی کور۔3 کی حدود میں آچکے تھے۔ عسکری لحاظ سے یہ علاقہ خوزستان کی سپاہ پاسداران کے دائرۂ اختیار میں آتا تھا؛ اسی لیے دزفول کی سپاہ خود کو اس علاقے کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ ایلام کے گورنر ہاؤس اور جینڈر میری نے ان علاقوں پر قبضے کے متعلق گلف کو کچھ یوں رپورٹ دی: ’’دریائے کرخہ کے پار نادری پل سے لے کر شوش کے مغربی علاقے تک، بعثی حملہ آوروں کی موجودگی دزفول، شکاری بیس۔4، دزفول کی بریگیڈ۔2 کی گیریژن، دوکوہہ، جنوب، اندیمشک اور شوش کے یونٹس کے اہم مراکز کے لیے خطرہ تھی اور اسی طرح اس سرزمین کے ہزاروں مخلص لوگوں کی نقل مکانی اور خوزستان کا راستہ بند ہونے کا باعث بنی۔‘‘ ماہشہر روڈ پر 15 اور 25 اکتوبر کی جوابی کاروائی کے آپریشن کی ناکامی اور بالترتیب 5 جنوری اور 20 جنوری کو ہویزہ اور آبادان میں کمزور اور ناقص کارکردگی ہمارے دشمن پر حملے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔[1]

                        

 

                                 تاریخ شفاھی :: آغاز جنگ تحمیلی در 31 شھریور 1359 (oral-history.ir)

 

 


[1]  منبع: جعفری، فتح اللہ، چنانہ، خاطرات شفاھی دفاع مقدس، تھران، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، چ اول، 1402، ص 21۔

22 ستمبر 1980(31 شھریور1359) کو مسلط کردہ جنگ کا آغاز

فتح اللہ جعفری کی روایت

 

انتخاب: فریبہ الماسی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

 

 

دزفول کے علاقے میں عراقی بعث حکومت کی پہلی اہم کارروائی، ابوصلیبی خات کی بلندیوں پر واقع ریڈار کی تباہی تھی۔ 22 ستمبر 1980 کی صبح 4:16 پر دشمن نے ریڈار کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا؛ اس طرح، ریڈار 1980 کے موسم گرما کے آخری دن کے سورج کا مشاہدہ نہیں کر پایا، پھر اس کی تباہی کو یقینی بنانے کے لیے، اسی دن شام 6:40 پر، دشمن نے اپنے جنگی طیاروں سے دوسری بار اس پر بمباری کی تاکہ ان کے فوجی طیارے بغیر کسی رکاوٹ باآسانی  ہمارے ملک میں اندر تک گھس سکیں۔

ایران پر عراق کے حملے سے قبل، عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 نے اپنی آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور 42، میکنائزڈ بریگیڈ۔24، جاسوسی بٹالین النصر، آرٹلری اور کامبیٹ انجینیئرنگ بٹالین۔10 کے ساتھ عراق کے صوبۂ نیسان کے مرکز عمارہ سے ہماری سرحدوں کی جانب حرکت شروع کردی تھی۔ اس ڈویژن کو عراق کے صوبۂ نیسان کے رمیلہ پل سے گزر کر سرحدی علاقوں میں حملے کی تیاری کرنی تھی۔ ایران کے جنوبی علاقوں کی جاسوسی کی ذمہ داری ’النصر‘ بٹالین اور سرحدی چیک پوسٹوں پر قبضے کی ذمہ داری، آرمرڈ بریگیڈ۔17 کو دی گئی تھی۔ آرمرڈ ڈویژن۔10 اور میکنائزڈ ڈویژن۔1 کی حدود، چزابے کے شمال میں صفریہ کی فوجی چیک پوسٹ سے دہلران کے شمال میں چنگولہ تک پھیلی ہوئی تھیں اور یہ دو ڈویژنز عراقی کور۔3 کی کمان میں کام کر رہی تھیں۔

اسی لیے عراقی کور۔3 کا کمانڈر، میکنائزڈ ڈویژن۔1 کے بیس کیمپ میں پہنچا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملے کے لیے آخری میٹنگ ہوگئی۔ عراقی کور۔3 نے عراقی بعثی فوج کا ایران پر حملے کا وقت، ڈویژن کمانڈرز کو زبانی بتایا: 31 شہریور 1359 بمطابق 22 ستمبر 1980 کو دوپہر 12:30 بجے عراق نے ایران پر فضائی حملے کرکے باضابطہ طور پر ایرانی قوم سے جنگ کا آغاز کردیا۔ انفنٹری یونٹس کی حرکت اور پوری بین الاقوامی سرحد پر حملے کی تیاری کا وقت 22 ستمبر 1980 ٹھیک 12:45 اور بریگیڈز کے سرحدی اہداف کی جانب حرکت اور حملے کی تیاری کا وقت شام 4 بجے مقرر کیا گیا تھا۔

