کتاب کا ایک مختصر جائزہ

’’دیوار کے اس پار (آن سوی دیوار)‘‘

حبیب اللہ بیطرف کی زبانی ’امریکی سفارتخانے پر قبضہ‘

محیا حافظی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-5-20


حبیب اللہ بیطرف، امریکی سفارتخانے پر قبضے کے تین ابتدائی منصوبہ سازوں میں سے ایک اور جاسوسی اڈے کی رابطہ کمیٹی کے رکن تھے۔ حبیب اللہ بیطرف اس وقت تہران یونیورسٹی کے انجینیئرنگ کالج میں سول انجینیئرنگ کی فیکلٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، ان کے ذہن میں اس واقعے کی یادیں موجود ہیں۔ کتاب ’’دیوار کے اس پار(آن سوی دیوار)‘‘ جاسوسی اڈے پر قبضے سے پہلے سے لے کر یرغمالیوں کی رہائی تک کے واقعات کو راوی کی زبانی بیان کرتی ہے۔ یہ یادیں دو مرحلوں یعنی پہلے سن 2006 سے 2007 کے دوران اور پھر سن 2023 میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

کتاب کی تدوین کو محمد محبوبی صاحب نے انجام دیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب سے کچھ عرصہ پہلے ہی کتاب ’’ایستگاہ خیابان روزولت(روزویلٹ روڈ اسٹاپ)‘‘ بھی شائع کی ہے اور جاسوسی اڈے کے واقعے پر ان کے معلوماتی عبور نے اس کتاب کو تقویت بخشی ہے۔ کتاب کی زبان رواں ہے۔ جیسا کہ پیش لفظ میں ذکر کیا گیا ہے، کتاب میں مذکور شخصیات کی مزید مستند اور درست سوانح حیات کے حصول کے لیے پریس ذرائع، یونیورسٹیز کی داخلہ فہرستوں، خبر رساں ایجنسیز میں شائع ہونی والی سرکاری تقرریوں کی رپورٹس اور امام خمینی کے پیروکار مسلم یونیورسٹی طلباء کے ساتھ، دفتر ادبیات انقلاب اسلامی آرٹس سینٹر میں ہونے والے انٹرویوز کے اقتباسات سے بھی مدد لی گئی ہے۔

کافی سارے مقامات پر دستاویزات کو بھی صحیح طریقے سے قابل قبول انداز میں پیش کیا گیا ہے جو قاری کی کتاب سے توقع میں اضافہ کردیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ، کتاب میں بعض مقامات پر راوی کی باتوں کو بغیر کسی دستاویز کے پیش کیا گیا ہے؛ جیسے: ستمبر 1979 میں ایران فضائیہ کے دستاویزات سے بھرے 7 سوٹ کیسز کے ساتھ ایک امریکی افسر کی مہرآباد ایئرپورٹ کمیٹی کے ہاتھوں گرفتاری کا واقعہ۔ کتاب کے سرورق پر موجود ڈیزائن 4 نومبر 1979(13 آبان 1358) اور قبضے کے ابتدائی گھنٹوں کی تصویر ہے۔ یہ تصویر کتاب کے سرورق سے لے کر پس ورق تک پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب کا آغاز، راوی کے ہاتھوں تحریر کردہ دو صفحات سے ہوتا ہے، جو کتاب کو مضبوط بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ موضوعات کی فہرست اور پیش لفظ کے بعد، کتاب کو 9 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے باب میں راوی اپنے خاندان کا مختصر تعارف کرانے کے ساتھ اپنے بچپن کے بارے میں بتاتا ہے اور پھر اپنے انجینیئرنگ کالج میں داخلہ لینے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ راوی یونیورسٹی میں داخلے کے ابتدائی دنوں سے ہی مسلم یونیورسٹی طلباء میں شامل ہوجاتے ہیں اور یونیورسٹی طالب علموں کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں۔ کالج کے مسلم انقلابی طلباء، بائیں بازو والوں کے مقابلے میں مذہبی ہونے کی حیثیت سے ایک غیر سرکاری انجمن میں سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ اس کمیٹی کو انقلاب کی کامیابی کے بعد قانونی حیثیت مل گئی اور اس کا نام بھی رکھ دیا گیا۔ اس باب میں سن 1979(1357) اور انقلاب کی کامیابی کے زمانے میں انجینیئرنگ کالج کے حالات کے متعلق بھی مختصر وضاحت پیش کی گئی ہے۔

