عراق میں فوجی ٹریننگ

حاجی مصطفی خمینی صاحب کی تجویز

مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-12-17


ایک مرتبہ ہم حاجی مصطفی خمینی صاحب کے گھر پر تھے اور جدوجہد اور انقلاب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، انہوں نے مسلح قیام کی بات کی اور کہا کہ شاید کسی دن ایران میں مسلح قیام کی ضرورت پیش آسکتی ہے تو ہمیں لوگوں کو عسکری لحاظ سے تیار کرنا چاہیے.

پھر انہوں نے مجھے بھی یہ تجویز دی کہ میں فوجی ٹریننگ کا کورس کروں. میں  نے پہلے ہی تہران میں کسی حد تک فوجی ٹریننگ لے لی تھی اور شوٹنگ کی مشقیں بھی کر رکھی تھیں،  میں نے مصطفی صاحب کی تجویز کو قبول کرلیا.

مصطفی خمینی صاحب کی فوجی مشقوں کی تجویز کو قبول کرنے کے بعد ایک عرصے تک میں موسیٰ اصفہانی صاحب کے ساتھ رابطے میں رہا اور اس دوران میں، بغداد میں موسیٰ صاحب کے گھر مسلسل آتا جاتا رہتا تھا اور محتاط رہتا تھا کہ نجف کے انقلابی طلباء کو اس تعلق کی بھنک تک نہ پڑے تاکہ نجف کے حوزے میں یہ میری بدنامی کا باعث نہ بنے.

جن دنوں میں بغداد میں ہوتا تھا تو میں موسیٰ صاحب کے گھر میں رہتا تھا اور ملٹری بیس آنے جانے کے لیے ایک شخص پرانی ٹیکسی میں میرے پیچھے آتا تھا. بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس طرح کی گاڑی کا انتخاب جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے. اس کھٹارہ ٹیکسی کا ڈرائیور، ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتا تھا اور بند سگنلز سے بھی گزر جاتا تھا اور ٹریفک اہلکار بھی اسے کچھ نہیں کہتے تھے. جب میں اس پر اعتراض کرتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ یہ ایک خاص گاڑی ہے، بعد میں مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ عراقی وزارت انٹیلیجنس کی گاڑی ہے اور چونکہ ٹریفک اہلکار بھی اس کے نمبر کو پہچانتے تھے تو کچھ نہیں کہتے تھے.

اس تکلیف دہ گاڑی جس سے میں، ملٹری بیس جاتا تھا، کے علاوہ ایک لگژری گاڑی اور تھی جو بعث پارٹی کے سیاسی معاون، علی رضا کی تھی. علی رضا ایک باشعور اور حساس جوان تھا اور کبھی کبھار وہ مجھے یہاں وہاں لے جاتا تھا. ایک اہلکار اور بھی تھا جو مجھے کبھی کبھی اپنی گاڑی سے لاتا لے جاتا تھا.

عراق میں فوجی ٹریننگ  کورس کے کچھ مرحلے تھے. پہلے مرحلے میں ایک گھر میں ٹریننگ تھی؛ بڑے بڑے اور اسلحے سے بھرے ہوئے گھر کہ جن کی کھڑکیاں اور دروازے ہمیشہ بند رہتے تھے. اگلا مرحلہ جو فوجی ٹریننگ میں میری کامیابی کی دلیل تھا، عراقی فوج میں تھا. مجھے فوجی وردی میں ٹریننگ دینے والے کچھ سارجنٹس کی میری طرح داڑھی تھی اور مجھے ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی.

جب میری ٹریننگ کا کچھ وقت گزر گیا تو مجھے شوٹنگ ایریا میں لے جایا گیا اور مجھے بھاری اسلحہ استعمال کرنا سکھایا گیا کہ جس کے بارے میں، میں پہلے سے کچھ نہیں جانتا تھا.

ان کے علاوہ میری دوسری فوجی مشقیں بھی تھی اور در حقیقت چھ ماہ تک جاری رہنے والا یہ ٹریننگ کورس ایک مکمل، بنیادی اور مشکل ملٹری کورس تھا؛ کیونکہ ایک طرف تو مجھے مختلف قسم کے جدید ترین ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا تھا، جنہیں دنیا بھر کی افواج استعمال کرتی ہیں اور یہ آسان کام نہیں تھا، اور دوسری طرف ایک ملٹری پروگرام جو میرے لیے تیار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ مجھے کچھ گھروں میں چھپ کر گھر سے باہر موجود اہداف کو نشانہ بنانا ہوتا تھا.

