پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 42

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-5-14


گویزہ کویرہ

میرے رکنے کے حوالے سے جناب ماموستا ملا عارف کی نصیحت بے فائدہ تھی۔ جناب ملا محمد امین میرزائی جو ایک ذہین اور فطین طالب علم تھے اور مجھ سے مقدمات کے دروس پڑھ رہے تھے، ہم سے الگ ہوگئے اور ہم چار لوگ، ماموستا ملا رحیم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ جناب ماموستا ملا رحیم ہماری توقع کے مطابق، اعلیٰ سطح کے علوم اور تدریس میں ماہر نہیں تھے۔ قریب چھ ماہ تک ہم ان کی خدمت میں رہے۔ گویزہ کویرہ گاؤں کے لوگ بہت اچھے تھے؛ خاص طور پر جناب حیدری، جناب بیگ زادہ اور گاؤں کے مالک کے گھرانے، شرافت، سخاوت اور دیانتداری میں بے مثال تھے۔ ان گھرانوں میں ایمان اور اخلاق کے لحاظ سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم جناب رحمان حیدری صاحب کا گھرانہ سب سے بہتر تھا۔

1973(1352) کے موسم سرما میں، ایک دن جناب ملا عارف نامی گاؤں کا ایک قابل اعتبار شخص، جس کا پیشہ مویشی پالنا اور کھیتی باڑی تھا، حجرے میں آیا اور گاؤں کے سابق امام مسجد، مرحوم ملا زبیر کا ذکر خیر کیا اور کہا کہ ماموستا ملا زبیر میرے بہنوئی تھے، ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جو اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں اور اس نے کنایتاً کہا کہ ان کچھ مہینوں میں، میں نے آپ کا اخلاق دیکھا ہے اور آپ کی صلاحیت کے بارے میں معلوم کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بھانجی کی شادی آپ سے کروا دوں۔ اس نے بتایا کہ ماموستا ملا زبیر کا ایک شادی کا دفتر ہے اور اب اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔ آپ اس دفتر کو دوبارہ کھول لیں اور گاؤں کے امام جماعت بن جائیں۔ میں نے بہت دھیان سے اس کی باتیں سنیں اور سننے کے بعد میں نے اس کی پیشکش کو نہیں ٹھکرایا۔ ایک رات ہم دونوں مرحوم ماموستا زبیر کے گھر گئے۔ گویا معاملہ سنجیدہ تھا اور اس کی خبر گاؤں والوں میں بھی پھیل گئی۔

ماموستا ملا زبیر کے شادی کے دفتر کی مالکیت کی منتقلی کے حوالے سے میں سنندج شہر گیا تو انہوں نے مجھ سے ملٹری سروس کے دائمی استثناء کارڈ کا تقاضا کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ دفتر کی مالکیت کی منتقلی ناممکن ہے اور آپ کو شادی کے دفتر کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے نوٹری پبلک کا امتحان دینا ہوگا۔ میں مایوس ہوکر گویزہ کویرہ لوٹ آیا اور اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے لگا۔ کچھ عرصے بعد ماموستا ملا رحیم تک مرحوم ملا زبیر کے سالے کی پیشکش کی خبر پہنچی۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور بہت برہمی کے ساتھ مجھ سے کہا: ’’ملا قادر، ایک ریاست میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے(ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں)!‘‘

میں نے ان سے عرض کیا: ’’جناب ماموستا پہلے بات تو یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ میں شاہ ہوں اور نہ جناب عالی بادشاہ۔ حقیر ہرگز آپ کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا طالب علم ہوں اور مہمان بھی۔ اگر آپ مجھ سے ناراض ہیں تو میں کل ہی گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار ہوں۔‘‘

بظاہر ماموستا نے میری بات نہیں مانی اور ہر کسی نے انہوں نے میری برائی کی یہاں تک کہ وہ گاؤں بالک اور کانی سانان کے طالب علموں تک بھی میری شکایت لے گئے۔ اس استدلال کے ساتھ کہ ایک ہورامی طالب علم مجھے گویزہ کویرہ گاؤں سے نکالنا چاہتا ہے۔

نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ گاؤں کانی سانان کے طالب علموں نے مجھے دھمکی بھی دے دی۔ ایک دن، شام کے وقت میں گویزہ کویرہ سے کانی سانان چلا گیا۔ ملا ناصر سبحانی[1] اور ملا عزیز امامی لارانی وہاں زیر تعلیم تھے۔ ہم نے مغرب کی باجماعت نماز، ماموستا ملا محمد امین کی اقتداء میں پڑھی اور حجرے میں واپس آگئے۔ جناب ملا ناصر سبحانی نے باجماعت نماز میں شرکت نہیں کی۔ میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا: ’’شیخ ابن حَجَر فرماتے ہیں کہ اگر فرادا نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ہو تو اس کا ثواب، بغیر خشوع  و خضوع والی باجماعت نماز سے زیادہ ہے۔‘‘

جناب ملا ناصر نے رات کا کھانا کھانے کے بعد مجھ سے پوچھا: ’’آپ کا کانی سانان کیسے آنا ہوا؟‘‘

میں نے عرض کیا: ’’ملا علی میرآبادی صاحب نے دوسرے کچھ طالب علموں کے ساتھ مجھے دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ وہ جناب ماموستا ملا رحیم کا دفاع کرنے ہمارے حجرے میں آئیں گے۔ میں نے کہا کہ انہیں گویزہ کویرہ آنے کی زحمت نہ کرنی پڑے، میں خود ہی آگیا ہوں تاکہ ان حضرات سے اس دھمکی کی وجہ پوچھ سکوں۔‘‘

میں نے اپنی وضاحت پیش کی۔ ملا علی نے جب میری گفتگو سنی تو وہ اپنی باتوں پر پشیمان ہوئے اور انہوں نے معذرت کی۔ میں نے ان سے کہا کہ ماموستا ملا رحیم کا اندازہ اور وہم، ایک سوء ظن سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں اس رات کانی سانان میں ہی رک گیا اور اگلی صبح اپنے اس گاؤں میں لوٹ آیا جہاں میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔

17 ستمبر 1973 کی رات میں نے ایک خواب دیکھا جو میرے لیے بہت دلچسپ تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ قریب دو سو مولانا اور طالب علم وغیرہ دورود کے محمود کی خانقاہ میں جمع تھے اور کوئی تقریب جاری تھی۔ کچھ طالب علم، ایک ایک کرکے جناب شیخ عثمان کی خدمت میں جارہے تھے اور وہ ان کے سروں پر عمامے رکھ رہے تھے۔ جب حقیر کی باری آئی تو جناب شیخ نے میرے سر پر عمامہ رکھنے سے اجتناب کیا۔ اسی وقت میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اس واقعے کو کتاب ’عقائد نسفی‘ کے آخری صفحے پر 17۔09۔1973 کی تاریخ کے ساتھ درج کرلیا اور سوگیا۔ اگلی صبح میں گہری سوچ میں ڈوب گیا اور میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے۔ پھر میں نے طالب علموں سے کہا کہ اگر زندگی رہی تو ہم اگلے سال(1974) گویزہ کویرہ کا حجرہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

 


[1]  ناصر سبحانی(1951۔1990 پاوہ کا دوریسان گاؤں) سن 1968 میں دینی مدرسے میں قدم رکھتے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ کے نظام کے طرفدار اور  ایک انقلابی کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے پاوہ میں مدرسۂ قرآن میں سرگرمیاں انجام دیں۔ انہوں نے سن 1980 میں ایران کی اخوان المسلمین تحریک میں شمولیت اختیار کی اور 1982 کے موسم گرما تک پاوہ اور اس کے گرد و نواح میں دینی تبلیغ اور سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ سنیوں کی مرکزی مجلس شوریٰ(شورای مرکزی سنت۔ شمس) کی تشکیل میں ناصر سبحانی صاحب نے احمد مفتی زادہ کے ساتھ بہت تعاون کیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 7


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
12 فروری 1979 کو انقلاب اسلامی کمیٹی کی تشکیل کے متعلق(23 بھمن 1357)

اکبر براتی کی یادوں کا ٹکڑا

کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