دوسرا باب، سن 1979 کے ابتدائی حصے (اواخر سال 1357) سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت تنظیم مجاہدین خلق، امام خمینی کے پیروکار یونیورسٹی طلباء کے ایک مضبوط گروہ کی تشکیل سے بے خبر، اپنی افرادی قوت کو بڑھانے میں کوشاں تھی۔ ’’مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن انجینیئرنگ کالج‘‘ کی تأسیس کا عمل اور پھر ’’اسٹوڈنٹس اسلامک ایسوسی ایشن تہران یونیورسٹی‘‘ کی تشکیل اور آخر میں ’’اسلامی طلباء تنظیموں کی یونین‘‘ کی تأسیس، اس باب میں بیان ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ’’استحکام وحدت آفس(دفتر تحکیم وحدت)‘‘ کا عنوان، ستمبر 1979(شہریور 1358) کو پولی ٹیکنیک یونیورسٹی میں اسی نام سے منعقد ہونے والے سیمینار سے لیا گیا ہے۔

اس سیمینار میں یونیورسٹیز کی اسلامی طلباء تنظیموں کی یونین کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اراکین کو بھی منتخب کیا گیا۔ وہ سات اراکین یہ ہیں: کتاب کے راوی، فرید سلمانیان، ابراہیم اصغر زادہ، محسن میردامادی، محمود احمدی نژاد، سید علی سیدی نژاد اور رحیم باطنی۔ سیمینار ختم ہونے کے بعد یہ لوگ دوسرے کچھ اراکین کے ساتھ امام خمینی کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور ان سے نظام اسلامی جمہوریہ کے دفاع کے لیے کچھ اراکین کو اپنا نمائندہ بنانے کی درخواست کرتے ہیں۔ آخرکار ستمبر 1979(مھر 1358) میں استحکام وحدت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سات اراکین کی خامنہ ای صاحب، حسن حبیبی صاحب، محمد مجتہد شبستری صاحب، موسوی خوئینی صاحب اور بنی صدر صاحب کے ساتھ مجلس خبرگان کے آفس میں ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں یہ لوگ ’’خط (راستہ) امام خمینی‘‘ کے متعلق اپنے نظریات بیان کرتے تھے۔ آخری ملاقات میں اتفاقاً حاجی احمد خمینی نے بھی شرکت کی اور اس بات کی وضاحت کی کہ امام خمینی کے نزدیک ہماری اور تیسری دنیا کی تمام تر مشکلات اور مصیبتوں کی وجہ امریکہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت اسی طرح سے امریکہ کی دیوار کے پیچھے رہ گئی ہے اور انقلاب کی مجلس شوریٰ نے اس کے مقابلے میں کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا ہے، لیکن امام خمینی سالوں سے اس دیوار کو پار کر چکے ہیں۔ راوی بتاتے ہیں کہ اس طرح کے موضوع پر گفتگو نے اراکین کے افکار کو بہت متأثر کیا۔

