نوجوان دوشیزہ نشان عبرت بن گئی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-12-8
پہلے ہی دن(سن 1975/1354) فٹ بال روم کے بعد مجھے(زہرا رحیمی) حراست میں رکھا گیا اور مجھے جیل کے آٹھ کونوں والے داخلی راستے والے حصے میں رکھا گیا. میں تین دن تک وہیں تھی. جب کوئی نہیں ہوتا تھا تو میں ایک کونے میں بیٹھ جاتی تھی اور جب کوئی آتا تھا تو میں اس ڈر سے کہ وہ تفتیشی افسر نہ ہو، کھڑی ہوجاتی تھی. جو کوئی بھی وہاں سے گزرتا مجھے کوئی نہ کوئی اذیت دیتا. کوئی لات مارتا تھا، کوئی گالی دیتا تھا اور مجھے ان سے خوف آتا تھا. میں جانتی تھی کہ وہ لوگ اخلاقی طور پر منحرف ہیں(برے لوگ ہیں) اسی لیے جب بھی وہاں سے کوئی گزرتا تھا تو میری جان حلق میں آجاتی تھی. پہلی انکوائری کے لیے مجھے حسینی کے کمرے میں لے جایا گیا. کمرے کے دروازے کے باہر کچھ لوگ لائن لگائے کھڑے تھے، میں بھی ان کے پیچھے تشدد کے انتظار میں کھڑی ہوگئی. اس دوران تشدد کا نشانہ بننے والے مردوں اور خواتین کی دل دہلا دینے والی آوازیں ایک لمحے کے لیے بھی رک نہیں رہی تھی. آخرکار میری باری آئی. آنکھوں پر پٹی بندھے میں کمرے میں داخل ہوئی. حسینی نے میرے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا اور اچانک میرا چہرہ اور کان گرم ہوگئے. اس کے بعد انہوں نے مجھے ایک تخت پر لٹا دیا اور اتنے کوڑے مارے کہ میرے تلووں سے خون نکلنے لگا اور میرے ناخنوں کا نچلا حصہ بھی پھٹ گیا اس سے بھی خون نکلنے لگا، کچھ دنوں بعد میرے پیروں کے ناخن خود بخود جھڑ گئے. اس کے بعد میرا تفتیشی افسر رضائی نامی شخص تھا جو منوچہری کی فورس کا حصہ تھا اور وہ اس کے ماتحت کام کرتا تھا. رضائی ناتجربہ کار تھا اور اسے کوڑے مارنے نہیں آتے تھے. جب وہ کوڑے مارتا تھا تو اسے پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کہاں مار رہا ہے. سر پر، چہرے پر، پیروں پر اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا. انکوائری کے شروع کے ان تین دنوں میں انہوں نے مجھے دو بار لٹکایا تھا. ایک بار انہوں نے میری کلائی انکوائری کے کمرے کی کھڑکی سے باندھ دی تھی. میرے جسم کے وزن سے میرے ہاتھ پر کھنچاؤ آرہا تھا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کھنچاؤ بڑھتا جارہا تھا. کندھے سے لے کر کلائی تک مجھے شدید درد ہورہا تھا. کافی دیر تک میں اسی طرح لٹکی رہی، اور ایک بار منوچہری نے رضائی سے کہا کہ اسے دائرے کے گرد ہاتھوں سے لٹکادو تاکہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے. انہوں نے میرا سر ڈھک دیا اور ربڑ کی مضبوط پٹیوں سے میرے ہاتھ دائرے کی سلاخوں سے باندھ دیے. ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ رضائی نے کوڑے مارنا شروع کردیے. کوڑوں کی وجہ سے میرے بدن میں ہونے والی جنبش سے میرے ہاتھوں میں مزید کھنچاؤ بڑھ رہا تھا اور میرے لٹکنے کی تکلیف کو مزید بڑھا رہا تھا. تین دن تک ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد مجھے علیحدہ سیل میں ڈال دیا گیا. مجھے اپنے سیل کا نمبر معلوم نہیں تھا. سیل کے فرش پر بچھے کارپٹ سے خون کی بہت تیز بو آرہی تھی. یعنی جس طرح میرے پیروں سے خون نکل کر کارپٹ پر گر رہا تھا دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا اور یہ خون ایک کے اوپر ایک خشک ہوتا رہا ہوگا. اس وقت ستمبر(مھرماہ) کا مہینہ تھا اور موسم بہت ٹھنڈا تھا. دو تین دن تک مجھے کمبل نہیں دیا گیا. میں نے کارپٹ کو اپنے اوپر ڈالنا چاہا لیکن اس کے کڑک ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا. میرے سر میں بہت درد ہو رہا تھا کیونکہ انہوں نے میرے بال کھینچے تھے. میں نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور اکھڑے ہوئے بالوں کو سیل کے ایک کونے میں رکھ دیا اور اچانک میں نے دیکھا کہ بال ہل رہے ہیں. جب میں نے بالوں کو ہٹایا تو میری نظر ایک چوہے پر پڑی. مجھے چوہے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن مجھے اس بات کی فکر تھی کہ کہیں چوہا مجھے کاٹ نہ لے اور میں بیمار نہ ہوجاؤں. میں نے دروازہ بجایا اور گارڈ سے چوہے کو نکالنے کا کہا.
منبع: آن روزهای نامهربان(یاد از رنج هایی که برده ایم...)، فاطمه جلالوند، تهران، موزه عبرت ایران، ۱۳۸۵(2006)، ص 153-155.
صارفین کی تعداد: 91