فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2024-12-26
فوج کے سربراہان نے کہ جو امام خمینی(رہ) کے فوجیوں اور افسران کو دیے ہوئے فرار کے حکم سے خوفزدہ تھے، اصرار کیا کہ ان کے امام خمینی(رہ) سے روابط رکھنے والے لوگوں سے مذاکرات کرائے جائیں. قرہ باغی اور دیگر کچھ حکام جو فوج کے ہدایت کار تھے، انہوں نے کہا تھا کہ ہم(مذکورہ گروہ کے ذریعے) مذاکرات کرنا چاہتے ہیں. شوریٰٰ میں اس پر بات ہوئی. یہ نتیجہ نکلا کہ یہ ملاقات فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے لیکن "بشرطھا و شروطھا"(کچھ شرائط کے ساتھ).
ان شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ہمیں اس بات کی خبر پیرس پہنچانی ہوگی. ہمارے ساتھی اصرار کر رہے تھے کہ جو افراد اس ملاقات میں شرکت کرنے والے ہیں ان میں مجھے بھی شامل ہونا چاہیے. میں نے بھی اس شرط کے ساتھ کہ ملاقات کی جگہ ہمارا گھر ہو، قبول کر لیا. مجھے یاد ہے کہ اس دن میرا ایک ساتھی بڑبڑانے لگا اور کہنے لگا: یہ کیسی شرط لگا رہے ہو اگر یہ ملاقات تحریک کے لیے فائدہ مند ہے تو اس کی جگہ اپنا گھر کیوں رکھ رہے ہو؟ اگر اہم نہیں ہے تو کہہ دو کہ اہم نہیں ہے. جب شوریٰ نے منظوری دے دی ہے تو یہ ایک طرفہ رویہ کیوں؟
میں نے اس سے کہا: نہیں! میرے(شہید ڈاکٹر محمد حسین بہشتی) خیال میں ملاقات اس طرح سے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے. انہیں اپنی فوجی حاکمیت کے غرور کے ساتھ ہم سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے!
طے پایا کہ شوریٰ کی اسی میٹنگ میں پیرس بات کی جائے. خود میں نے بات کی. جب ہم وہاں فون کرتے تھے تو وہاں مختلف افراد موجود ہوتے تھے جو ہمارا پیغام لے کر جاتے تھے اور اس کا جواب لے کر آتے تھے. چونکہ امام خمینی(رہ) خود فون پر بات نہیں کرتے تھے، اس دن احمد صاحب نے فون اٹھایا(ہمارا معمول یہ تھا کہ ہم پیغام کو لکھتے تھے یا کیسٹ میں ریکارڈ کرتے تھے تاکہ ہمارا پیغام بالکل واضح ہو، اسے لے کر جاتے تھے اور اس کا جواب لے کر آتے تھے) جواب یہ تھا کہ کوئی حرج نہیں اور میں نے بھی تیاری کا اظہار کردیا.
اگلا دن آیا. انہوں نے کہا: فوج کے سربراہان نہیں مانے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے! اس لیے ہم آپ کے گھر نہیں آسکتے!
میں نے کہا: پھر میں شرکت نہیں کروں گا. اگر دوسرے ساتھی شرکت کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں...
ایک دو دن بعد انہوں نے بتایا: وہ لوگ "مقدم" (جسے اب پھانسی دی گئی ہے) کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہے ہیں(کیونکہ وہ ان کی شوریٰ کا رکن تھا)، وہ گھر میں ملاقات کرنے کے لیے تیار ہے.
میں اور انجینئر بازرگان گھر میں تھے، وہ بھی آگیا. ہم نے تفصیل سے بات چیت کی. میں نے گفتگو کا رخ عوام کی انقلابی طاقت کی طرف موڑ دیا. میں نے انقلاب کے فوج کے اندر رسوخ کی بات کی. واقعی میں یہ سب فریب نہیں تھا.
میں نے اس سے کہا: میں آپ سے واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ فوج کے کرنل بھی انقلاب کے ساتھ ہیں. اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھو!
شاید کچھ عزیزوں کی نظر میں اس طرح کی باتیں تحریک میں ایک چال ہو. بہرحال میں اس حکمت عملی کا قائل تھا اور میرا یہ ماننا تھا کہ دشمن کو ڈرایا جائے.
میں نے اس سے دوبارہ کہا: میں واضح الفاظ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اسی گارڈ(فورس-گارد جاویدان پہلوی) جس پر آپ کو بھروسہ ہے، میں انقلابی عناصر موجود ہیں! آپ لوگ اپنی گارڈ(فورس) پر بھی بھروسہ نہ کریں! مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اس طرح کی گفتگو ہماری پوزیشن کو کتنا طاقتور اور دشمن کی پوزیشن کو کتنا کمزور کر رہی ہے.
منبع: خاطرات ماندگار، زندگی آیت الله دکتر سید محمد حسین بهشتی، به کوشش مرتضی نظری، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چ ۱، ۱۳۷۸(1999)، ص ۱۷۶-۱۷۸.
صارفین کی تعداد: 18
گذشتہ مطالب
- فوج کے سربراہان سے مشروط ملاقات
- تبریز کی فوجی گیریژن پر قبضے کا طریقہ کار
- سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت
- حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز
- امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری
- مراجع کرام کا قم سے نجف پیغام بھیجنے کا طریقہ
- نوجوان دوشیزہ نشان عبرت بن گئی
- اس آدمی کا پیچھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