تیسرے باب میں، امریکی سفارتخانے پر قبضے کے منصوبے کی تشکیل کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ قبضے کی تجویز پہلی مرتبہ، اکتوبر 1979 کے وسط میں ہونے والی استحکام اتحاد(تحکیم وحدت) کی مرکزی مجلس شوریٰ کی ایک نشست میں پیش کی جاتی ہے۔ اس نشست میں کہ جہاں دو اراکین غیر حاضر تھے، ابراہیم اصغر زادہ پہلی بار اس تجویز کو پیش کرتے ہیں۔ راوی اور محسن میردامادی نے اس سے اتفاق کیا لیکن شوریٰ کے دوسرے دو اراکین یعنی احمدی نژاد اور سیدی نژاد نے اس کی مخالفت کی۔ بالآخر، تینوں متفق اراکین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کام کو مخالفین کی شرکت اور اطلاع کے بغیر آگے بڑھایا جائے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ مزید قابل اعتماد افراد کو شامل کرنے اور کام کی تقسیم اور انجام دہی کے لیے ایک بڑا گروہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی طلباء نے اس کام کے لیے بہت سی ملاقاتیں رکھیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر امریکی سفارتخانے پر قبضے کے لیے بہترین وقت، 4 نومبر(13 آبان) ہے۔ ان منصوبہ بندیوں کے دوران، موسوی خوئینی صاحب کے ذریعے سے اس کام کے لیے امام خمینی کی ایک ضمنی تائید بھی لے لی گئی۔ جاسوسی کا طریقۂ کار اور اس کام کی تیاری اور قابل اعتماد اور وفادار لوگوں کو اکٹھا کرنے کا طریقہ وہ دیگر امور ہیں جنہیں راوی نے اس باب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

’’تیرہویں دن کی صبح‘‘ کے عنوان سے چوتھے باب میں راوی 4 نومبر(13 آبان) کے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ بریفنگ کی میٹنگ صبح 6:30 بجے منعقد ہوتی ہے، اس طرح سے کہ طلباء کو کسی سے رابطہ کرنے یا کسی اور کام کا موقع نہ مل سکے اور سفارتخانے پر قبضے کی بات لیک نہ ہوجائے۔ سفارتخانے میں داخل ہونے کا منصوبہ کچھ یوں تھا کہ بہار روڈ اور طالقانی روڈ کی کراسنگ سے یونیورسٹی طلباء کا ایک ٹولہ مغربی جانب ایک مارچ شروع کرے گا۔ اس مارچ کے شرکاء ظاہری طور پر تہران یونیورسٹی تک مارچ کریں گے اور 4 نومبر(13 آبان) کے شہداء کی برسی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔ صبح 9 بجے مارچ شروع ہوا اور قریب 9:30 بجے طلباء کا ہجوم دیواروں پر چڑھنے، سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں سے مٹھ بھیڑ اور پارکنگ گیٹ کی زنجیر توڑنے کے بعد سفارتخانے کے صحن میں داخل ہوگیا۔ مرکزی عمارت اور اس عمارت کا وہ حصہ جس کی حفاظت ایک مخصوص حفاظتی دروازے کے ذریعے کی جاتی تھی، پر قبضہ وہ دیگر امور ہیں جنہیں اس باب میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔

پانچویں باب میں راوی نے قبضے کے اگلے دن کے واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس باب میں جن امور کو عنوان بنایا گیا ہے ان میں ’’جاسوسی اڈے کی رابطہ کمیٹی(شورای ھماھنگی لانہ جاسوسی)‘‘ کے نام سے ایک نئی کمیٹی کے قیام کا طریقۂ کار، اور دستاویزات کمیٹی، اطلاعات اور ایڈورٹائزنگ کمیٹی، تعلقات عامہ کمیٹی، سروسز کمیٹی، آپریشنز کمیٹی اور یرغمالی امور کمیٹی کے نام سے ان کمیٹیوں کی منظوری شامل ہے۔ ان کمیٹیوں کے اراکین کا تعارف اور ان کے فرائض اس باب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسی دوران ’’اسپیکر کمیٹی‘‘ اور ’’بازو کمیٹی‘‘ جیسی کمیٹیاں بھی قائم ہوئیں، جن کے بارے میں راوی نے گفتگو کی ہے۔ اس کے ساتھ اس باب میں کچھ یرغمالیوں کے نام اور ثقافتی کمیٹی کے ساتھ ان کے برتاؤ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