چنانچہ 22 ستمبر 1980 کو عراقی بعث فوج نے ڈویژنز۔10 اور 1 کی حدود میں صفریہ سے چنگولہ تک فوج کو تیار کیا اور 23 ستمبر 1980(1 مہر 1359) کی صبح 5 بجے سے اپنے حملے کا آغاز کردیا۔ ربوط سرحدی چیک پوسٹ پہلی فوجی چیک پوسٹ تھی جس پر صبح 5:30 بجے قبضہ ہوا تھا اور اس کے تمام اہکاروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ پھر اسی دن عراقی آرمرڈ بریگیڈ۔17 نے دریائے دویرج کے مشرق میں واقع ’چم سری‘ سرحدی چیک پوسٹ پر ایرانی فورسز کی کسی  مزاحمت کے بغیر ہی قبضہ کرلیا۔ چزابے اور چنگولہ تک کی ساری سرحدی چیک پوسٹیں جو عسکری طور پر خوزستان کے کنٹرول میں تھیں، جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی بعثی حملہ آوروں کے قبضے میں چلی گئیں، سرحدی چیک پوسٹیں جیسے سوبلہ، صفریہ، رشیدیہ، طاؤسیہ، دویرج، فکہ، یبیس، سمیدہ، پیچ انگیزہ، چم ہندی، ربوط، چم سری، بجلیہ، نہرعنبر، شرہانی اور بیات بھی دشمن کے قبضے میں چلی گئیں۔

اگرچہ دویرج سے گزرنے میں دشمن کو ڈر تھا اور اسے احتیاط کرنی پڑی لیکن عراقی بعث فوج نے چم سری کی سرحدی چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد دریائے دویرج کے مشرقی بلند مقامات پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ عراقی کامبیٹ بٹالین۔10 نے تیرنے والے پل اور اگلے مورچے تیار کیے تھے تاکہ دہلران روڈ تک پہنچنے میں کسی مشکل کی صورت میں آرمرڈ ترکیب کو عمل میں لایا جاسکے، اسی لیے انہیں وہاں سے گزرنے میں تاخیر ہوئی۔ عراقی فوج جو 24 ستمبر کو دویرج کے مشرق میں گاؤں علی نعیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، اس نے چم سری پل اور علی نعیر گاؤں پر قبضے کے بعد 25 ستمبر کو اپنے جاسوسی بٹالین النصر اور آرمرڈ بریگیڈ۔17 کو جادہ دہلران تک پھیلا دیا۔ اس کے علاوہ چم ہندی، چم سری پلوں کو جوڑنا اور دہلران روڈ سے چیخواب تک کنٹرول حاصل کرنا، بعث فوج کی بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔

دہلران سے دزفول جانے کا مرکزی راستہ بند ہوچکا تھا اور دہلران کے جنوب کے سارے گاؤں کو بعثی حملہ آورں نے گھیر لیا تھا۔ چوتھے دن آبنائے عین خوش سے گزرنے کے لیے پتک سے چم ہندی گاؤں تک دشمن نے علاقوں کو قبضے میں لینا اور روڈ کے دائیں جانب آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور بائیں جانب آرمرڈ بریگیڈ۔42 کو تعینات کرنا  شروع کردیا۔ میکنائزد بریگیڈ۔24 الرٹ تھی اور انہوں نے آبنائے عین خوش کو پیراگلائڈنگ آپریشن کرتے ہوئے قبضے میں لے لیا۔ اس طرح دزفول کی بریگیڈ۔2 اپنے کچھ ٹینکس چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور اس کامیابی کے ساتھ دشمن، آبنائے عین خوش اور دشت عباس گاؤں سے گزر کر امام زادہ عباس(ع) اور دچہ گاؤں تک پہنچ گیا۔

