زبانی تاریخ کا مستقبل کیا ہوگا؟

حمید قزوینی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-2-21


ٹیکنالوجی کی ترقی، مختلف شعبوں میں مواصلاتی سہولیات تک لوگوں کی رسائی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے کچھ ملازمتوں اور علمی شعبوں کو شک و تردید میں ڈال دیا ہے۔ کیا زبانی تاریخ کا انجام بھی یہی ہوگا اور وہ ان شعبوں کی صف میں شامل ہوجائے گی جو آہستہ آہستہ ماند پڑتے جائیں گے اور اپنی اہمیت کھودیں گے؟

اس سوال کے جواب کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ زبانی تاریخ کا وہ محور کہ جس کے گرد اس شعبے نے تشکیل پائی ہے وہ کیا ہے اور مستقبل میں اس کا کیا مقام ہوگا؟

یہ بات واضح ہے کہ انسان، اس کا مشاہدہ، اس کے احساسات اور اس کا عمل، زبانی تاریخ کا محور ہیں۔ یہ امور کبھی بھی موضوعیت سے خارج نہیں ہوں گے اور ان سے منسلک شعبوں کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہوگی۔ ایک عمومی جائزے کے مطابق زبانی تاریخ بہت تیزی سے بشریات، فلسفہ، معاشریات، نفسیات، ثقافتی مطالعہ، آرٹ، ادبیات اور دیگر شعبوں کے ساتھ رابطہ قائم کرتی جا رہی ہے اور اپنی زندگی کے سفر کو جاری رکھے گی۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لوگوں کے تجربات کے مطالعے کا عمومی لگاو اور آج کل کے حالات سے گزشتہ واقعات کے تعلق سے آگاہی کی خواہش اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کا اہمیت حاصل کرلینا، اسی طرح سے زبانی تاریخ کی ایک تحقیقاتی ذریعے کی حیثیت سے محفوظ رکھے گا۔ اس اعتبار سے زبانی تاریخ، تمام علمی اور عملی شعبوں کے لیے ایک اہم ماخذ شمار کیا جاتا رہے گا اور ذرائع ابلاغ(میڈیا)، دستاویزی فلموں اور یہاں تک کہ آرٹ پروجیکٹس میں بھی اس سے مدد لی جاسکے گی اور عوام کے لیے وسیع پیمانے پر اس تک رسائی ممکن ہوگی۔ یہ تعاملات، سائنسی مطالعات کی بہتری میں مدد کرکے، مختلف اعمال میں انسان کے وجود کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب زبانی تاریخ، عام لوگوں کے تجربوں اور نظریات کو محفوظ کرنے کے سبب، دستاویزی فلم سازی اور ثقافتی، سماجی اور سیاسی تحلیلوں کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔

اس طرح، نقل، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی ٹیکنالوجیز کی پیشرفت کے ذریعے زبانی تاریخ، ڈیٹا جمع کرنے، اسے ترتیب وار محفوظ کرنے اور اس کے استخراج کے لیے بہتر وسائل سے آراستہ ہوجائے گی۔ یہ ٹیکنالوجیز، اعلیٰ معیاری اور مزید تفصیلی دستاویزی فلم سازی کا موقع فراہم کریں گی اور معلومات کو ملٹی میڈیا اور مزید تعاملی انداز سے پیش کرنے میں مؤرخین کی مدد کریں گی۔ اس کے علاوہ، سوالات کی تیاری، موضوعات کی نشاندہی اور راویوں کی تلاش کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے بھی مدد لی جاسکے گی۔

شاید اس شعبے کے سامنے سب سے بڑا چیلنج، یادوں کی بے ضابطہ نشر و اشاعت اور اس میدان میں اخلاقی اور قانونی حدود کی رعایت کا نہ ہونا ہے کہ جس کے لیے معاشرہ، ضروری اقدامات کرے گا۔

اگلا سوال یہ ہے کہ زبانی تاریخ کے فعالیت پسندوں کو کون کون سی مہارتیں سیکھنی ہوں گی تاکہ مستقبل میں مناسب ملازمت کے حصول میں انہیں زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوں؟ کیا کل کے ڈیجیٹل دور میں انٹرویو لینے اور کتابوں کی تحریر و تدوین کے لیے موجودہ قابلیت کافی ہوگی؟

فیوچر اسٹڈیز سے متعلق کچھ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر شعبے کے روایتی علم اور مہارتوں کے علاوہ، سب سے اہم مہارت، تجزیاتی اور تخلیقی سوچ پر مبنی ایک تنقیدی نظر رکھنا اور تفصیلات پر توجہ ہے۔ اس قسم کی سوچ کا فقدان، معاشرے کے تمام واقعات پر سطحی نظروں میں الجھے رہنے کا باعث بنتا ہے جو انٹرویوز اور کتابیں تیار کرنے میں غیر مؤثر ہے۔ در حقیقیت، زبانی تاریخ کے فعالیت پسند کو ایک کثیر جہتی اور تنقیدی نظر کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کے ذریعے وہ نئے موضوعات کی نشاندہی، سوالات کی تیاری اور زبانی تاریخ کے پروجیکٹ کو مخاطب کی ضرورت کے مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔

اس سب کے علاوہ، تکنیکی سوجھ بوجھ، کمپیوٹر سافٹ ویئرز کے ذریعے کام کرنے کی صلاحیت، دوسروں کے ساتھ تعاون کی قابلیت اور کوالٹی کنٹرول کی مہارت، وہ دیگر مہارتیں ہیں کہ جن سے زبانی تاریخ کے فعالیت پسند کو ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے۔

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 24


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

زبانی تاریخ کا مستقبل کیا ہوگا؟

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ لوگوں کے تجربات کے مطالعے کا عمومی لگاو اور آج کل کے حالات سے گزشتہ واقعات کے تعلق سے آگاہی کی خواہش اور انفرادی اور اجتماعی شناخت کا اہمیت حاصل کرلینا، اسی طرح سے زبانی تاریخ کی ایک تحقیقاتی ذریعے کی حیثیت سے محفوظ رکھے گا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