خاص طور پر اسی فوجی ٹریننگ کے لیے بنائے گئے گھروں میں میری ٹریننگ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا. اس کے بعد صحراؤں اور پہاڑوں میں ہمارے لیے مختلف اہداف مقرر کیے جاتے تھے تاکہ ہم مختلف ہتھیاروں کی مدد سے انہیں نشانہ بنائیں. خوش قسمتی سے میں نے دشوار اور مشکل فوجی اور گوریلا ٹریننگ کو بہت اچھی کارکردگی کے ساتھ مکمل کر لیا؛ البتہ جیسے کہ میں نے بتایا کہ میں اس پورے عرصے میں ملٹری بیس میں ایک فوجی کی طرح نہیں تھا بلکہ میں آتا جاتا رہتا تھا لیکن ضوابط کے مطابق مجھے  بغداد شہر میں اصفہانی صاحب کے گھر جانا ہوتا تھا.

جب میں نجف سے بغداد جاتا تھا تب بھی مجھے سیدھا ان کے گھر ہی جانا ہوتا تھا اور عراقی انٹیلیجنس اہلکار مجھے کہیں اور جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور یہ اس خصوصی فوجی ٹریننگ کورس کے ضوابط میں شامل تھا.

اس فوجی ٹریننگ کورس کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ انٹیلیجنس اہلکار مجھے ٹریننگ کے لیے مختلف گھروں میں لے کر جاتے تھے اور جن لوگوں سے میں ملتا تھا، ان کے جنگی ساز وسامان اور آلات سے متعلق عرفی نام ہوتے تھے جیسے"خنجر"، "شمشیر" اور "بندوق" لیکن عربی زبان میں، اور وہ انہی ناموں سے ایک دوسرے کو بلاتے تھے اور مجھ سے تعارف کرواتے تھے. انہوں نے میرا بھی ایک عرفی نام رکھا تھا اور وہ میرا نام اور خاندانی نام استعمال نہیں کرتے تھے.

ٹریننگ کے دوران بغداد میں انہوں نے میری ملاقات ایک شخص سے کروائی جسے میں بالکل بھی نہیں جانتا تھا. وہ لمبا اور دبلا پتلا تھا. وہ ہمیشہ جوگرز پہنے رہتا تھا. عراقی اہلکاروں نے اس کا "پیری" یا "پیروی" کے نام سے مجھ سے تعارف کروایا اور کہا کہ اب سے آپ ان کے ساتھ تعاون کریں گے جو ایک ایرانی فراری ہیں اور بیرون ملک سیاسی سر گرمیاں انجام دیتے ہیں.

مجھے یقین تھا کہ انہوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کا اصلی نام مجھ سے چھپایا ہے جو بیرون ملک ایک معمولی بات ہے. مجھے لگ رہا تھا کہ سید موسیٰ اصفہانی اسے جانتے ہوں گے اور جب وہ ملے اور انہوں نے بات چیت کی تو مجھے یقین ہوگیا کہ وہ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے؛ اگرچہ وہ اپنی دوستی مجھ پر ظاہر نہیں کر رہے تھے.

جب میں نے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں ایران میں یونیورسٹی ٹیچر تھا اور چونکہ میں شاہ کا مخالف تھا تو اس لیے مجھے فرار ہونا پڑا اور میں عراق آگیا. وہ واقعی میں ایک فعال سیاسی شخصیت تھا اور یونیورسٹی کے فراری طلباء اور ایرانی مجاہدین سے اس کے گہرے تعلقات تھے. ان میں سے کچھ افراد اس کے ساتھ تھے اور شاہ کی حکومت کے خلاف سرگرمیاں انجام دیتے تھے.