عراقی میکنائزڈ ڈویژن۔1 نے فکہ اور اس آبنائے کو پار کرلیا جس کے شمال میں دریائے دویرج اور بلند پہاڑیاں تھیں اور جنوب میں فکہ کی ریتیلی پہاڑیاں، اور یہ ڈویژن تینہ گاؤں کے دامنۂ کوہ اور آبنائے برقازی تک پہنچ گئی۔ لہٰذا، اسی دن عراقی ڈویژن۔10 کے یونٹس دشت عباس، دامنۂ شاوریہ، اور شیخ قیوم سے لے کر دریائے چیخواب کے جنوب، مین روڈ کے شمال اور جنوب اور آبنائے ابو غریب تک پھیل گئے۔ اس پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے، 27 ستمبر(5 مہر) کی صبح 10:20 پر علی گرہ زد اور بلتا پہاڑیوں پر قبضے کے بعد عراقی ڈویژن۔10 قہوہ خانہ سہ راہے کی جانب بڑھی اور شام 04:15 پر جُفینہ کے دامنہ کوہ اور دشت کوت گوپان پر قبضے کے ساتھ قہوہ خانے سہ راہے پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ قہوہ خانے سہ راہے پر دشمن کی موجودگی کی وجہ سے پچھلے علاقے میں سائٹ اور ریڈار کے پچھلے علاقے کو بند کردیا تھا؛ اسی لیے شیراز کی آرمرڈ بریگیڈ۔37، آبنائے اور سائٹ کے علاقے سے پیچھے ہٹ گئی تھی، اس دوران ساٹھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 10 چیفٹین ٹینکس اور پانچ 155mm توپیں دشمن کے ہاتھ لگ گئی تھیں۔ شام 04:40 پر عراقی کور۔3 کا کمانڈر مقبوضہ ایوان کرخے کے علاقے اور غنائم جنگ کا جائزہ لینے، قہوہ خانہ سہ راہے آیا اور آپریشن کو آگے بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کے بعد آرمرڈ ڈویژن۔10 کے کمانڈر ہشام صباح فخری اور میکنائزڈ ڈویژن۔1 کے کمانڈر کو شاباشی دی۔ اس نے کمانڈ اسٹک ہاتھ میں لیے مغرورانہ انداز میں شیراز کی آرمرڈ بریگیڈ۔37 سے غنیمت آئے چیفٹین ٹینکوں کا جائزہ لیا اور فخر اور غرور کے ساتھ ٹینکوں کے المونیئم کے مڈگارڈز پر کئی بار اپنی کمانڈ اسٹک ماری۔

دشمن نے نادری پل اور دریائے کرخہ کے مغربی گاؤں زاغہ، صالح مشطط، سرخہ نادری، صالح فلیح، صالح داؤد، اور حسین آباد پہنچنے کے لیے رات کے وقت اپنی حرکت کو جاری رکھا۔

28 ستمبر 1980(6 مہر 1359) کو ایرانی فوج کی آرمرڈ بریگیڈ۔2 نے نادری پل کو پار کیا اور دریائے کرخہ کے مشرقی حصے میں پسپائی اختیار کرلی اور آخر میں دشمن نے دریائے کرخہ کے مغربی حصے پر قبضہ کرلیا۔ 29 ستمبر(7 مہر) کی صبح، عراقی میکنائزڈ بریگیڈ۔17 نے سائٹ روڈ سے رفائیہ کی جانب حرکت کی تاکہ وہ گاؤں بیت مسکین، زعن، مالحہ، دریائے کرخہ کے گرد و نواح اور شوش کے سامنے کے علاقے پر قبضہ کرسکے اور سائٹ پر کنٹرول سنبھالی میکنائرڈ ڈویژن۔1 سے ملحق ہوسکے۔ عراقی فوج کے اس اقدام سے گاؤں مالحہ، زعن اور بیت مسکین پر قبضے کے علاوہ انہیں 8 چیفٹین ٹینکس بھی غنیمت میں ملے۔ اس طرح عراقی میکنائزڈ بریگیڈ۔14، انقلاب کی کامیابی سے بیس سال قبل، امریکیوں کی بنائی سائٹ اور ریڈار کی تنصیبات تک پہنچ گئی۔ اگرچہ بعث حکومت نے اپنے طیاروں سے فضائی حملہ کرکے پہلے ہی دن ریڈار پر بمباری کردی تھی، لیکن ان کا ایک اہم مقصد اس جگہ کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ بعثی حملہ آور 6 دن کے اندر فکہ اور شرہانی کے سرحدی علاقے سے دریائے کرخہ کے مغربی کنارے تک پہنچ گئے تھے اور انہوں نے شہر دزفول، شوش اور دزفول۔شوش۔اہواز روڈ پر بمباری کردی تھی۔

