شہید مہدی زین الدین کی زوجہ، منیرہ ارمغان کی یادیں
انتخاب: فریبا الماسی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2025-1-31
انہوں نے کہا: ’’ اب ہم جنوب میں نہیں رہیں گے، ہم مغرب کی طرف جا رہے ہیں۔ وہاں بدامنی ہے۔ میں آپ کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا۔ آپ کو قم واپس جانا ہوگا۔‘‘ قم میں ہمارا کوئی گھر بار نہیں تھا، میں اپنے والد کے گھر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کال کی اور کہا: ’’ میں راستے میں ہوں۔ آپ میرے والد کے گھر چلی جائیں، میں بھی آرہا ہوں۔‘‘ وہ رات مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ان کی والدہ نے فسنجان(ایرانی ڈش) بنایا تھا؛ مہدی کا پسندیدہ کھانا۔ ان کے والد انار خرید کر لائے تھے۔ مہدی کو پھلوں میں انار بہت پسند تھا۔ رات کے کھانے کے بعد ہم سب اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں کٹورے میں انار کے دانے نکال رہی تھی۔ ایک اداس خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی بھی بات نہیں کر رہا تھا۔ میری ساس نے خاموشی کو توڑا۔ انہوں نے بہت سے سوال پوچھے اور مہدی نے ان کے جواب دیے۔ ان کا لہجہ کچھ الگ تھا۔ اس میں ہمیشہ والی تازگی نہیں تھی۔ دوبارہ انہوں نے وہی الفاظ دہرائے جو میں پہلے بھی ان کی زبان سے سن چکی تھی۔ اس بار انہوں نے بھاری آواز میں کہا: ’’ اب مجھے شہید ہوجانا چاہیے۔‘‘ میں نے مسکرا کر ان کا جواب دیا: ’’ کوئی زبردستی تھوڑی ہے، شاید خدا کو منظور نہ ہو۔‘‘ انہوں نے پہلے سے زیادہ زور دے کر کہا: ’’ نہیں، زبردستی ہے، خدا کو یہ منظور ہونا چاہیے کہ میں شہید ہوجاؤں۔‘‘ ہم نے کہا شاید وہ کسی بات پر دکھی ہیں؛ ہم میں سے کسے نے بھی ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہمیں کیا پتہ تھا واقعی میں وہ ہم سے دور چلے جانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ جیسا انہوں نے خدا سے چاہا ہے ویسا ہی ہوگا۔
صبح سویرے اذان سے پہلے ہم حرم چلے گئے۔ پہلے ہم نے زیارت کی پھر نماز پڑھی اور اس کے بعد ہم شہید مدنی کے مزار پر گئے۔ ہم شیخان کے گلزار شہداء(قبرستان) بھی گئے۔ ہمارے نکاح والے دن کی یادیں بار بار میرے ذہن میں آرہی تھیں۔ جب ہم گھر واپس آئے تو مہدی، الوداع کہہ کر چلے گئے۔ میرے ذہن میں بالکل نہیں آیا کہ شاید یہ آخری بار ہو کہ جب میں ان سے مل رہی ہوں۔
کچھ ہفتے گزرے تھے کہ میں شہید ہمت[1] کی زوجہ اور شہید باکری[2] کی زوجہ کے ساتھ رہ رہی تھی؛ تین کمروں والے ایک گھر میں جو قم کی سپاہ کی بلڈنگ کے پیچھے تھا۔ اس دن شام کو انہوں نے مجھ سے کہا: ’’ تمہیں ہمارے لیے قمی کھانا بنانا ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ تم کیسا کھانا بناتی ہو؟‘‘ مغرب کے قریب میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، مسز ترابیان[3] تھیں۔ انہوں نے مسز باکری کے کان میں کچھ کہا اور چلی گئیں۔ رات کا کھانا تیار ہوگیا تو میں نے دسترخوان لگا دیا۔ میرا دل خوش کرنے کے لیے انہوں نے ایک دو نوالے کھا لیے۔ انہوں نے کھانا ہٹا دیا اور کہا: ’’ ہمیں بھوک نہیں ہے۔‘‘ روز رات کو ہم خبریں دیکھتے تھے لیکن اس رات انہوں نے ٹی وی کا پلگ نکال دیا تھا۔ ان کا برتاؤ کچھ بدلا بدلا سا تھا لیکن چونکہ ابھی تک ہم زیادہ قریب نہیں ہوئے تھے اس لیے میں نے کچھ نہیں پوچھا۔ جب صبح ہوئی تو مسز باکری نے فوراً اپنے کمرے کے پردے ڈال دیے اور دروازہ بھی بند کرلیا۔ کمرے کی کھڑکی سے سپاہ کا صحن نظر آتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے شک ہونے لگا کہ کچھ ہوا ہے۔ جب انہوں نے میری مشکوک نظریں دیکھیں تو وہ بول پڑیں اور کہنے لگیں: ’’ گھبرانا نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ مہدی صاحب کا بھائی، مجید شہید ہوگیا ہے۔‘‘ اچانک مجھے دھچکا لگا۔ زین الدین خاندان کا چہیتا بیٹا؛ کم گو، شوخ اور مہربان۔ ابھی چند ہفتے پہلے ہی اس نے گھر کی شفٹنگ میں میری مدد کی تھی۔ جب انہوں نے دیکھا میری حالت خراب ہو رہی ہے تو کہنے لگیں: ’’ نہیں نہیں، ہم نے غلط بتادیا، بتا رہے ہیں وہ زخمی ہوا ہے۔‘‘ اسی کشمکش میں میری بہن آئی۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ تب میں سمجھی کہ بات وہ نہیں ہے جو مسز ہمت اور مسز باکری بتارہی ہیں۔ اس نے کہا: ’’ کپڑے بدلو، ہمیں جانا ہے۔‘‘ اس ڈر سے کہ وہ کہیں کوئی بری خبر نہ دے دے، میں نے نہیں پوچھا کہ کیوں اور کہاں۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر اپنے والد کے گھر کی طرف چلے گئے۔ بازار کے چوراہے پر میں نے گاڑی کے شیشے سے کالے رنگ کا ایک بڑا پلے کارڈ دیکھا جس پر مہدی اور مجید کی شہادت کی مبارک باد اور تعزیت پیش کی گئی تھی۔ مجھے شوک لگا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں۔ ان کی شہادت کا اطلاعیہ میرے والد کی دکان کے شیشے پر لگا ہوا تھا۔ میری نظریں مہدی کی تصویر پر ٹک گئیں۔ میں خود کو دلاسا دے رہی تھی کہ نہیں، مہدی شہید نہیں ہوئے۔ گھر میں کسی نے ایک آنسو بھی نہیں بھایا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میری آواز بھی بند ہوگئی تھی۔ میں حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی؛ اپنی والدہ کو، اپنے والد کو اور لیلا کو۔ حاجی زین الدین صاحب کے گھر پہنچنے تک میں نے ہزار طرح کی باتیں سوچ لیں۔ میں ان کے زندہ ہونے کے بارے میں سوچ رہی تھی، ان کے سانس لینے کے بارے میں، ان سے دوبارہ ملنے کی امید کے بارے میں۔ گھر پہنچنے سے پہلے میں نے دوبارہ پلے کارڈ دیکھا جس پر مہدی اور مجید کی تصویر ایک ساتھ لگی ہوئی تھی۔ تب مجھے یقین ہوگیا کہ سب کچھ ختم ہو چکا۔ وہ سکون سے تابوت میں لیٹے ہوئے تھے، بالکل اسی جوان کی طرح جسے رشتے سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ میں نے اپنے بیگ سے قرآن مجید نکالا اور ان کے سینے پر رکھ دیا۔ میں نے ان کے چہرے پر نظر ڈالی؛ وہ بالکل چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ جب میں نے ان کے چہرے پر پڑے نیل کے بارے میں پوچھا، تو بتایا گیا: ’’ یہ پتھر پر گرنے کے نشان ہیں، وہ منہ کے بل زمین پر گرے تھے۔‘‘ مہدی، اپنی مہربانی، ہنسی اور یادوں کے ساتھ مجھے اور لیلا کو چھوڑ کر جا چکے تھے؛ بارش میں بالکل اکیلا چھوڑ کر۔[4]
تاریخ شفاهی :: خاطرات منیره ارمغان؛ همسر شهید مهدی رین الدین (oral- history.ir)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] شہید حاجی محمد ابرہیم ہمت، محمد رسول اللہ(ص) ڈویژن۔27 کے کمانڈر جو سن 1984(1362) میں آپریشن خیبر کے دوران شہید ہوئے۔
[2] شہید حمید باکری، عاشورا ڈویژن۔31 کے سیکنڈ ان کمانڈ جو 1984(1362) میں آپریشن خیبر کے دوران شہید ہوئے۔
[3] شہید محمد حسن ترابیان، محمد رسول اللہ(ص) ڈویژن۔27 کے ڈپٹی چیف آف پلیننگ اینڈ آپریشنز کے جانشین جو سن 1986 میں آپریشن والفجر۔8 میں شہید ہوئے۔
[4] قربانی، مھدی، تنھا زیر باران روایت زندگی شہید مھدی زین الدین، قم، انتشارات حماسه یاران، چ دوم، 1397(2018)، ص ۲۱۸.
صارفین کی تعداد: 66