 پہلی ہی ملاقات میں مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ ہوشیار ہے اور وہ کسی کو بھی یہاں تک کہ اپنے فوجی اور سیاسی ساتھی کو بھی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ اس کی اصلیت کا پتہ لگائے. وہ نہ صرف علماء بلکہ مولویت سے ہی بدگمان تھا اور اسے سید موسیٰ کے ذریعے پتہ چل گیا تھا کہ میں ایک عالم دین ہوں اس کے باوجود وہ واضح طور پر کہتا تھا کہ شیعوں کی مولویت کی اصلاح ہونی چاہیے. اس کے پاس بہت سے علماء تھے اور وہ علی الاعلان کہتا تھا کہ مولویت بے توجہی اور لاعلمی میں گمراہی کی طرف جا رہی ہے. جب میں نے دیکھا کہ اس کے اردگرد کے اکثر لوگ بائیں بازو والے ہیں اور مولویت پر اعتماد نہیں کرتے تو میں نے اس کے ساتھ تعاون کو ترک کردیا. کچھ عرصے بعد مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ تیمور بختیار تو نہیں تھا؟! کیونکہ میں نے کبھی بھی بختیار کو نہیں دیکھا تھا اور میں اس کے چہرے اور حلیے سے واقف نہیں تھا.

میرے فوجی اور گوریلا ٹریننگ کرنے کے بعد، حوزہ علمیہ کے انقلابی طلباء کی ٹریننگ کا زمینہ بھی فراہم ہوگیا. میں نے عسکری امور میں دلچسپی رکھنے والے اور ملک کے لیے آنے والے دشوار دنوں کے لیے تیاری کی ضرورت سے آگاہ کچھ طلباء سے بات چیت کی اور پھر کربلا کی صوبائی حکومت کے ذریعے، ہمیں ضروری ہتھیار فراہم کیے گئے تاکہ میں طلباء کی فوجی ٹریننگ شروع کرسکوں، ٹریننگ کی جگہ، آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی کے مدرسے کا ایک حجرہ تھا. ٹریننگ کر رہے ہمارے  دوستوں کے علاوہ کسی کو بھی ہمارے کام کا علم نہیں تھا. اس حجرے میں ہمارے دوست ہتھیاروں اور ملٹری کے نظریاتی کام سے آشنا ہوتے تھے لیکن عملی کاموں اور شوٹنگ کی مشقوں کے لیے، کربلا کے گورنر نے مجھے کربلا کے جنوب میں واقع ایک بڑے دشت "رزارہ" کے بارے میں بتایا. اس دشت کو دریائے فرات میں طغیانی کے وقت، اضافی پانی کو گزارنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لیے وہاں ایک بڑا تالاب بن گیا تھا جسے تیراکی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، البتہ تالاب کا پانی ٹھہرے ہونے کی وجہ سے کڑوا اور پینے کے قابل نہیں تھا.

اس تالاب کے آس پاس کا علاقہ شوٹنگ اور فوجی مشقوں کے لیے ایک مناسب جگہ تھی. تالاب میں تیراکی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایک مرتبہ کربلا کی کچھ لڑکیوں کو تیراکی کے لیے بلکہ برباد کرنے کے لیے وہاں لایا گیا تھا اور ان میں سے ایک لڑکی نے کہ جو تیراکی میں ماہر تھی، اس بات سے بے خبر کہ تالاب دلدلی ہے، چھلانگ لگادی  اور تالاب کے دلدل میں پھنس گئی اور پھر اوپر نہیں آپائی.

چونکہ یہ ایک ویران علاقہ تھا اور شہر سے دور تھا اس لیے یہ شوٹنگ کے لیے ایک مناسب جگہ تھی اور کسی کو فائرنگ کی آواز بھی نہیں سنائی دیتی. اس کے ساتھ ہم تالاب میں تیراکی بھی کرتے تھے اور اپنی تھکن اتارتے تھے. یہ بات قابل ذکر ہے کہ شوٹنگ کی مشق میں جو لوگ ہمارے ساتھ تھے ان میں سے ایک رضوانی صاحب تھے.

 

 

 

 

منبع: مهاجر شریف، خاطرات حجت الاسلام و المسلمین حسن یزدی زاده، تدوین علیرضا نخبه، تهران، عروج، ۱۳۹۹(2020)، ص 134-139.

 



 
صارفین کی تعداد: 48


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین کے لیے جیل کے حمام کی حالت

میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی. میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تھوڑا پیچھے جا کر بیٹھ جائیں اور مجھے آپ کی پیروں کی آواز سے پتہ چلنا چاہیے کہ آپ لوگ کہاں ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