29 ستمبر(7مہر) کی صبح، عراقی ٹینکوں نے شہر موسیان کو گھیر لیا اور اس سرحدی شہر پر بھی دشمن نے قبضہ کرلیا۔ پھر دشمن نے شہر دہلران پر قبضہ کرتے ہوئے دہلران کے دروازوں تک آگے بڑھنے کی تیاری کی، چنانچہ 7 اکتوبر1980(15 مہر1359) کو عراقی آرمرڈ بریگیڈ۔17 اور 19 کی میکنائزڈ بٹالین۔6 اور ٹینک بٹالین حماد شہاب نے موسیان اور دہلران کے شہروں پر قبضہ کرکے ان دونوں شہروں کی سہولیات اور تنصیبات کو تباہ کردیا۔

سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس نے پہلے دن سرحدی علاقوں میں بیات، سمیدہ، ربوط اور پیچ انگیزہ کی فوجی چیک پوسٹوں تک دشمن کی پیش قدمی کی تصدیق کردی تھی۔ اگلے دن 24ستمبر(2 مہر) کی صبح اس علاقے میں دشمن کی پیش قدمی کے دوران سپاہ پاسداران فورسز کے جواد ضیائی شہید ہوگئے تھے۔

24 ستمبر(2 مہر) کو سپاہ کی فورسز نے گلف بیس کو مہران اور دہلران کے علاقے میں ایک وسیع محاذ کے ساتھ دشمن کی پیش قدمی اور شہر مہران پر دشمن کے قبضے کے بارے میں تفصیلی معلومات بھیجیں۔ سائٹ۔5 کی فورسز کی خبر اور جینڈرمیری بیس سے رابطے پر دزفول کی جینڈر میری کمپنی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا: ’’عراقی، سائٹ تک پہنچ چکے ہیں؛ ہم سائٹ کا علاقہ خالی کرکے دزفول جارہے ہیں۔‘‘ ایلام کی جینڈرمیری ریجمنٹ نے بھی رپورٹ دی: ’’سمیدہ اور پیچ انگیزہ کی چیک پوسٹوں کا موسیان کمپنی سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور فکہ، موسیان اور دہلران کے علاقے دشمن کے قبضے میں ہیں۔‘‘

موسیان کمپنی کی رپورٹس بتا رہی تھیں کہ پوری سرحد پر دشمن کے مقابل کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی اور حملہ آور دشمن نے بہت آسانی سے تمام سرحدی چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے ملک کے کئی شہروں تک پیش قدمی کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ، چیک پوسٹ کے فوجی اہلکار بھی بعثی حملہ آوروں کے قبضے میں تھے۔ عراقی کور۔3 نے آپریشن کے دوسرے مرحلے میں، نادری پل، دریائے کرخہ کے کنارے اور شہر دہلران تک پیش قدمی اور آخری شہر دہلران کا محاصرہ کرکے اپنے اہداف کو مکمل کرلیا۔ دشمن جو اپنے اہداف کو مکمل سمجھ رہا تھا اس نے 13 اکتوبر(21 مہر) کی صبح 06:30 پر دوسری بار اپنی میکنائزڈ بریگیڈ۔24 کی بٹالین۔1 سے شہر دہلران پر حملہ کیا اور اس شہر پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح دشمن نے 22 اکتوبر 1980(30 مہر 1359) تک دزفول، شوش اور ریڈار کے علاقے میں عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 کی موجودگی اور برقازہ کی پہاڑیوں پر ان کی میکنائرڈ ڈویژن۔1 کے مستقر ہونے سے جنوبی محاذ کا قبضے کا عمل مکمل کرلیا۔

ایلام کے اس وقت کے گورنر اصغر ابراہیمی اور اس صوبے کے اس وقت کے سپاہ کے کمانڈر محمد کریمی، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دہلران پر قبضہ ہوتے دیکھا تھا، انہوں نے دہلران کے قبضے کے متعلق اپنی رپورٹس پر عدم توجہ پر گلہ کرتے ہوئے ایک رپورٹ پیش کی کہ اس شہر کے دفاع کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور عراقی فوج کی فورسز دہلران میں داخل ہوگئیں۔ یہ فورسز شہر میں نہیں رہیں اور نہ ہی انہیں رہنا تھا کیونکہ شمال میں مہران اور اس کے راستوں سے جنوب میں ایک کلومیٹر تک کا سارا علاقہ پوری طرح ان کی فوج کے قبضے میں تھا۔

