12 فروری 1979 کو انقلاب اسلامی کمیٹی کی تشکیل کے متعلق(23 بھمن 1357)

اکبر براتی کی یادوں کا ٹکڑا

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-5-14


امام خمینی نے انقلاب کے فوراً بعد جو کام انجام دیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے انقلاب اسلامی کمیٹی کی بنیاد رکھی اور اس کمیٹی کا چیئرمین ’مہدوی کنی‘ صاحب کو مقرر کیا۔ انہوں نے کمیٹی کا ہیڈکوارٹر، قومی اسمبلی کی عمارت میں قائم کیا، لیکن میٹنگز والے حصے میں نہیں بلکہ اسمبلی ممبران کے کمروں میں۔ اس کے بعد انہوں نے تھران کی حلقہ بندی کی اور ہر حلقے میں ایک مسجد کو کمیٹی کا مرکز قرار دیا اور ایک امام مسجد کو کمیٹی کے انچارج مقرر کیا۔ اس طرح سے کمیٹی کی تأسیس کے ساتھ عدالتوں کی ذمہ داریوں اور جوڈیشل افسران کے مختلف کاموں کے علاوہ، پولیس محکمے کی بھی تمام تر ذمہ داریاں کمیٹی کے کاندھوں پر آگئی تھی۔ کمیٹی کی مرکزی شوریٰ کو مہدوی کنی صاحب اور ان کے منتخب کردہ ساتھیوں نے استقبال کمیٹی کے ممبران سے بتدریج تشکیل دیا، جیسے ناطق نوری صاحب، شہید مطہری اور شہید مفتح نے کام شروع کردیا۔ شہید مطہری نے شروع میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ میں اس شعبے میں کوئی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا، لہٰذا مجھے کوئی کام نہ دیا جائے۔ شاید ان کی مہدوی کنی صاحب سے ایک دو ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ کام میرے بس میں نہیں ہے اور اس ذمہ داری کو میرے کاندھوں پر نہ ڈالا جائے۔ وہ شروع میں ہی چلے گئے، لیکن دوسرے حضرات تھے اور وہ مختلف ڈپارٹمنٹس میں ساتھ دے رہے تھے اور استقبال کمیٹی کے  میں کام کرنے والے مختلف افراد میں سے اکثر، انقلاب اسلامی کمیٹی میں شامل ہوگئے۔

آیت اللہ مہدوی کنی نے ایک نگران تنظیم بھی تشکیل دی جس کے ممبران حلقوں میں جاتے تھے اور حلقوں کی کمیٹیوں کو منظم کرتے تھے۔

کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔

بعض لوگوں کی کام کی جگہ تہران میں تھی تو انہیں یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ اپنے کام کی جگہ پر جائیں اور کمیٹی کی تشکیل میں مدد کریں۔ کچھ لوگوں کو وہیں مرکزی کمیٹی میں ذمہ داریاں دے دی گئیں اور وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ لوگ، انقلاب کے دنوں میں جیل سے بھاگ جانے والے کچھ ساواک والوں، چوروں اور بدمعاشوں کو پکڑ کر لاتے تھے اور کمیٹی کے حوالے کردیتے تھے یا ان کی اطلاع دے دیتے تھے۔ کمیٹی کا کام بہت پھیل چکا تھا۔ انقلاب کی حفاظت بھی، شہر کے انتظامی مسائل بھی اور اور دوسری طرف معاشی مشکلات، ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔

ان تمام معاملات کی رپورٹ کمیٹیوں کو عوام دیتی تھی اور کمیٹیاں موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق یونٹس قائم کردیتی تھی۔ یہ یونٹس کبھی ایک میز اور ایک آدمی سے شروع ہوتے تھے اور اس سے کہا جاتا تھا کہ آپ بیٹھ کر یہ رپورٹ تیار کریں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ پھر جب کام کا بوجھ بڑھ جاتا تھا تو وہ شخص افرادی قوت کا مطالبہ کرتا تھا اور بتدریج کام وسیع ہوتے جاتے تھے۔ یہ صورتحال مرکزی کمیٹی میں بھی تھی اور تہران کے مختلف علاقوں میں بھی۔