’’چھیاسٹھ امریکیوں‘‘ کے عنوان سے چھٹے باب میں یرغمالیوں کی نگرانی کے طریقۂ کار کو بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں انقلاب پبلک پراسیکیوٹر آفس کی مدد سے، سی آئی اے کے افسران یعنی ٹام اہرن، ولیم ڈیرٹی اور میلکم کلپ کی شناخت، نگرانی اور ان سے تفتیش کے طریقۂ کار کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس باب میں امریکیوں کے علاوہ دوسرے غیر ملکیوں کو رہا کرنے، انہیں ان کی متعلقہ حکومت کے سفارتخانے کے حوالے کرنے کے طریقۂ کار اور یرغمالیوں کے لیے کھانا تیار کرنے کے لیے پاکستانی باورچی کی خدمات حاصل کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ ثالثی کے لیے وفود کو تہران بھیجنا، خواتین اور سیاہ فام یرغمالیوں کی رہائی، یرغمالیوں کی علاج معالجے اور حفظان صحت کی صورتحال، نیز ان کی سیر و تفریح، وہ دیگر امور ہیں جن کی اس باب میں وضاحت کی گئی ہے۔  اس باب کے آخری حصے میں جون لیمبرٹ کی بھاگنے کی منصوبہ سازی اور اس منصوبے کے ناکام ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

ساتویں باب کے آغاز میں راوی نے اشارہ کیا ہے کہ کس طرح جنوری 1980(دی 1358) میں آزادی کی تحریکوں کا اجتماع منعقد ہوا۔ پھٹے ہوئے اور بوسیدہ دستاویزات اور مائیکرو فلموں کو ٹھیک کرنے اور ان دستاویزات کو انکشافی اطلاعیوں کی شکل میں شائع کرنا اس باب کے دیگر موضوعات ہیں۔ امام خمینی کے جانب سے یرغمالیوں کی تقدیر کے فیصلے کی ذمہ داری، اسلامی پارلمان کو سونپنا، اس باب کے آخر میں بیان ہوا ہے۔

کتاب کا آٹھواں باب، طبس کے واقعے اور اس کے بعد یرغمالیوں کو مختلف شہروں میں بھیجنے کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ میلکم کلپ کی فرار کی ناکام کوشش، جیری مل کی خودکشی کی ناکام کوشش اور چار یرغمالیوں کی منتقلی کے دوران کاشان ہائی وے پر ہونے والا ٹریفک حادثہ وہ دیگر امور ہیں جن کے بارے میں اس باب میں بتایا گیا ہے۔

’’جاسوسی اڈے سے رخصت‘‘ کے عنوان سے نویں اور آخری باب میں راوی نے یرغمالی صورتحال کے اختتام پر پیش آنے والے کچھ واقعات کو بیان کیا ہے اور پھر اپنی گفتگو کو سمیٹا ہے۔ رچرڈ کوئن نامی ایک یرغمالی کی بیماری، یرغمالیوں کی تہران واپس منتقلی، دارالحکومت میں انہیں الگ الگ جگہوں پر رکھنا، جاسوسی اڈے میں طلباء کی تعداد کو زبردستی گھٹانا، طلباء سے امام خمینی کی ملاقات، جاسوسی اڈے میں مجاہدین خلق آرگنائزیشن کا جاسوس اور شہید بہشتی سے متعلق دستاویزات کی اشاعت، الجزائر حکومت کی ثالثی سے یرغمالیوں کی رہائی اور تنظیم خط امام کی سرگرمیوں کا اختتام، وہ دیگر امور ہیں جنہیں اس باب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس باب کے آخر میں، راوی نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو آج تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جاسوسی اڈے پر قبضہ، کوئی غلطی نہیں تھی اور یہ ایک اہم اور بہترین کام تھا جو اس زمانے میں انقلاب کی حفاظت اور استحکام میں مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔

کتاب کے آخر میں تصاویر اور دستاویزات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ دستاویزات کو پہلی بار شائع کیا گیا ہے جیسے: خط امام کے پیروکار مسلم یونیورسٹی طلباء کی تنظیم کا چارٹ۔ اعلام کی فہرست پر یہ کتاب ختم ہوجاتی ہے۔

پہلی بار کتاب ’’دیوار کے اس پار(آن سوی دیوار)‘‘ کو ’سورہ مہر‘ پبلیکیشنز نے 232 صفحات پر مشتمل، 1250 نسخوں کی صورت میں شائع کیا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 6


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
12 فروری 1979 کو انقلاب اسلامی کمیٹی کی تشکیل کے متعلق(23 بھمن 1357)

اکبر براتی کی یادوں کا ٹکڑا

کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