دشمن کو نیست و نابود کرنے اور مقبوضہ علاقوں کو واپس حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی فورسز نے 15 اکتوبر 1980(23 مہر 1359) کو پہلا آپریشن کیا۔ اس آپریشن میں ایرانی حمزہ ڈویژن۔21 نے عراقی آرمرڈ ڈویژن۔10 پر حملہ کیا جو دریائے کرخہ کے مغرب میں نادری پل سے شروع ہوا، لیکن علاقے پر قبضہ ہونے کی وجہ سے اس آپریشن میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ نادری پل کے آپریشن کے حوالے سے دشمن کچھ یوں کہتا ہے: ’’15۔10۔1980 کی لڑائی ایک بڑی لڑائی تھی جس میں آرمرڈ ڈویژن۔10 نے شرکت کی اور دشمن(ایران) نے اپنی تمام فورسز کو میدان میں اتارا لیکن ہماری(عراقی) یونٹس کی بہادری و استقامت اور میکنائزڈ بریگیڈ۔24، آرمرڈ بریگیڈ۔42 اور 17 کے درمیان ہم آہنگی اور توپخانے کی مدد کے ساتھ میلان اینٹی ٹینک میزائلوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ٹیکٹکل بیس کے کام کا معیار بھی ایک بہت اہم عامل تھا کہ ہمارے اگلے مورچوں تک دشمن کے ٹینکس اور پرسنل کیریئر پہنچ جانے کے باوجود ہماری یونٹس کے اپنی جگہ پر باقی رہنے اور کامیابی کا باعث بنا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں، دشمن(ایران) کے 80 ٹینکس تباہ ہوئے اور 500 سے زیادہ افراد مارے گئے جس کا تہران کے حکام نے بھی اعتراف کیا ہے۔ 15 اکتوبر 1980 کے دن کی عظیم لڑائی دوپہر 03:30 بجے ختم ہوئی اور اگلے علاقے میں ڈویژن کمانڈر کی موجودگی اور میکنائزڈ بریگیڈ۔24 کے ٹیکٹکل بیس کے تعاون نے ہماری کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے فارسی دشمن اور اس کے یونٹس ہمارے یونٹس کی بہادری و استقامت کے سامنے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح جل گئے‘‘(رپورٹ۔ حسن باقری۔ گلف)

فکہ، ایلام اور خوزستان کی جغرافیائی حد ہے؛ لہٰذا سمیدہ، پیچ انگیز، ربوط، چم سری، چم ہندی کی چیک پوسٹیں اور موسیان اور دہلران کے شہر جو صوبہ ایلام کا حصہ ہیں، عراقی کور۔3 کی حدود میں آچکے تھے۔ عسکری لحاظ سے یہ علاقہ خوزستان کی سپاہ پاسداران کے دائرۂ اختیار میں آتا تھا؛ اسی لیے دزفول کی سپاہ خود کو اس علاقے کا ذمہ دار سمجھتی تھی۔ ایلام کے گورنر ہاؤس اور جینڈر میری نے ان علاقوں پر قبضے کے متعلق گلف کو کچھ یوں رپورٹ دی: ’’دریائے کرخہ کے پار نادری پل سے لے کر شوش کے مغربی علاقے تک، بعثی حملہ آوروں کی موجودگی دزفول، شکاری بیس۔4، دزفول کی بریگیڈ۔2 کی گیریژن، دوکوہہ، جنوب، اندیمشک اور شوش کے یونٹس کے اہم مراکز کے لیے خطرہ تھی اور اسی طرح اس سرزمین کے ہزاروں مخلص لوگوں کی نقل مکانی اور خوزستان کا راستہ بند ہونے کا باعث بنی۔‘‘ ماہشہر روڈ پر 15 اور 25 اکتوبر کی جوابی کاروائی کے آپریشن کی ناکامی اور بالترتیب 5 جنوری اور 20 جنوری کو ہویزہ اور آبادان میں کمزور اور ناقص کارکردگی ہمارے دشمن پر حملے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔[1]

                        

 

 


[1]  منبع: جعفری، فتح اللہ، چنانہ، خاطرات شفاھی دفاع مقدس، تھران، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، چ اول، 1402، ص 21۔



 
صارفین کی تعداد: 28


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
فتح اللہ جعفری کی روایت

22 ستمبر 1980(31 شھریور1359)، مسلط کردہ جنگ کا آغاز

اگرچہ دویرج سے گزرنے میں دشمن کو ڈر تھا اور اسے احتیاط کرنی پڑی لیکن عراقی بعث فوج نے چم سری کی سرحدی چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد دریائے دویرج کے مشرقی بلند مقامات پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