کمیٹیوں کی سرگرمیوں کے آغاز میں ہی آیت اللہ مہدوی نے لوگوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ تمام علاقائی مراکز میں کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان کی ذیلی حصوں کو بھی ترتیب دیں۔ اس طرح اچانک عوام انقلاب، مختلف مقامات، جائیدادوں، دفتری عماراتوں اور دربار سے وابستہ افراد کے گھروں کی حفاظت کے معرکے میں شامل ہوگئی۔ 16 یا 17 فروری(27 یا 28 بھمن) تھی کہ امام خمینی نے اعلان کیا کہ عوام نے پولیس یا فوج کے مراکز سے جو اسلحہ بھی لیا ہے وہ اسے کمیٹیوں میں جمع کرادیں۔ دوسری طرف انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ فوجی اپنے ڈیوٹی پر واپس آجائیں۔ انقلاب کے دشمن، غیر ملکی اخباروں اور ریڈیو چینلز پر ایسی تحلیلیں پیش کر رہے تھے کہ جن میں یہ کہا جا رہا تھا کہ عوام کے ہاتھ میں موجود اسلحہ، انقلاب کا تختہ پلٹنے کے لیے کافی ہے۔ اپنی شخصی مفادات کے لیے لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں اور اسلحہ تو طاقت کی علامت ہے ہی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ لوگوں کی ذہنوں میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ اسی اسلحی کے بل پر وہ اپنی قوم اور قبیلے کے مطالبات کو منوائیں اور اپنی خودمختاری کا اعلان کریں۔ البتہ سرحدوں پر غیرملکی انٹلیجنس ایجنسیوں کے یہ نعرے اور رہنمائیاں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔

اس زمانے میں، میں انقلاب اسلامی  کی مرکزی کمیٹی میں ایک نگران کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا۔ ہمیں تصویر والے کارڈز بھی بنا کر دیے گئے کہ جن کے ذریعے ہمیں یہ اختیارات دیے گئے تھے کہ کمیٹیوں میں جہاں کہیں بھی ہمیں کوئی مشکل پیش آئے، ہم کمیٹیوں کی مرکزی شوریٰ کے تعاون سے ان مشکلات کو حل کریں۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ مشرقی علاقے میں امام حسین(ع) مسجد کی انقلاب اسلامی کمیٹی کے سربراہ آیت اللہ حقی تھے جو اس مسجد کے امام بھی تھے اور میری ان کے ساتھ کافی میٹنگز بھی ہوئیں۔ میں کچھ ممبران کو جانتا بھی تھا کیونکہ تقریباً ہمارا اپنا ہی علاقہ تھا، ہم نے ان کے ساتھ مل کر تفصیلی طور پر ذیلی کمیٹی کو ترتیب دیا اور ذمہ داریاں بانٹ دیں، ہر کسی کو اس کی ذمہ داریاں معلوم تھیں۔ میری معلومات کے مطابق یہ کمیٹی سب سے کم اختلافات رکھنے والی کمیٹی تھی۔ میرا کام تہران کے مشرقی علاقے سے مرکزی علاقے تک محدود تھا اور تہران کے مغربی یا جنوبی علاقے میں میری کوئی سرگرمی نہیں تھی، وہاں دوسرے ساتھی ہوتے تھے۔

 امام حسین(ع) مسجد کے حوالے سے مجھے یاد آرہا ہے کہ شوریٰ کے کچھ ممبران کو حقی صاحب سے کچھ مسائل تھے اور کچھ کو آنے والے افراد کے ساتھ ۔ مثلاً کہا جارہا تھا کہ یہ ریٹائرڈ افسر یہاں آیا ہے اور اب یہ ہمیں بتائے گا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو جبکہ ہم جانتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے وہ ایک برا آدمی تھا اور اب وہ چاہتا ہے کہ کمیٹی کے سارے کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ہم ان لوگوں کو بلاتے تھے ان سے بات چیت کرتے تھے میٹنگز کرتے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان میری ملاقات ایک ایسے افسر سے ہوئی جو انقلاب کی کامیابی سے کئی سال پہلے ریٹائر ہوگئے تھے۔ ہم نے ان کے گھر کا پتہ ڈھونڈا اور ہیڈکوارٹر سے ہم نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ وہ ایک اچھے اور متدین انسان ہیں اور ان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس کے ساتھ دو اور لوگ تھے کہ ان کے بارے میں گردش کرنے والی افواہیں بالکل صحیح تھیں اور ہم ان پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے لہٰذا ہم نے انہیں کمیٹی کی شوریٰ سے نکال دیا، لیکن ہم نے ان صاحب کا نام مرکزی شوریٰ کو بھیج دیا جو ایک اچھے مشیر ہیں، وہ عسکری لحاظ سے بھی جوانوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں، سلجھے ہوئے، ذہین اور خیرخواہ بھی ہیں اور انہیں عوام سے کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ وہاں ہمیں کچھ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت پیش آئی اور ہم نے کچھ افراد کی جگہ تبدیل کردی۔ ان تبدیلیوں سے تناؤ بھری صورتحال پیش آنی ہی تھی لیکن خوش قسمتی سے حقی صاحب کے ساتھ میٹنگز کے ذریعے یہ مسائل حل ہوگئے۔

اگر ابھی تہران کی کمیٹیوں کےریکارڈ کے بارے میں تحقیق کی جائے تو امام حسین(ع) مسجد کی کمیٹی، ایک بہت اچھے ریکارڈ والی اور کامیاب کمیٹی ہوگی جبکہ نظام آباد روڈ، وہ جگہ تھی کہ جہاں کچھ برے لوگوں نے اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ شمال۔مشرق تہران کے متدین لوگوں کے بیچ، نظام آباد کی تنگ گلیوں میں برے لوگ بھی رہتے تھے جنہوں نے اسلحہ بھی حاصل کرلیا تھا اور چاقو مار بھی تھے اور وہاں انہوں نے اپنا اڈا بنا لیا تھا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا اور رپورٹ دی گئی کہ یہ بدمعاش لوگ گاڑیاں روک لیتے تھے اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور جھگڑے کرتے ہیں۔ میں پولیس ڈرائیور کے ساتھ سائرن بجاتے ہوئے تیزی سے وہاں پہنچ جاتا تھا اور وائرلیس پر مرکز سے رابطے میں رہتا تھا۔ اگر فورس کی ضرورت پڑتی تھی تو ہم فورس طلب کرتے تھے، فورس آتی تھی اور ان بدمعاشوں کو گرفتار لیتی تھی۔

ایک رات ہمیں خبر ملی کہ فائرنگ ہوئی ہے اور ایک جوان مارا گیا ہے۔ ان لوگوں نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ کمیٹی والوں نے چیک پوسٹ پر اس جوان کو مارا ہے۔ صبح سویرے ان میں سے کچھ افراد نے جو اس جوان کے والد کے دوست تھے اس خاندان کی حمایت میں کمیٹی کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا تھا تاکہ وہ اس کے اسلحہ خانے سے سارا اسلحہ لوٹ کر لے جائیں، انہوں نے کہا تھا کہ ہم تم سب کو مار ڈالیں گے۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ گیا اور انہیں گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد ہم نے میٹنگز رکھیں اور اصل معاملہ سامنے آیا کہ یہ جوان پستول صاف کر رہا تھا اور چونکہ اس معلوم نہیں تھا اس لیے اس نے پستول اپنی طرف کرلی تھی اور گولی چلنے سے اس کی موت ہوگئی تھی۔ عینی شاہدین کے بیانات بھی لیے گئے اور اس کے گھر والوں کو بھی معاملے سے آگاہ کیا گیا۔ ہم نے کچھ افراد کو ایک ہفتہ زیر حراست رکھا اور انہوں نے حلف نامہ جمع کرایا کہ اب وہ اس طرح کے کام نہیں کریں گے اور اگر انہیں کوئی شکایت ہوگی تو وہ کمیٹی میں رپورٹ لکھوائیں گے۔ اگر اب انہوں نے ہتھیار اٹھایا تو انجام کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ تہران کے مشرقی علاقے میں تقریباً اسی طرح کے واقعات پیش آتے تھے۔

 

 

 

منبع: فتح اللہ زادہ، مرتضی، رفیق بروجردی، خاطرات اکبر براتی، انتشارات ایران، بھار 1402، ص 135



 
صارفین کی تعداد: 10


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
12 فروری 1979 کو انقلاب اسلامی کمیٹی کی تشکیل کے متعلق(23 بھمن 1357)

اکبر براتی کی یادوں کا ٹکڑا

کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